میری کتنی عزت تھی زین کے دل میں۔۔ کیا عزت رہ گٸ ہو گی میری۔۔۔ وہ بس سوچ ہی سکتی تھی۔۔۔
یہ رشتے خدا کے بناے ہوتے ہیں۔۔۔ دیکھو کیسے ۔۔۔ زین سے شادی ہوتے ہوتے ہی تمھاری زرداد کے ساتھ ہو گٸ۔۔۔ اشعال اب برتن صاف کرتے ہوۓ بول رہی تھی۔۔۔
ہاں جہاں ۔۔۔ آپکے بھاٸی جیسے دماغ والا انسان ہو۔۔ وہاں شادی سے ایک رات پہلے بھی ۔۔ شادی ٹوٹ جایا کرتی ہے۔۔۔ وہ بھی اب اس کے ساتھ برتن صاف کر رہی تھی۔۔۔ لیکن دل تھا کہ زرداد کے لیے صاف ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔۔۔
یہ بہت پیارا رشتہ ہوتا ہے۔۔۔ تم ہی ہو جو اس کے اور ابا کے درمیان ناچاقی ختم کروا سکتی ہو۔۔۔ ۔اشعال چاولوں سے بھری ڈش ایک طرف رکھتی ہوٸی بولی۔۔۔
پہلے میں اپنی ناچاقی تو ختم کر لوں۔۔۔ پتہ نہیں کب تک ہوں اس کے ساتھ۔۔۔۔دل ایک دم بجھ سا گیا تھا۔۔۔
زرداد بہت اچھا ہے۔۔۔۔ برتن ایک طرف رکھ کے اب وہ اس کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر کھڑی تھی۔۔۔
میں جانتی ہوں ۔۔۔۔ شادی بہت اچانک ہوٸی ہے ۔۔ پر۔۔۔ میں نےزری کو ان سالوں میں بکھیرتے۔۔۔ جڑتے دیکھا ہے۔۔۔ اس کے انگ انگ سے بھاٸی کی محبت جھلک رہی تھی۔۔۔
آپ نے صرف اس کا ٹوٹنا اور بکھرنا دیکھا ہے آپی۔۔۔ میرا بکھرنا اور جڑنا نہیں دیکھا۔۔۔ وہ دل میں سوچ رہی تھی۔۔۔
میں تو جب جڑی۔۔۔ اس شخص نے مجھے پھر سے توڑ نے میں کوٸی کثر نہیں چھوڑی۔۔۔
وہ ۔۔ تھوڑا ۔۔ منہ پھٹ ہے۔۔۔ لیکن دل کا برا بلکل نہیں ہے۔۔۔ اشعال پیار سے اس کا منہ اپنے ہاتھوں میں لےکر بولی۔۔۔ اسے شاٸید محسوس ہو گیا تھا کہ دانین زرداد کے ساتھ کچھی کھچی سی ہے۔۔ اسی لیے اسے سمجھا رہی تھی۔۔۔
دل صرف اسی کے پاس نہیں ہے۔۔۔ دل سب رکھتے ہیں۔۔۔ زین کو جب جھوٹ بول کر آیا۔۔۔
زرداد نے کان کھجاتے ہوۓ۔۔۔ دانین کے کان میں سرگوشی کی۔۔۔ دانین نے بڑی مشکل سے اپنے چہرے پر آنے والے آثار کو کنٹرول کیا اور اشعال کی طرف مسکرا کر دیکھا۔۔۔
تمھاری کیسی جا رہی جاب اب۔۔۔ اشعال اس سے پوچھ رہی تھی۔۔۔ دانین کو ہاسپٹل جاتے ہوۓ۔۔۔ ایک ہفتہ ہوا تھا۔۔۔
وہ اشعال کو اپنی جاب کا بتا رہی تھی۔۔۔ زرداد اس کی طرف دیکھے جا رہا تھا۔۔۔
اشعال کھانا لگانےکے لیے اٹھی تو وہ بھی فوراََ اس کے ساتھ اٹھ گٸی تھی۔۔۔ زرداد کی نظروں سے بچنے کا یہ ہی ایک طریقہ تھا۔۔۔
دانین بیٹھ جاٶ نا میں کر لیتی ہوں۔۔۔ اشعال کچن کی طرف جاتے ہوۓ اسے بیٹھنے کا اشارہ کر رہی تھی۔۔۔
نہیں نہیں۔۔ آپی۔۔۔ مجھے اچھا نہیں لگے گا۔۔۔ وہ مسکراتی ہوٸی جلدی سے اٹھ گٸ تھی۔۔۔۔
دانین ۔۔۔ اشعال نےبرتن نکالتے ہوۓ ۔۔۔ دانین کی طرف دیکھا۔۔۔
زرداد نے اسے کن اکھیوں سے دیکھا۔۔۔ اور شرارت سے مسکرا دیا۔۔۔
ہم۔م۔م۔م۔ کیا بنایا ہے کھانے میں ۔۔ پوچھتا ہوا وہ دوبارہ اپنے صوفے سے اٹھ کر دانین کے ساتھ آ کر بیٹھ گیا تھا۔۔۔ دانین چڑ سی گٸ تھی۔۔۔ ماتھے پہ بل ڈال نہیں سکتی تھی اور نہ ہی ناگواری دیکھا سکتی تھی۔۔۔
زرداد اور اشعال باتوں میں مصروف تھے۔۔۔ وہ دوبارہ اٹھنے لگی تو زرداد نے ہاتھ پکڑ لیا۔۔ اور تھوڑا سا جھٹکا دے کر پھر سے اپنے ساتھ بیٹھا دیا۔۔۔
تمہیں کیا مسٸلہ ہے۔۔۔ کبھی ادھر کبھی ادھر۔۔ بیٹھ جاٶ۔۔۔ آرام سے۔۔۔ تھوڑے ڈانٹنے کے سے انداز میں کہا۔۔
دانین نے پوری آنکھیں نکال کر اس کی طرف دیکھا۔۔۔ لیکن وہ مسکرا رہا تھا۔۔۔
اشعال بھی مسکرا دی۔۔۔ کتنے پیارے لگ رہے تم دونوں ایک ساتھ بیٹھے۔۔۔ وہ ان دونوں کو پیار سے دیکھ رہی تھی۔۔۔
بیٹھتے ہی ہیں بس ایک ساتھ۔۔۔
وہ کہاں ہے ۔۔۔ تمھارا ۔۔۔ کھڑوس۔۔۔ شوہر۔۔۔ صوفے پر۔۔۔ دانین کے ساتھ بیٹھتے ہوۓ اس نے اشعال سے پوچھا۔۔۔ گھر تو اپنے پاس بھٹکنے بھی نا دیتی تھی۔۔۔ یہاں بہانے سے اس کی قربت میں بیٹھا جا سکتا تھا۔۔۔
شرم کرو بھاٸی کہا کرو۔۔۔ اشعال خفگی سے۔۔۔ زرداد کی طرف دیکھ رہی تھی۔۔۔
تمہیں کبھی آپی کہا نہیں۔۔ اسے کیسے بھاٸی کہہ دوں۔۔۔ وہ ہنس رہا تھا۔۔۔ اور بار بار اپنے ساتھ بیٹھی اس سخت دل محبوبہ کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ تین ہفتے ہونے کو آۓ تھے ۔۔ مجال ہےان محترمہ کے دل میں تھوڑی سی بھی جگہ بنی ہو۔۔۔ ویسی ہی سختی۔۔۔ وہی حقارت وہی ناگواری۔۔۔
اشعال نے شادی کے بعد آج دونوں کو کھانے پر بلایا تھا۔۔۔
دانین اٹھ کر بہانے سے سامنے والے صوفے پر چلی گٸ۔۔۔ وہاں رانیہ لیٹی ہوٸی تھی۔۔رانیہ کا بہانا کر کےزرداد کے پہلو سے اٹھ کر آ جانا اسے بہتر لگا۔۔۔
اپنے دماغ کو سرزنش کر رہا تھا۔۔۔
وہ سرخ ۔۔۔ چہرے۔۔۔اور پھولے ہوۓ ناک کے ساتھ ۔۔۔ سادہ سے سوٹ میں باتھ روم سے نکلی اور تیزی سے ۔۔۔ جا کر اپنی طرف بیڈ پر پوری چادر تان کر لیٹ گٸ۔۔۔
وہ کمر پر ہاتھ رکھ کر کچھ دیر کھڑا اس کو دیکھتا رہا ۔۔۔
باہر چلے جانا ہی بہتر تھا۔۔۔ ۔۔ سامنے پڑے لاٸٹر کو جیب میں رکھ کے۔۔۔ وہ ٹیرس پر آ چکا تھا۔۔۔
صیح کیا تھا یا غلط وہ نہیں جانتا تھا۔۔۔ لیکن ۔۔۔ دانین کو وہ نہیں چھوڑ سکتا تھا۔۔۔ ۔سگریٹ کو منہ میں رکھ کر آج کے لاٸیو شو کی ویڈیو۔۔۔ دیکھ رہا تھا۔۔۔
❤❤❤❤
وہ جھٹکے سے پیچھے ہوٸی تھوڑا سا۔۔۔
وہ فوراََ بالوں کا جوڑا بنانا شروع ہو گٸ تھی۔۔۔۔ دونوں بازو اوپر جو کیے۔۔۔ تو۔۔۔ پتلی سی کمر۔۔۔ زرداد پر بجلیاں گرانے لگی۔۔
اور یہ ۔۔۔ ۔۔ اگے بولا تو کچھ نہیں۔۔۔ لیکن نظریں اب کمر پر ہی ٹکی تھی۔۔۔
دانین نے اچانک اسکی نظروں کی تپش محسوس کی۔۔۔ گھبرا کے فوارََ بازو نیچے کیے۔۔۔۔ چہرہ اس کی اس بےباکی پہ سرخ ہو گیا تھا۔۔۔ ویسے تو بلاوز پورا ہی تھا کمر کو ڈھکتا ہوا ۔۔۔ لیکن بازو اوپر جانے سے۔۔۔ تھوڑا سا اوپر ہو گیا تھا۔۔۔
وہ تیزی سے وہاں سے نکلی۔۔۔ باتھ روم کی طرف چل دی تھی۔۔۔
اس کے جانے سے۔۔۔ زرداد جسے ایک دم ہوش کی دنیا میں لوٹا تھا۔۔
آجا۔۔۔ آجا۔۔۔ واپس۔۔۔ دونوں ہاتھوں کو سر میں جکڑ کر دماغ سے کہا۔۔۔
کہاں چلا جاتا ہے۔۔۔ سب کچھ دل کے حوالے چھوڑ کے۔۔۔ وہ مچلتے دل۔۔۔ کو سنبھالتے ہوۓ۔۔۔
دل غلطی کر بیٹھا ہے۔۔۔
قلم ازہماوقاص۔۔
قسط نمبر14
تھنکیو۔۔۔ اس کے بلکل عقب سے آواز ابھری۔۔۔ وہ کچھ سوچنے کے سے انداز میں ڈریسنگ کے سامنے بیٹھی۔۔ زیور اتار رہی تھی۔۔۔ جب زرداد نے بلکل پیچھے کھڑے ہو کر کان میں سرگوشی کے سے انداز میں کہا۔۔۔۔
وہ کس لیے۔۔ سپاٹ لہجہ۔۔۔ ساکت چہرہ۔۔۔ لیے دانین نے کہا۔۔۔ وہ سیاہ ساڑھی میں ملبوس اپنے سارے جلوے سمیت۔ براجمان تھی۔۔۔ زرداد کی بے ترتیب ہوتی دھڑکنوں سے یکسر انجان۔۔۔
آج کے دن کے لیے۔۔۔ وہ بھر پور طریقے سے مسکرا رہا تھا۔۔۔ دھیرے سے بلکل اس کے سامنے آ کر ٹیک ڈریسنگ میز سے لگا کر ۔۔۔ ایک بھر پور نظر اس پر ڈالتے ہوۓ کہا۔۔۔۔
اور وہاں جوکچھ تم نے کہا اس کے لیے۔۔۔۔ بھاری آواز میں کہا۔۔۔۔ آنکھیں۔۔۔ اس کے آج کے ہوش ربا روپ کے نشے سے بھر پور تھیں۔۔۔
میں نے وہاں جو بھی کہا وہ سب سچ کہا تھا
نازش حیران ہو کر زرداد کی طرف دیکھ رہی تھی۔۔۔
یہ اپنا پیار ہمیشہ چھپا کر رکھتی ہیں۔۔۔۔ زرداد ہنس کر بول رہا تھا۔۔۔ وہ صرف مجھ پر ہی لٹاتی۔ ہیں۔۔ وہ شرارت سے دانین کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔
شی لوز می۔۔۔ آ لوٹ۔۔۔ زرداد نے دل پہ ہاتھ رکھ کر پر یقین انداز میں کہا۔۔
دانین کا دل کیا منہ نوچ لے اسکا۔۔۔
واو۔۔۔ دانین کے لیے۔۔۔ وہی سونگ ہو جاۓ ۔۔۔ ۔ نازش اب زرداد کو گانا گانے کے لیے کہہ رہی تھی۔۔۔
سانولی سلونی۔۔۔ سی ۔۔۔ محبوبہ۔۔۔ زرداد دانین کو محبت بھری نظروں سے دیکھتا ہوا گا رہا تھا۔۔
سب لوگ جھوم رہے تھے۔۔
۔❤❤❤❤❤❤❤❤
جاری ہے
ب وہ دانین سے پہلے اس کا تعارف لیتی رہی پھر آنکھوں میں چمک اور شرارت بھر کر پوچھا۔۔۔
دانین آپکو۔۔۔ پرابلم تو ہوتی ہو گی۔۔۔ جب۔۔ لڑکیاں یوں۔۔۔ زرداد کے ارد گرد منڈلاتی ہوں گی۔۔۔
نہیں۔۔۔ دانین نے بڑی مشکل سے مصنوعی مسکراہٹ ہونٹوں پہ سجاٸی۔۔۔۔ وہ بچپن سے ہی ان کے ارد گرد منڈلاتی رہی ہیں۔۔۔ یہ میرے لیے نیا نہیں اس لیے کوٸی پرابلم نہیں ہوتی مجھے۔۔۔
زرداد کے ساتھ ساتھ پورا شو قہقوں سے گونج اٹھا تھا۔۔۔
چلیں دانین آپ ہمیں بتاٸیں ۔۔۔ کیسے پرپوز کیا تھا انھوں نے آپکو۔۔۔۔ نازش پر شوق نظروں سے اب دانین کے جواب کا انتظار کر رہی تھی۔۔۔
انھوں نے مجھے پرپوز نہیں کیا تھا۔۔۔ میری طرف سے ارینج میرج ہے یہ ۔۔۔ لو صرف ان کی طرف ساتھا۔۔۔ اپنے الفاظ پہ نرماہٹ کا لبادہ چڑھا کر وہ بمشکل بول پاٸی تھی۔۔۔
اوہ۔۔۔۔ زری کیا یہ سچ کہہ رہی۔۔ ہیں۔۔۔
نازش نے اپنے دونوں ہاتھ اپنے منہ پر رکھ کر دانین کی قسمت پر رشک کیا۔۔۔
ویسے ڈاکٹرز ۔۔۔ زیادہ طر ڈاکٹرز سے ہی شادی کرتے۔۔۔ یہ کیسا کمبینیشن ہوا۔۔۔ زرداد۔۔۔ ایک سنگر۔۔۔ ایک ڈاکٹر۔۔۔ کیسا ریلشن آ پ کا۔۔۔ نازش ہاتھوں کو داٸیں باٸیں گھماتی ہوٸی پوچھ رہی تھی۔۔۔
زرداد نے قہقہ لگایا تھا۔۔۔ ایک جاندار قہقہ۔۔۔
پھر اپنے مخصوص انداز میں کوٹ کو جھٹکتے ہوۓ بولا۔۔۔
میرے خیال سے کبھی کبھی ڈاکٹرز کو مریض سے بھی شادی کرنی پڑتی۔۔۔ ان کے عشق نے بیمار کر رکھا تھا ۔۔ اگر نا ملتی۔۔۔ تو کیسے جیتا۔۔۔ وہ مسکرا رہا تھا۔۔۔ سب لوگ اس کی اس بات پر چیخ رہے تھے۔۔۔ تالیاں بجا رہے تھے۔۔۔
ہاۓ۔۔۔ نازش نے اس کی اس بات پر بڑی ادا سے سینے پہ ہاتھ رکھا۔۔۔۔اللہ آل ویز بلس۔۔۔ یو۔۔۔ اینڈ یور واٸف۔۔۔ اس نے منہ پہ ہاتھ رکھ کے دونوں کو ہوا میں بوسہ دیا۔۔۔ ۔
نازش شرارت سے مسکراتی ہوٸی پوچھ رہی تھی۔۔
لو۔۔۔ پلس ارینج ہی سمجھیں۔۔۔ زرداد بلش بھی ہو رہا تھا۔۔۔
لو۔۔۔ پلس۔۔۔۔ ارینج کا کچھ لگتا۔۔۔ بتا نہیں سکتا کیا اب کیسے دھوکا دے کر پھانسایا ہے مجھے۔۔۔ وہ دانت پیستی ہوٸی سوچ رہی تھی۔۔۔
واٶ۔۔۔۔ دیٹس گریٹ۔۔۔ ویسے تو ۔۔۔ مس دانین بہت خوبصورت ہیں ۔۔۔ آپکو کیا اچھا لگا۔۔۔ ان میں۔۔۔ نازش اب دانین کو مسکرا کر دیکھ رہی تھی۔۔۔
یہ پوچھیں۔۔ کیا اچھا نہیں لگتا مجھے۔۔۔ آٸی لو ہر۔۔۔ مجھے لگتا۔۔۔ہے۔۔۔میں ان کے بنا جی نہیں سکتا۔۔۔ زرداد نے محبت سے دانین پر فدا ہونے کے سے انداز میں کہا۔۔۔۔
سارا شو تالیاں پیٹ رہا تھا۔۔۔ زرداد کی اس بات پر۔۔۔
بس وہ تھی۔۔۔ جو ان الفاظ کو دھوکا سمجھ رہی تھی۔۔۔ جھوٹا۔۔کل یہی سب کسی اور کے لیے۔۔۔ کہہ رہا ہو گا۔۔۔
اوہ ۔۔۔۔۔ ماٸی ۔۔۔۔ گاڈ۔۔۔ دانین ہاو لکی یو آر۔۔۔
زرداد نے جاندار قہقہ لگایا تھا۔ پھر خجل سا ہو کر۔۔۔ کان کھجایا۔۔۔
آج پہلے تو ۔۔۔ ہمیں۔۔۔ ایک بات کنفرم کر دیں۔۔۔ آپ کی ریسنٹ البم آٸی تھنک ان کے ہی نیم پر ہے۔۔۔ نازش کا اگلا سوال۔۔۔
یس۔۔۔ کوٹ کو ایک جھٹکا دیا تھا۔۔۔ اور ہونٹوں پر زبان پھیری۔۔۔
اوہ۔۔۔ ویری گڈ۔۔۔ مطلب ۔۔۔ لو ۔۔۔ اور اپکا ۔۔۔ سونگ۔۔۔سانولی سلونی اپکی دانین کے لیے ہی تھا۔۔۔ ایم آٸی راٸٹ۔۔۔ نازش بھی پوارا انجواۓ کر رہی تھی۔۔۔
جی۔۔۔ بلکل۔۔۔ انہیں کے لیے تھا۔۔۔ جس نے مجھے اتنا نام دے دیا۔۔۔ اسی گانے کی وجہ سے مجھے اتنی شہرت ملی۔۔۔ بے شک ۔۔۔ دانین میرے لیے بہت لکی ہے۔۔۔ جیسے ہی یہ میری زندگی میں آٸی ۔۔۔ سب کچھ بدل گیا۔۔۔۔ زرداد نے ۔۔۔ چمکتی آنکھوں اور سچے دل سے کہا۔۔۔
دنیا جہان کا جھوٹا انسان۔۔۔۔ دانین نے دل میں جل کے سوچا تھا۔۔۔۔
تو آپکی شادی پیور لو۔۔۔ ۔۔
زہر لگ رہا تھا اسے وہ۔۔۔ اس طرح کرتے ہوۓ۔۔۔ اوپر سے ساڑھی۔۔۔ ایسی تھٕی۔۔۔ بھر کے میک اپ کر دیا تھا۔۔۔
نازش انھیں اندر داخل ہونےکا طریقہ بتا رہی تھی۔۔۔ کہ۔کس طرح زرداد کو ایک ہاتھ اس کے گرد گھمانا ہے ۔۔۔
میں کمفرٹیبل فیل نہیں کروں گی۔۔۔ اف یو ڈونٹ ماٸینڈ ایسے ہی آجاتے ہم دانین نے بہت دھیرے سے کہا ۔۔ بڑی مشکل سے چہرے پر مسکراہٹ لاٸی تھی وہ ۔۔۔
نو نو۔۔ ماٸی ڈارلنگ۔۔۔ ایسے نہیں پلیز۔۔۔۔ نازش ۔۔۔ نے اسے پیار سے کہا اور التجا کے انداز میں اس کی طرف دیکھا۔۔
زرداد پکڑو دانین کو۔۔۔ وہ آرڈر دیتی ہوٸی شو کے فرنٹ میں چلی گٸ۔۔۔ تھی۔۔۔
زرداد کا سانولی سلونی ولا گانا بیک گراونڈ میں چل رہا تھا۔۔۔
زرداد نے اس کو کمر سے پکڑ کر ساتھ لگایا تھا۔۔ کمر پر ہاتھ کی گرفت بہت مضبوط تھی۔۔۔
پھر اس کے کان کے قریب ہو کر سرگوشی کی۔۔۔
دانین دھیرے سےمسکراٸی تھی۔۔۔
ٹھیک ہے۔۔۔ میں آ رہی ہوں شام کو۔۔۔ وہ بہت اخلاق سے بولی تھی۔۔۔ زرداد نے بہت مشکور نظروں سے۔۔۔ دانین کی طرف دیکھا تھا۔۔
ہے۔۔۔ زری۔۔۔ یور واٸف از سو انوسینٹ۔۔۔ اٸی لاٸک ہر۔۔۔ لکی مین یو آر۔۔۔ نازش بڑی خوش دلی سے کہہ رہی تھی۔۔۔
اور زرداد محبت پاش نظروں سے دانین کی طرف دیکھ رہا تھا جس نے آج اس کی عزت رکھ لی تھی۔۔۔
❤❤❤❤❤❤
اسے شو سے پہلے میک اپ آرٹسٹ نے تیار کیا تھا۔۔۔ سیاہ۔۔۔ ستاروں اور کندن سےچمکتی ساڑھی۔۔۔ اس کے لمبے قد پر غضب ڈھا رہی تھی۔۔۔ اور بولڈ میک اپ نے اس کے حسن کو چار چاند لگا دیے تھے۔۔۔
جب وہ تیار ہونے کے بعد زرداد کے سامنے آٸی تو ۔۔۔ زرداد کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا تھا۔۔۔ پھر اپنے دل پر ہاتھ رکھ کے پیچھے کو جھکنے کی ایکٹنگ کی۔۔۔ ہوش تو اڑا ہی دیے تھے دانین نے۔۔
زہر لگ رہا تھا اسے وہ۔۔۔
میں ملنا چاہتی دانین سے۔۔۔ ریکویسٹ کرنی ہے ان سے ایکچولی۔۔۔ ہمارے چینل نے آپ کے آنے کا انفارم کر دیا تھا۔۔۔ ریٹنگ اپ پر ہے ۔۔ پلیز ۔۔ آپ یوں شو۔۔ مت چھوڑیں۔۔
میں میم سے بات کرتی ہوں ۔۔ آپ بلوا دیں ۔۔۔ نازش ہمیشہ کی طرح بہت محبت سے بات کر رہی تھی۔۔۔
میم پلیز۔۔۔ نازش ساری بات دانین سے ڈسکس کرنے کے بعد اب التجا سے دیکھ رہی تھی۔۔۔
جبکہ دانین خاموش بیٹھی تھی۔۔۔ ہاں اتنا ضرور تھا کہ چہرے پر ایسی کوٸی ناگواری نہیں تھی۔۔۔ جو زرداد سے بات کرتے وقت ہوتی تھی۔۔۔
زری نے ہمیں کبھی اس طرح انکار نہیں کیا تھا پہلے۔۔۔ اس لیے ہمیں بلکل اندازہ نہیں تھا۔۔۔ ہم شو کی پروموشن کا اشتہار ہر گز نا دیتے اگر اس بات کا علم ہوتا۔۔۔ لیکن اب ہم مجبور ہیں۔۔۔آپ اپنا کام چھوڑ سکتی ہیں کیا ہمارے لیے۔۔۔ نازش التجا کے انداز میں اسے کہہ رہی تھی۔۔۔
۔۔۔ لیکن دانین کسی صورت بھی اس کے ساتھ چلنے کے لیے تیار نہیں تھی۔۔۔
اوکے سر ڈونٹ وری۔۔۔مشہود فون سے نمبر ملاتا ایک طرف چل دیا تھا۔۔۔
اسے ابھی آکر بیٹھے کچھ دیر ہی ہوٸی تھی۔۔۔ جب مشہود نے اسے اسی ٹی وی چینل کے پڈیوسر اور اینکر کا بتایا کہ وہ گھر پہنچ گۓ ہیں۔۔۔
اوہ نازش۔۔۔ وہ ۔۔۔ ٹی وی چینل کی اینکر سے خوش دلی سے ملا تھا۔۔۔ وہ نازش کو جانتا تھا۔۔۔ بہت بار ۔۔ وہ شوز میں ۔۔۔ پارٹیز میں ایک دوسرے سے مل چکے تھے۔۔۔
تم نے تو بیوی کو ایسے چھپا لیا۔۔۔ نازش مسکراتے ہوۓ کہہ رہی تھی۔۔۔
ہم سب تو تمہاری ریسپشن پارٹی کا ویٹ کرتے رہے۔۔۔ اس نے نازش کو سامنے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔۔۔ وہ بیٹھتے ہوۓ اس سے گلا کر رہی تھی ریسپشن پارٹی نا دینے کا۔۔۔ اور یہ گلا صرف وہی نہیں کر رہی تھی۔۔۔ سب کر رہے تھے۔۔۔
کیونکہ ایسا اٹیٹیوڈ اس نے پہلےکبھی کسی چینل کو نہیں دکھایا تھا۔۔۔ جیسا وہ آج کرنے جا رہا تھا۔۔۔
ارے۔۔۔ یار۔۔۔ بھاڑ میں جاٸیں پیسے۔۔۔ تمھاری بھابھی کو کوٸی کام ہے ضروری۔۔۔ اور ہاں آٸیندہ کسی بھی چینل سے یہ کپل انٹرویو۔۔۔ کی فرماٸش آۓ صاف منع کر دینا خود سے ہی۔۔۔ وہ غصے کی برداشت کی آخری حد پر تھا۔۔۔ اور چہرہ بھی سرخ ہو رہا تھا۔۔۔
سر لیکن۔۔۔ مشہود نے پھر سے بولنے کی کوشش کی لیکن اس کا خراب موڈ اسے چپ کروا گیا۔۔۔
اوہ یار ۔۔۔ بس کرو نا۔۔۔ سر میں درد ہے ۔۔ بے زاری سے خشک ہوتے ہونٹوں پہ زبان پھیری۔۔۔
وہ پورا ایک گھنٹہ دانین کے ساتھ سرکھاپا کر آیا تھا۔۔۔ اس پر غصہ اتار نہیں سکتا تھا۔۔۔ سو خود پر ہی نکال رہا تھا۔۔۔
پاکستان کے ٹاپ چینل میں سے ایک چینل کی طرف سے زرداد اور اس کی واٸف کے انٹرویو۔۔۔ کے لیے شو کی فرماٸش آٸی تھی۔۔۔
ہم۔م۔م۔۔۔ زرداد نے لب بھینچے۔۔۔ پھر۔۔ ہاسپٹل کیسے جاٶ گی۔۔۔ اگلا جواز پیش کیا۔۔۔
میں اپنی عادتیں نہیں خراب کرنا چاہتی۔۔۔ یہ سب۔ ۔۔۔ پتہ نہیں کتنے عرصے تک میرے پاس ہو۔۔۔ عارضی چیزوں کو میں اپنی ضرورت نہیں بناتی۔۔۔ وہ کندھے اچکا کر بولی۔۔۔۔
لیکن میں تو یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ میری بیوی۔۔۔ٹیکسی میں دھکے کھاتی پھیرے۔۔۔ چابی دوبارہ اس کے آگے کی۔۔
تمھیں جتنا میرا خیال ہے۔۔۔ یہ میں دیکھ چکی ہوں بہت دفعہ اپنی زندگی میں۔۔۔
۔ یہ کار تمہیں مبادک ہو۔۔۔ وہ کار پر ایک نظر ڈال کر اندر جا چکی تھی۔۔۔
❤❤❤❤❤
مشہود منع کر دو۔۔۔ جیبوں میں ہاتھ ڈالے وہ بے زار سی شکل بنا کر مشہود کو کہہ رہا تھا۔۔
سر ان کی کال آٸی ہے۔۔۔ وہ پیسے بڑھا رہے ہیں۔۔۔ مشہود نے پھر ریکوسٹ کے انداز میں کہا۔۔۔ زراداد نے بال ایک ہاتھ سے پیچھے کیے۔۔۔ وہ واقعی پریشان تھا۔۔۔
انتہاٸی کوٸی۔۔۔ وہ کہتے کہتے ۔۔ دانت پیس کر ہی رہ گٸی تھی۔۔اس کامزید اب سر کھپانے کاحوصلہ نہیں تھا۔۔
بیڈ کی ساٸیڈ پر سمٹ کر لیٹ گٸ تھی۔۔۔
اتنا تھک چکی تھی کہ کب سوٸی پتہ ہی نا چلا۔۔۔
❤❤❤
میں نہیں لے سکتی یہ۔۔۔ اپنی آنکھوں کے سامنے لہراتی گاڑی کی چابی دیکھ کر دانین نے کہا تھا۔۔۔ چہرہ سپاٹ تھا۔۔۔
آج کراچی آۓ اسے تین دن ہو گیے تھے۔۔۔
زرداد اسے کار گفٹ کر رہا تھا۔۔ منہ دکھاٸی میں۔۔۔ جس کی چابی کو لینے سےاس نے صاف انکار کر دیا تھا۔۔۔
کیوں۔۔۔ اتنے پیار سے لے کر آیا ہوں میں۔۔۔ وہ اب کار کی طرف دیکھ رہا تھا ۔۔۔ اور کبھی دانین کی طرف۔۔۔
میں کیونکہ۔۔۔اس پیار کو بھی ایکسپٹ نہیں کر رہی تو۔۔۔ اس کار کو کیونکر کروں۔۔۔ آپ اپنا یہ گفٹ اپنے پاس رکھیں ۔۔۔ تھوڑے طنز اور غصے کے ملے جلے عنصر میں کہا۔۔۔
مجھے اس کی کوٸی ضرورت نہیں۔۔۔ لہجہ سخت تھا۔۔۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain