اور نہ خود رہ سکتا تھا۔۔۔ میں حقیقت جاننے کے بعد اس دن آ سکتا تھا۔۔ شادی روک بھی سکتا تھا۔۔ لیکن میں جان بوجھ کر نہیں آیا تھا۔۔۔ اس نے سر نیچے جھکا لیا۔۔۔
اور تمہیں جو لگتا کہ میں تمہیں حقارت سے دیکھتا ہوں ۔۔۔ایسا بلکل نہیں ہے۔۔۔ تم واقعی ۔۔ عام لڑکی نہیں ہو۔۔۔ میں تو ویسے بھی تمہیں ابھی تک بھلا نہیں سکا۔۔۔ دل کو قابو میں لانے کو وہاں سے نکل آتا ہوں۔۔۔ وہ مسکرایا تھا۔۔
اور وہ حیرانی کے سمندر میں غوطے لگاتی اس کے سامنے بیٹھی تھی۔۔۔
اس کے بعد زین کچھ نہیں بولا تھا۔۔۔
دانین بھاری قدموں کو اٹھاتی وہاں سے چل دی تھی۔۔۔
❤❤❤💌💌💌💌💌❤❤❤
اچانک کمرے میں ہونے والی کھٹ پٹ پر دانین کی آنکھ کھلی تھی۔۔۔ زرداد ۔۔۔ اپنی الماری سے کپڑے نکال رہا تھا۔۔۔
اچھا تو آ گیا ہے۔۔۔ اس نے چوری سے تھوڑی سی آنکھیں کھول کے اسے دیکھا۔۔۔
جب تم نے نرمل کے ہاتھ مجھے پرپوزل بھیجنے کا کہا۔۔ میں یہی سمجھا کہ ۔۔۔۔ تمھارے دل میں میری محبت نے اثر کر دکھایا ہے۔۔ لیکن ایسا بلکل نہیں تھا۔۔۔ اس کی ہنسی میں اس کا درد بول رہا تھا۔۔۔
تم نے۔۔۔ زرداد کے لیے اپنی بے پناہ محبت کے گرد ایک خول چڑھا رکھا ہے۔۔۔ اور جس دن یہ خول چکنا چور ہوا۔۔۔ محبت کا سارا لاوا تمھارے پورے وجود میں پھر سے زرداد بن کر بہنے لگے گا۔۔۔ وہ اسے اس کے اندر کا حال بتا رہا تھا۔۔۔ شاٸید وہ دانین کو سچی محبت کرتا تھا۔۔۔ اسی لیے اس کو اتنا جانتا تھا۔۔۔
پھر میں ایسی۔۔۔ لڑکی سے کیسے شادی کر لیتا۔۔۔ جو پوری کی پوری کسی اور مرد کی محبت میں گرفتار ہو۔۔۔ اور ایسی محبت۔۔ جو برسوں پر محیط ہو۔۔۔ تمہاری ساری زندگی کا محور وہ ایک ہی شخص رہا ۔۔ ہے۔۔ اور مجھ سے شادی کے بعد بھی ایسا ہی رہنا تھا۔۔۔ پھر نا تو میں کبھی تمھیں خوش رکھ پاتا۔
اور ۔۔ پھر آگے موو کرتی ہیں۔۔۔ کچھ عرصے کے بعد وہ نارمل ہو جاتی ہیں۔۔۔ اور کسی اور پر وہی محبت لٹا رہی ہوتی ہیں۔۔۔ مرد سے محبت عورت کی فطرت میں شامل ہے۔۔۔
کوٸی بار بار کر بیٹھتی ہے۔۔۔۔ تو کوٸی ۔۔۔ صرف ایک سے ہی کرتی ہے۔۔۔ اور ہمیشہ اسی سے ہی کرتی رہتی ہے۔۔۔ اس نے زہریلی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجا کر کہا۔۔۔
اور دانین سکندر تم ان دوسرے نمبر والی عورتوں میں سے ہو۔۔۔
دانین نے بے یقینی سے اس کی طرف دیکھا۔۔۔ کیا جو کچھ وہ کہہ رہا تھا۔۔۔ واقعی ہی ایسا ہی تھا۔۔۔ کیا وہ سچ میں زرداد جیسے انسان کو ہی ہر رنگ میں خود پر سوار کیے رکھتی تھی۔۔۔ کبھی ڈر۔۔۔کبھی محبت۔۔۔ کبھی نفرت۔۔۔ اور کبھی ضد۔۔۔
15
تم ۔۔نے۔۔۔ کبھی ۔۔۔ ایک ۔۔ پل ۔۔۔ ایک ۔۔لمحے ۔مجھے یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ تمھارے دل میں میرے لیے کوٸی چاہت ہے۔۔۔ زین پھر سے بول رہا تھا۔۔۔
۔ لیکن جو کچھ وہ مجھے سارا ماضی تم دونوں کا بتا چکا تھا۔۔۔ اس سے میرے دماغ نے اور ہی نتیجہ نکال لیا تھا۔۔۔ وہ مسکرایا تھا۔۔۔ ٹوٹی سی ۔۔۔ پھیکی سی مسکراہٹ۔۔
دانین تھوڑی سی جزبز سی ہوٸی تھی۔۔۔ ایک یہ اس کا ماضی اسے جینے نہیں دے گا۔۔۔
دانین سکندر۔۔۔ تم ۔۔ صرف اور صرف زرداد کی تھی ہمیشہ سے۔۔۔ اور رہو گی ۔۔ بھی۔۔۔ تم نے نفرت کی ایک دیوار جو کھڑی کی تھی ۔۔۔ اس کی بنیاد کی ساری اینٹیں محبت کی ہی تھیں۔۔۔ نفرت کی آڑ میں بھی تم اسی سے محبت کرتی رہی ہمیشہ۔۔۔ وہ بہت ٹھہرے لہجے میں بول رہا تھا۔۔۔
اور دانین کے پاس سننے کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔۔۔
خود سوچو۔۔ دنیا میں تم جیسی ہزاروں لڑکیاں ایسی ہوتی ہیں۔۔ جن سے لڑکے جھوٹی محبت کرتے ہیں اور پھر چھوڑ دیتے۔ ہیں۔۔ زین نے سامنے پڑے میز پر اپنے بازو ٹکا کر اسے دیکھا۔۔۔
وہ بھول جاتی ہیں۔۔۔ اور ۔۔
دانین ۔۔ تم نے مجھ سے ۔۔ کبھی۔۔ محبت کیا۔۔ ہمدردی بھی نہیں کی تھی۔۔ اور مجھ سے شادی صرف اور صرف تمھاری زرداد سے فرار تھی۔۔۔ اور کچھ نہیں۔۔۔ وہ بڑے دھیرے دھیرے انداز میں اس پر راز افشاں کر رہا تھا۔۔۔
بدر کو جانتی ہو تم۔۔۔ زین نے چاۓ کا کپ ۔۔ ایک طرف کیا۔۔۔
دانین نے چونک کر زین کی طرف دیکھا۔۔۔ بہ۔۔بہ۔۔بدر۔۔ اسے کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا۔۔۔
ہاں بدر۔۔۔ زرداد کا پرانا دوست۔۔۔ اور اس کھیل کا رازدار ۔۔۔ جو زرداد نے تمھارے ساتھ کھیلا تھا۔۔۔ زین بڑے تحمل سے بول رہا تھا۔۔ حیرت در حیرت تھی ۔۔۔ دانین کی آنکھوں میں۔۔۔
دانین دم سادھے اسے سن رہی تھی۔۔۔
جس دن زرداد کے ساتھ تمھاری شادی ہونی تھی۔۔۔ وہ آیا تھا ۔۔۔ میرے پاس۔۔۔ زین نے اپنا چشمہ درست کیا۔۔۔
اپنی طرف سے تو مجھے یہی کہنے آیا تھا کہہ زرداد ۔۔۔ دانین کے ساتھ زبردستی شادی کر رہا ہے۔۔۔
دانین روہانسی سی ہو گٸ تھی۔۔۔
زین بلکل خاموش بیٹھا تھا۔۔۔ اس کے سامنے رکھا چاۓ کا کپ۔۔ اب بھاپ اڑانا بند ہو گیا تھا۔۔۔
دانین بھی اب بلکل خاموش بیٹھی تھی۔۔۔ ہاں اس کےناخن سامنے پڑے میز کے کناروں کو بےدردی سےکھرچ رہے تھے۔۔۔
کچھ دیر یوں ہی گزر گٸ تھی۔۔۔ خاموشی۔۔۔ خاموشی۔۔۔۔ صرف خاموشی۔۔
ویسے میں تمہیں صفاٸی دے ہی کیوں رہی ہوں۔۔۔ دانین نے گھٹی سی آواز میں کہا۔۔
اور اس کے چاۓ کے ٹھنڈے کپ پر نظر جماٸی جس پر اب ملاٸی کی تہہ جم چکی تھی۔۔۔
دانین مجھے۔۔۔ معاف کر دو۔۔۔ آواز بہت دور سے آتی ہوٸی محسوس ہوٸی۔۔۔ میں تمہارے خود کو دھوکا دینے میں تمھارا ساتھ نہیں دے سکا۔۔۔ وہ جھکے ہوۓ سر کو اٹھا کر بولا۔۔ آنکھیں کسی تھکے ہوۓ مسافر کے جیسی تھی۔۔۔
کیامطلب۔۔۔ دانین نے ناسمجھی سے زین کی طرف دیکھا۔۔۔ زین کی کی ہوٸی بات اس کی سمجھ سے بالاتر تھی۔۔
زین کو ہاسپٹل میں آۓ ہوۓ۔۔ ایک ہفتہ ہونے کو آیا تھا۔۔۔ وہ دانین کے ساتھ بہت برا برتاٶ کر رہا تھا۔۔۔ کہیں بھی ٹکراٶ ہو جاتا تو اتنے بری حقارت کی نظر ڈالتا۔۔۔ اور اگر کبھی۔۔۔ وہ اس جگہ پر آتی تو۔۔۔ وہ اٹھ کر وہاں سے چلا جاتا۔۔۔ پہلے تو دانین بے نیازی برتتی رہی لیکن اب باقی لوگ بھی اس بات کو محسوس کرنے لگے تھے۔۔۔ آج بھی وہ اس کے ساتھ بلکل ایسا ہی سلوک کرنے کےبعد۔۔ کیفے ٹریا میں آ کر بیٹھا تھا۔۔۔ تو دانین اس کے سر ہو گٸی تھی۔۔۔
زین ۔۔ میں نے تمہیں اسی دن کال کر کے بتا دیا تھا۔۔۔ میرا ۔۔ اس معاملے میں کوٸی ہاتھ نہیں تھا۔۔۔ مجھے کچھ بھی نہیں پتا تھا۔۔۔ وہ دانت پیس پیس کر اس سے بات کر رہی تھی۔۔۔
جو بھی ہوا میرا اس میں کوٸی ہاتھ نہیں تھا۔۔ ۔۔۔ میرا تو موباٸل بھی زرداد اپنے ساتھ لے گیا تھا۔۔۔ تم میرا یقین کیوں نہیں کرتے۔۔۔
اور وہ اپنے ذہن میں الفاظ کو ترتیب دے رہی تھی۔۔۔۔۔۔
نازش نے اپنے مخصوص ۔۔۔پر جوش انداز میں ۔۔۔ ہیلو کہا تھا۔۔
وہ سوچ رہی تھی اب کیسے پوچھے زرداد کے بارے میں۔۔
ہے۔۔۔ دانین ۔۔۔ تمہیں آج یہاں ہونا چاہیے تھا یار۔۔۔ اٹس اے بگ ڈے آف زرداد۔۔۔اس سے پہلے کہ وہ کچھ پوچھتی اس سے زرداد کے بارے میں۔۔۔ وہ خود ہی بول پڑی۔۔۔
کہ۔۔۔کہاں۔۔۔ ہونا چاہیے تھا۔۔۔ اس نے۔۔ اپنی آنکھ کو انگلی سے مسلتے ہوۓ پوچھا۔۔
ارے۔۔۔ یہاں دبٸ میں۔۔۔ نیشنل ایوارڈ شو ہے۔۔۔ زرداد کو بیسٹ سنگر ایوارڈ ملا ہے۔۔۔۔تم نے مِس کیوں کیا اٹس ٹو بیڈ۔۔۔ نازش خفگی سے بول رہی تھی۔۔۔
وہ۔۔وہ۔۔ مجھے۔۔ کچھ کام تھا۔۔۔ اس نے خجل سی ہو کر جھوٹ بولا۔۔۔
اچھا اب ٹی وی پر دیکھو نا۔۔۔ٹیلی کاسٹ ہو رہا ہو گا۔۔۔
اوکے۔۔۔ وہ دھیرے سے بولی۔۔
اور بات سنو۔۔۔ بڑے راز دینے کے سے انداز میں نازش نے کہا۔۔۔
وہ واش روم میں تھا۔۔ شاور کی آواز آ رہی تھی۔۔۔ تھوڑی دیر بعد ٹاول سے بال رگڑ رہا تھا۔۔۔
دانین ایسے ہی ظاہر کر رہی تھی ۔۔۔ جیسے اسے کوٸی پرواہ نہیں۔۔۔ لیکن تجسس بار بار سر اٹھا رہا تھا۔۔۔ آخر کو کہاں جا رہا ہے۔۔۔
اچھا چلو کچھ بتا کر ہی جاۓ گا ۔۔۔ اس نے اپنے دل کو تسلی دی۔۔۔ اور پھر سے چور نظروں سے اس کو دیکھنا شروع کر دیا۔۔۔
وہ اب ڈریسنگ روم میں تھا۔۔۔ کھٹ پھٹ کی آوازیں آ رہی تھیں۔۔۔ وہ تیار ہمیشہ سے ایسے ہی ہوتا تھا تسلی سے دل لگا کر۔۔۔ پتہ تھا۔۔۔ جناب کو۔۔۔ کہ میں خوبصورت ہوں تو۔۔۔اس خوبصورتی کو چار چاند لگا کر ہی باہر نکلتا تھا۔۔۔
جب ڈریسنگ سے نکلا تو۔۔ ایسا ہی تھا۔۔ ہر دفعہ کی طرح۔۔ سب کو مات دے دینے والا۔۔۔ دوشیزاوں کے دھڑکنوں کو تیز کر دینے والا۔۔۔
اب وہ خود پر سینٹ کی بارش کر رہا تھا۔۔۔
قسط نمبر15
آخر کو جا کہاں رہا ہے دانتوں کو کچلتے ہوۓ۔۔۔ دانین نے سوچا۔۔۔ میگزین کو تھوڑا سا نیچے کر کے دیکھا۔۔۔ وہ بیڈ پر ٹانگوں کو پسارے ۔۔ لیٹی میگزین پڑھ رہی تھی۔۔۔ جب وہ باہر سےآ کر یوں بیڈ پر اپنے کپڑے نکال کر رکھنے لگا۔۔۔
وہ اب چوری چوری اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔
زرداد بیگ میں کپڑے رکھ رہا تھا۔۔۔ سنجیدہ شکل۔۔۔ آنکھیں بلکل نیچے کی ہوٸی۔۔۔ جم سوٹ پہنا ہوا تھا۔۔۔ شاٸید ابھی وہیں سے آیا تھا۔۔۔
اتنے کپڑے لے کر کہاں جا رہا ہے۔۔۔ وہ دانت سے ہونٹ کچلتے ہوۓ سوچ رہی تھی۔۔۔
وہ تو اس دن سے ایسے چپ ہو گیا تھا۔۔۔ کوٸی بات نہیں کرتا تھا۔۔۔ کوٸی مزاق نہیں۔۔۔ ایسے جیسے وہ گھر میں نہیں ہے۔۔۔ ویسے تو دانین نے شکر ہی ادا کیا تھا۔۔۔ وہ چپ سادھ گیا تھا۔۔۔ اب اس چپ کے بعد دی اینڈ ہی ہو گا اس کے جنون کا۔۔۔ اس کی ضد کا۔۔۔ وہ یہ سوچ کر دل کو تسلی دیتی تھی۔۔۔
زین کی نظروں میں اس کے لیے حقارت تھی۔۔۔
سب ڈاکٹرز۔۔۔ زین سے مل رہے تھے۔۔۔ اسے عجیب گھٹن سی محسوس ہونے لگی تھی۔۔۔
اپنا بیگ اٹھا کر وہ باہر آ گٸ تھی۔۔۔
❤❤❤
وہ بھی اپنا سامان اٹھا کر اندر کی طرف چل دی تھی۔۔۔
❤❤❤❤❤❤
ڈاکٹر دانین ۔۔ ان سے ملیں۔۔۔ ہمارے نیو سٹاف ممبر۔۔۔ ڈاکٹر علی کی آواز پر دانین نے پیچھے مڑ کر دیکھا تھا۔۔۔
دانین کو تقریباََ ایک ماہ ہو گیا تھا۔۔۔ ہاسپٹل میں جاب کرتے ہوۓ۔۔۔ اب تو سب اس سے کافی گھل مل گۓ تھے۔۔۔
سامنے زین کھڑا تھا۔۔۔ دانین کا چہرہ ایک دم سے زرد پڑا تھا۔۔۔
زین نے اسے دیکھ کر ایک دم سے اپنی نظروں کا زاویہ بدل ڈالا تھا۔۔۔
وہ دھیرے سے زبردستی مسکراٸی تھی۔۔۔ اور علی کی طرف دیکھا۔۔۔ جو زین کو سب سے متعارف کروا رہا تھا۔۔۔
زین نے سلام کیا تھا۔۔۔
جس کا جواب اس نےیوں دیا تھا۔۔ کہ اسے خود اپنی آواز کسی کنویں سے آتی ہوٸی محسوس ہو رہی تھی۔۔۔
زین کی نظروں میں اس کے لیے حقارت تھی۔۔
اور کبھی جوتے کو ٹھیک کرنے کے بہانے تھوڑا نیچے جھک کر۔۔۔پر وہ خاموشی سے لب بھینچے گاڑی چلا رہا تھا۔۔
جو بھی تھا۔۔۔ ایسے تھپڑ نہیں مارنا چاہیے تھا۔۔۔ دل کے ایک کونے سے آواز آٸی۔۔۔
وہ کر بھی تو ایسےرہا تھا۔۔ اپنا آپ بچانے کے لیے اور کیا کرتی۔۔۔ دل کےدوسرے کونے سے آواز آٸی۔۔۔
تو کیا کر رہا تھا۔۔۔ کچھ اتنا غلط تو نہیں کر رہا تھا۔۔۔ آخر کو شوہر ہے۔۔۔ دل کے پہلے کونے سے پھر آواز آٸی۔۔۔
میں جب مانتی ہی نہیں شوہر۔۔۔ نا اس رشتے کو مانتی۔۔۔ تو پھر کیوں قریب آنے دوں اتنا۔۔۔
اس کے دماغ نےدوسرے کونے کے حق میں ووٹ دیا۔۔۔ اور دانین نے پرسکون انداز میں سر سیٹ کے ساتھ ٹکا دیا۔۔۔
کب اس کی آنکھ لگی پتہ ہی نا لگا ۔۔۔ کھلی اس وقت ہی جب گاڑی ایک جھٹکے کے ساتھ۔۔ پورچ میں رکی۔۔۔ وہ گھر پہنچ گۓ تھے۔۔۔
وہ گاڑی سے نکل کر جا چکا تھا۔۔۔
ہٹو پیچھے دھکے دے رہی تھی۔۔۔
نہیں بدل لینا ہے۔۔ زرداد نے ۔ چہرہ قریب کیا۔۔۔ اس سے پہلے کے کوٸی گستاخی کرتا۔۔۔ دانین نے گھبرا کر ہاتھ اٹھایا تھا۔۔۔ اور زرداد کے گال پر ایک تھپڑ پڑا تھا۔۔۔
وہ ایک دم جیسے ۔۔ شرمندہ سا ہوا۔۔۔ رنگ سرخ ہو گیا تھا۔۔۔
تیزی سے دانین کی طرف ایک نظر بھی ڈالے بنا وہاں سے نکل گیا تھا۔۔۔
❤❤❤❤❤❤❤❤
وہ بار بار اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔۔۔
بڑی سنجیدہ شکل بنا کر ۔۔۔ گاڑی ڈراٸیو کر رہا تھا۔۔۔ نا کوٸی شوخی نا کوٸی شرارت۔۔۔
حتی کہ اسے کچھ کہا بھی نہیں۔۔۔ اور نہ ہی کوٸی غصہ یا ناراضگی تھی۔۔ بس چہرہ بہت سنجیدہ تھا۔۔۔ اور صبح سے اہک دفعہ بھی دانین کی طرف نہیں دیکھا تھا۔۔۔
اسے کے دل کوعجیب سا کیوں لگ رہا تھا اس کا یہ انداز ۔۔۔ اسے خود سمجھ نہیں آ رہا تھا۔۔۔
وہ کبھی بالوں کو کانوںل کے پیچھے کرنے کے بہانے اسے دیکھ رہی تھی۔
اب تو میں۔۔ اپنے میکے آٸی ہوں نہ۔۔۔ تو جاٶ اپنے کمرے میں۔۔ سو۔۔ جا کر۔۔۔ دانین اس کی اچانک آمد پر گڑ بڑا گٸ تھی۔۔۔
گھڑی پر نظر ڈالی تو۔۔۔ رات کا ایک بج رہا تھا۔۔۔ منال کے ساتھ گپ شپ کرتے اسےوقت کا پتا ہی نا چلا تھا۔۔ اور جب منال کے کمرے سے نکلی تو زرداد لاونچ میں ٹی وی دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
وہ مزے سے آ کر اپنے کمرے میں لیٹی تھی۔۔ ابھی کچھ دیر ہی ہوٸی تھی کہ وہ کمرے میں آ گیا تھا۔۔۔ وہ ایک دم سے اٹھ کر کھڑی ہوٸی تھی۔۔۔
مجھے نیند ہی نہیں آتی اب اکیلے۔۔۔ آنکھیں شرارت سے بھری ہوٸی تھیں۔۔۔
دانین کو اس کے دیکھنے کے انداز سے ایک دم گھبراہٹ سی ہوٸی۔۔۔
کہ۔۔ کیا مطلب ۔۔ چلو۔۔ اوپر جاٶ۔۔۔ میں اکیلا سونا چاہتی آج۔۔۔ اس کو اپنے پاس آتا دیکھ کر تھوڑی سختی سے کہا۔۔۔ جبکہ دل کانپ رہا تھا۔۔۔ وہ آج عجیب نڈر سا لگ رہا تھا۔۔ ساری غلطی اس کےمسکرانے کی تھی۔
ایک دم سے پیچھے ہوا تھا۔۔۔ سر کے اوپر بچوں کی طرح ہاتھ مار رہا تھا۔۔
دانین کو مزہ آ گیا۔۔۔ آج اتنے عرصے کے بعد وہ مسکرا رہی تھی۔۔۔
زرداد نے خفگی سے دانین کی طرف دیکھا۔۔
دانین نے بڑے انداز سے کندھے اچکا دیے۔۔۔ جیسے کہ کہہ رہی ہو۔۔ ایسے تو ایسے صیح۔۔۔
زرداد اپنے سر میں ہاتھ پھیر کر سر کو سہلا رہا تھا۔۔۔ ایسے لگ رہا تھا زخم کر دیے ہوں۔۔۔
رک جاٶ ذرا بتاتا ہوں تمہیں میں۔۔۔ دل میں سوچتے ہوۓ زراد لب مسکرا دیے تھے۔۔۔
❤❤❤❤
دانین نے دانت پیسے۔۔۔ تایا ابا بلکل ٹھیک کہتے اسے خبیث۔۔۔
دانی۔۔۔ اچھی طرح جزب کر بیٹا۔۔۔ سارا سر خشک ہوا پڑا۔۔ اسکا۔۔۔ کہتا اتنے بڑے بڑے پارلر جاتا۔ ہوں۔۔ جو کام سرسوں نے دیکھانا وہ تھوڑی یہ انگلش کریمیں کرتی ہیں۔۔۔
ثمرہ نے دانین کی طرف دیکھتے ہوۓ اسے ہداٸت دی۔۔۔
دانین نے اب انگلیاں چلانے کے بجاۓ۔۔۔ زرداد کے سر میں زور زور سے ناخن مارنے شروع کر دیے۔۔۔
ایک دفعہ تو تھوڑا سا اچھلا تھا۔۔۔ دانین کی ہنسی نکل گٸ۔۔۔
اب وہ زور زور سے ناخن مار رہی تھی۔۔۔ اور مسکراہٹ چھپانے کی کوشش کر ہی تھی۔۔۔
بیگم ۔۔۔ بس کرو۔۔۔ بس کرو۔۔ اب زرداد کی آنکھوں میں پانی آ گیا تھا تکلیف کی وجہ سے۔۔۔
نہیں نہیں ابھی کچھ دیر اور کر دیتی ہوں۔۔۔۔۔ دانین نے بڑے لاڈ سے کہا۔۔۔
اور زور سے ناخن مارے۔۔۔
آہ۔۔۔ بس ۔۔۔ ہو گیا۔۔ اب کیا سر کا اپنا تیل نکالو گی۔۔۔
دانین نے بالوں میں تیل ڈال کر آہستہ سے زرداد کے بالوں میں۔۔ انگلیاں چلاٸی۔۔۔
زرداد کی آنکھیں بند ہو گٸ تھیں۔واہ۔۔۔ بیگم ۔۔ واہ۔۔ بڑا لہک لہک کر زرداد نے کہا۔۔ ۔۔ اتنا سکون مل رہا ہے۔۔ قسم سے۔۔۔
دانین دانت پیس کر ہی رہ گٸ۔۔ بابا کا لاڈلا تھا ان کے سامنے کچھ کہہ بھی نہیں سکی اسے۔۔۔
وہ بےدلی سے اس کے سر میں ہاتھ پھیر رہی تھی۔۔۔ دل کر رہا تھا ان بالوں میں پیار سے انگلیاں چلانے کے بجاۓ دونوں مٹھیوں میں بھر ک نوچ ڈالے بالوں کو۔۔۔
ڈھیٹ پورا ۔۔۔ مزے سے مسکرا رہا تھا۔۔۔
بس اب۔۔۔۔ دانین نے تیل کی بوتل بند کرتے ہوۓ کہا۔۔۔ ۔۔۔
اس کا بس نہیں چل رہا تھا۔۔۔ سر میں کچھ اٹھا کر مارے اس کے۔۔۔
بیگم۔۔۔ تھوڑی دیر تو اور کرو۔۔۔ ابھی تو سکون ملنے لگا تھا۔۔۔زرداد نے اس کےہاتھ پکڑ کر ۔۔ پھر سے اپنے سر پر رکھ دیے۔۔۔
لیکن زرداد کے بس سلام کا جواب دے کر وہاں سے چلے گۓ تھے۔۔۔
دانین ۔۔۔ تیل لگاٶ ۔۔۔ زرداد کے بالوں میں۔۔۔ سکندر نے تھوڑا ڈانٹنے کے انداز میں دانین سے کہا۔۔۔
وہ ڈھیٹ سی ہو کر بیٹھی رہی۔۔۔
لگا دو نہ پھر دانین ۔۔ سر میں بھی بہت درد ہے۔۔۔ زرداد بات چھوڑنے والوں میں سے نہیں تھا۔۔۔ شرارت بھری آنکھوں سے اس کی طرف
14
دیکھا۔۔
دانین اٹھتی کیوں نہیں۔۔۔ مالش کر دو اس کے سر کی۔۔۔ سکندر اب خفگی کے سے انداز میِں اسے گھور رہے تھے۔۔۔
دانین زرداد کو گھورتی ہوٸی اٹھی تھی۔۔۔ جب کہ زرداد اپنی مسکراہٹ چھپانے کی کوشش میں لگا ہوا تھا۔۔۔
وہ سرسوں کے تیل کی بوتل ہاتھ میں لیے زرداد کے سر پر کھڑی تھی۔۔۔
شرارت بھری نظروں سے دیکھتے ہوۓ اٹھا تھا۔۔۔
ابا کے بہت قریب ہو تم ۔۔۔ ان کا دل صاف کرو زرداد کی طرف سے ۔۔۔اشعال نے دھیرے سے اس کے قریب ہو کر کہا۔۔۔
اور وہ پر سوچ انداز میں بس کھڑی ہی رہ گٸی۔۔
❤❤❤❤❤❤
کیا حال بنا رکھا ہے۔۔۔ بالوں کا دیکھو تو ذرا۔۔۔ ثمرہ نے زرداد کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوۓ کہا۔۔۔
پتہ نہیں کیا گند بلا لگاتے رہتے ہو۔۔۔ ثمرہ خفگی سے بول رہی تھیں۔۔۔ زرداد ثمرہ کی گود میں سر رکھ کر لیٹا ہوا تھا۔۔۔
آپکی بہو خیال ہی نہیں رکھتی میرا۔۔۔ زرداد نے شرارت سے سامنے صوفے پر بیٹھی ۔۔۔ دانین کو دیکھتے ہوۓ کہا۔۔۔
وہ دونوں ۔۔ منال کے بیٹے کو دیکھنے۔۔۔ حیدر آباد آۓ تھے۔۔۔
سب لوگ دوپہر کے کھانے کے بعد ۔۔۔ لاونچ میں بیٹھے ہوۓ تھے۔۔۔ مسواۓ۔۔۔ ہارون کے۔۔۔ وہ اپنے کمرے میں ہی تھے۔۔۔
باہر آۓ تھے۔۔۔ دانین کو گلے لگا کر پیار کیا۔۔۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain