Damadam.pk
anusinha's posts | Damadam

anusinha's posts:

anusinha
 

یہ لگا لو۔۔۔ بیگ میں منہ دے کر تھوڑی دیر بعد وہ ایک کریم تلاش کرنے میں کامیاب ہو گٸ تھی۔۔
جب اندر لگے زخموں پر مرہم نا رکھا کبھی ۔۔۔ تو اس کی بھی ضرورت نہیں۔۔ بڑی معنی خیز نظروں سے دانین کی طرف دیکھا۔۔۔ بڑی گہری آنکھیں تھی۔۔۔
وہ جھینپ گٸ۔۔ تھی۔۔ پھر نظریں جھکا کر۔۔ اس کے بازو پر کریم لگانا شروع کر دی۔۔۔
زرداد نے بہت غور سے اس کے سر کی مانگ کو دیکھا۔۔۔
پیار اتنا کرتی ہو۔۔۔ اعتبار نہیں کرتی۔۔۔ وہ اسے کی نرم انگلیوں کی گرماٸش سے محزوز ہو رہا تھا۔۔۔
میگزین پڑھتے اسے ابھی تھوڑی دیر ہی ہوٸی تھی۔۔۔ کند ھے پر کچھ وزن محسوس ہوا۔۔۔
دانین سو رہی تھی اور سر ڈھلک کر زرداد کے کندھے پر تھا اب۔۔۔
ہوش میں ۔۔ ہم پر ۔۔ ایسی نوازشیں کہاں۔۔۔ زرداد نے میگزین بند کر کے ایک طرف رکھ دیا۔۔۔
اپنے موباٸل کاکیمرہ کھولا۔۔۔

anusinha
 

دونوں اس دن کے بعد آج ایک دوسرے کے ساتھ تھے۔۔۔
جہاز آڑان بھرنے کو تیار تھا۔۔ وہ زرداد کے پہلو میں بیٹھی تھی۔۔۔ اس نے پلکیں پورے زور سے بند کر رکھی تھیں۔۔۔
زرداد کو اس کی حالت پر ہنسی آ رہی تھی۔۔۔ جس کو بڑی مشکل سے دبا رکھا تھا۔۔۔
جیسے جہاز اوپر اٹھا اس نے زرداد کے بازو کو زور سے تھام لیا تھا۔۔۔
چڑیل ہو کیا تم۔۔۔ زرداد نے سرگوشی کے سے انداز میں اس کے کان کے قریب ہو کر کہا تھا۔۔۔ جب کے ہونٹ بری طرح مسکراہٹ کو دبا رہے تھے
اس نے دھیرے سے آنکھیں کھول کر دیکھا۔۔۔ زرداد کے بازو پر وہ بری طرح اپنے بڑے بڑے ناخن پیوست کیے ہوۓ تھی۔۔۔
اوہ۔۔ فوراََ شرمندہ سی شکل بنا کر ہاتھ اٹھایا تھا۔۔۔
زرداد کا بازو وہاں سے سرخ ہو چکا تھا۔۔۔ ۔وہ دھیرے سے اپنا بازو سہلا رہا تھا۔۔لیکن دانین کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا۔۔۔

anusinha
 

نازش کی آنکھوں میں معنی خیز سی مسکراہٹ تھی۔۔
ہنی مون۔۔۔۔زرداد نے اپنے انداز میں قہقہ لگایا تھا۔۔۔
پاس کھڑی ۔۔۔ دانین خجل سی ہو گٸ۔۔۔
ہاں تو۔۔۔ اس میں اتنا ہنسنے والی کون سی بات کر دی میں نے۔۔نازش کبھی زرداد کہ طرف دیکھ رہی تھی تو کبھی دانین کی طرف۔۔۔۔
دانین دوسری طرف دیکھنے لگی تھی۔۔۔
وہ لوگ بنکاک کے لیے نکل رہے تھے۔۔۔ دانین نے نازش کو بہت منع کیا لیکن وہ بضد تھی کہ اسے اس دفعہ ساتھ جانا ہی ہے ۔۔۔ دو ہفتے سے زرداد نے اس سے بات کرنا بھی بند کر دی تھی۔۔ وہ بھی یاسپٹل سے آتی اور کمرے بند۔۔۔۔ زراداد یا تو گھر آتا ہی نہیں تھا۔۔ کبھی کسی شہر میں ہوتا کبھی کسی شہر میں۔۔۔ کانسلٹ۔۔۔ شوٹنگز۔۔۔ شوز۔۔۔ اس نے اپنے آپ کو مزید مصروف کر لیا تھا۔۔۔ جس شو سے وہ جیت کر یہاں تک پہنچا تھا۔۔۔ اسی شو کے ججز میں وہ تھا اس سال۔۔۔

anusinha
 

ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوۓ زین کی طرف دیکھا۔۔
زین نے ہلکا سا قہقہ لگایا تھا۔۔۔۔
زرداد نے حیران ہو کر اس کی طرف دیکھا۔۔۔
زرداد وہ تمھاری ہی تھی ہمیشہ سے۔۔۔ تم اس کو جیسے بھی لے گۓ۔۔۔ لے کر تو جانا ہی تھا۔۔۔ اور رہا میرے دل کا سوال۔۔ یک طرفہ محبت کرتا تھا۔۔۔ تمھاری دانین سے۔۔۔ اس نے کبھی مجھے ایسے خواب ہی نہیں دکھاۓ تھے۔۔ جن کو چھن جانے کا دکھ ہوتا مجھے۔۔۔ زین کے چہرے پر۔۔ پرسکون سی مسکراہٹ تھی۔۔۔
اور اس کے سامنے ۔۔۔زرداد ہارون۔۔۔آج لاجواب بیٹھا تھا۔۔۔
❤❤❤❤
پہلی دفعہ کر رہی ہو کیا جہاز میں سفر۔۔۔ نازش نے مسکراتے ہوۓ پوچھا۔۔۔
ہم۔۔م۔۔۔م۔۔۔فرسٹ ٹاٸم ہی ہے۔۔ دانین واقعی تھوڑی نروس ہی تھی۔۔۔
کیوں زری۔۔۔ میں تو سمجھی تھی تم کہیں۔۔۔ باہر گۓ ہو گے ہنی مون کے لیے۔۔۔ نازش نے پاس کھڑے زرداد سے کہا۔۔۔

anusinha
 

مسکراہٹ۔۔۔ بہت روکھی اور ٹوٹی سی تھی۔۔
تم ۔۔۔ ملتان گۓ تھے۔۔۔ مجھ سے ملنے۔۔۔ زین نے سوالیہ نظروں سے زرداد کی طرف دیکھا۔۔۔
ہم۔م۔م۔ گیا تھا ۔۔ وہاں سے پتہ چلا تم وہاں سے چلے گۓ ہو۔۔۔ اپنے موباٸل کو اس کے بلکل سامنے میز پر گھوماتے ہوۓ کہا۔۔
پوچھ سکتا ہوں۔۔ کیا کام تھا اب تمہیں مجھ سے۔۔۔ زین نے چبھتی ہوٸی نظر اس پر ڈالی تھی۔۔۔ جو اس دن کی طرح اکڑ میں تو بلکل نہیں تھا۔۔۔ اسے تھوڑا سا مختلف ہی لگ رہا تھا۔۔۔
مجھے ۔۔۔ تم سے معافی ۔۔۔ مانگنی تھی۔۔۔۔ رک رک کر دھیمے سے لہجے میں کہا۔۔۔
زین حیرانی سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔ اس دن والے زرداد اور اس زرداد میں زمین آسمان کا فرق تھا۔۔۔
کس بات کی معافی۔۔۔ زین نے چشمہ درست کیا۔۔۔ اور پر سوچ سے انداز میں زرداد کو دیکھا۔۔۔
تمھارا دل توڑنے ۔۔۔ اور دھوکے سے دانین کو تم سے چھیننے کی معافی۔۔۔

anusinha
 

وہ کیسے بھول سکتا تھا اسکو۔۔۔
تھوڑی دیر اسےدیکھتے رہنے کے بعد وہ کچھ سوچتے ہوۓ اپنی جگہ سے اٹھا۔۔ اور اب اس کے سر ہر کھڑا تھا۔۔۔
زین نے چونک کر اسکو دیکھا
زرداد نے اپنے کوٹ کو اپنے مخصوص انداز میں جھٹکا دیا اور اس سے بنا پوچھ اسکے سامنے والی کرسی پر براجمان ہو گیا تھا
زین نے مینو کارڈ بند کیا اور بھنویں اچکا کر سوالیہ نظروں سے دیکھا۔۔۔ جیسے کہہ رہا ہو جی فرماٸیں۔۔۔
کیسے ہو۔ اپنے موباٸل کو سامنے میز پر رکھ کر ۔۔ انکھوں کو سکیڑ کر زین کی طرف دیکھا۔۔۔
ٹھیک ہوں۔۔۔ زین نے مختصر جواب دیا۔۔۔
تم ۔۔۔یہاں۔۔۔۔ کراچی۔۔۔ ہونٹوں پر زبان پھیر کر اردگرد دیکھتے ہوۓ زین سے سوال کیا۔۔۔
پورا پا کستان تمھارا تو نہیں۔۔۔ کہیں بھی ہو سکتا ہوں میں۔۔۔ زین نے روکھے سے انداز میں کہا۔۔
ہم۔م۔م۔ صیح کہہ رہے ہو۔۔۔ میں ہر چیز پر تو اپنا حق نہیں جما سکتا۔۔۔

anusinha
 

اور جب چھوڑنے پر آۓ گا۔۔۔ تو۔۔۔۔ وہ بری طرح رو دی تھی۔۔۔ وہ آج بے آواز نہیں رو رہی تھی۔۔۔
میں منسا نہیں۔۔۔ جو آرام سے آگے بڑھ جاٶں گی۔۔۔ پچھلی دفعہ تو مرتے مرتے بچ گٸ تھی۔۔۔ اب کی بار۔۔۔ اب کی بار ۔۔۔تو سچ میں مر ہی جاٶں گی۔۔۔ پورا کمرہ اس کی سسکیوں سے گونج رہا تھا۔۔۔
❤❤❤❤❤❤
ہم۔م۔م۔ ایسا کریں ۔۔۔ آپ ادھر ہی آ جاٸیں۔۔ میں گھر نہیں ہوں۔۔ ابھی ۔۔ یہیں بات کرتے ہیں۔۔ کال کاٹ کر مشہود کو فون پکڑا دیا۔۔
کسی فلم کے پرڈیوسر کی کال تھی۔زرداد لنچ کے لیے کسی ریسٹورانٹ میں بیٹھا تھا۔۔ اسکو بھی ادھر ہی بلا لیا تھا
مشہود۔۔۔ آرڈر تھوڑا لیٹ کروں گا میں۔۔۔ وہ منیر پہنچ رہا ہے اسی کے ساتھ۔ اپنے موباٸل کو دیکھتے ہوۓ لا پرواہی سے کہا۔
جی سر۔۔۔ مشہود نے فون ہاتھ سےپکڑتے ہوۓ کہا۔
موباٸل کو دیکھتے ہوۓ اچانک سامنے نظر پڑی تو پھر وہ دیکھتا ہی رہ گیا

anusinha
 

اس کی رگوں میں بھی تو وہی خون ہے۔۔۔ میں نے اسے ہر حال میں اپنا بنا کے چھوڑا۔۔۔ اور وہ بھی ضد کی ایسی پکی نکلی۔۔۔ آج شادی کو۔۔۔ دو ماہ سے اوپر ہونے کو آۓ ۔۔۔ پر اس کے دل سے بے اعتباری کا پتھر ذرا سا نا کسھکا۔۔۔
ٹیرس پر ۔۔ وہ۔۔۔ اس کے ٹھنڈے ہوۓ جزبات۔۔۔ اور دانین کے لیے بے پناہ محبت۔۔۔مل کر ۔۔۔ساری رات ماتم مناتے رہے۔۔۔
❤❤❤❤❤❤❤
کیا ایسا ہے مجھ میں۔۔۔ کہ ۔۔ وہ یہ کہے کہ وہ مجھ سے شدید محبت کرتا ہے۔۔۔ اور میں مان لوں۔۔۔ ڈریسنگ کے آٸینے میں کھڑی وہ اپنے سراپے کو دیکھ کر سوچ رہی تھی۔۔
وہ خود اتنا خوبصورت ہے۔۔۔ ہر چیز جو اس سے منسوب ہے۔۔۔ اسی کی طرح بے مثال ہے۔۔۔۔۔ اور میں۔۔۔میں تو وہ کلو ہوں ۔۔۔ جس سے اسے جھوٹی محبت بھی بوجھ لگتی تھی۔۔۔۔۔ میں کتنی بیوقوف تھی تب۔۔۔ جب اس نے کہا تھا کہہ میں اسے اچھی لگتی ہوں۔۔۔

anusinha
 

زرداد ہارون ۔۔۔ ساری زندگی۔۔۔ دوسروں کو رولانے والا ۔۔۔ دنیا کے کامیاب انسانوں میں سے ایک۔۔۔ ایک اشارہ کرے تو۔۔۔ دنیا کی کتنی ہی دلکش دوشیزایں قدموں میں ڈھیر ہو جاٸیں۔۔۔ ایک معمولی شکل و صورت کی لڑکی کی محبت میں رو پڑا تھا۔۔۔
دانین کو تو بہت صبر سے سنا آیا تھا۔۔۔ کہ اس نے اپنا رشتہ خدا کے بھروسے پر چھوڑ دیا۔۔۔ لیکن اسکو پتا ہے سب ادھورا چھوڑ کر آنا۔۔۔ اور کسی کا اپنی محبت پر یقین نہ ہونے کا دکھ کا بوجھ اٹھانا کیا ہوتا ہے۔۔۔ یہ صرف زرداد ہی جانتا تھا۔۔۔
بال ٹیرس میں چلنے والی ہوا سے بے ترتیب ہو گۓ تھے۔۔۔
اسکو یہ بات کیوں نہیں سمجھ آتی۔۔۔ کہ وہ اور میں۔۔۔ اس وقت عمر کے جس دور میں تھے۔۔۔ ہماری عمر کی طرح ہمارے جزبات بھی کچے تھے۔۔۔ اس نے آسمان کی طرف دیکھا۔۔۔
لیکن وہ صیح ہی تو کہتی ہے۔۔۔ جس خاندان کا میں سپوت ہوں۔۔۔

anusinha
 

ایک زناٹے دار تھپڑ اس کے گال پر جڑ کے۔۔۔ کندھوں سے پکڑ کر جھنجوڑ کے کہوں۔۔۔دنیا کی سب سے پاگل لڑکی۔۔۔ گھٹنوں تک تمھارے عشق میں ڈوبا ہوا ہوں ۔۔۔ کیا میری آنکھوں میں موجزن محبت کا سمندر نظر نہیں آتا تمہیں۔۔۔
زرداد کے دل نے بےتاب ہو کر سوچا۔۔۔
ہاتھ کی اور پورے جسم کی رگیں تنی ہوٸی تھیں۔۔۔ ہاتھ میں پکڑے سگریٹ کا ہلکے ہلکے سے کانپنا۔۔۔ اس کے ضبط کی نشانی تھی۔
آنکھوں میں ۔۔۔ جلن تھی۔۔۔ اور گلے میں ایسے جیسے کوٸی گولہ سا اٹک گیا ہوتا۔۔۔آنکھوں میں پانی کتنی دیر لہراتا رہا۔۔
پھر اچانک گال پہ کچھ محسوس ہونے پہ اس نے گال کو چھوا تو وہ گیلی تھی۔۔۔
وہ حیران سا انگلی کے پور پر لگے اپنے آنسو کو دیکھ رہا تھا۔۔۔
وہ زندگی میں اپنا ہوش سنبھالنے کے بعد آج پہلی دفعہ خود کو روتے دیکھ رہا تھا۔۔۔
وہ قہقہ لگا رہا تھا۔۔۔

anusinha
 

آنکھیں۔۔۔ دل کی بے تابی کا حال بیان کر رہی تھیں۔۔۔۔
کیوں۔۔۔ یہی تو وہ رشتہ ہے جو ہم دونوں کے رشتے کو مضبوط کرے گا۔۔۔ آواز ۔۔ جزبات ۔۔ کی گرمی۔۔۔ سے خمار آلودہ تھی۔۔۔
دانین کا بازو پکڑ کر پھر سے قریب کرنا چاہا۔۔۔
نہیں۔۔ میں یہ نہیں مانتی۔۔۔ دانین نے اپنا بازو آہستہ سے چھڑوا کر اپنی۔۔ گود میں رکھ لیا ۔۔۔
میں اس رشتے کو کیسے آگے بڑھا دوں۔۔۔ وہ اپنے دونوں ہاتھوں کو آپس میں مسل رہی تھی۔۔۔ پلکیں جھکی ہوٸی تھیں۔۔۔ اور آواز آنسوٶں سے رندھی ہوٸی تھیں۔۔۔
کیوں کیا براٸی ہے۔۔۔ تم مجھ سے محبت کرتی۔۔ ہو۔۔۔ میں تم سے کرتا ہوں۔۔۔ زرداد نے بے چین سا ہو کر کہا۔۔۔
نہیں میرے دل میں یہ خلش ہے کہ تم مجھ سے محبت نہیں کرتے۔۔۔ یہ رشتہ صرف دو وجود کا ملن ہی نہیں ہوتا۔۔۔ اس میں روحوں کا ملاپ ضروری ہے۔۔ وہ آہستہ آہستہ۔۔۔ بول رہی تھی۔۔۔

anusinha
 

قسط نمبر16
میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں۔۔ دانین۔۔ تمہیں پانے کے لیے۔۔ کیانہیں کیا میں نے۔۔۔ زرداد نے ٹوٹے ہوۓ لہجے میں کہا۔۔۔ دانین کی روتی صورت اس کے دل کو گھٹن دے رہی تھی۔۔۔
زرداد کا چہرہ۔۔۔ پھر سے مرجھا سا گیا تھا۔۔۔ ایک غلطی کی اسے اب اتنی بڑی سزا ملے گی۔۔۔ کہ جس لڑکی سے وہ بے پناہ محبت کرتا ہے۔۔۔ وہ ہی اس پر کبھی اعتبار نہیں کرے گی۔۔۔
مجھے پانا۔۔۔ تمھاری ضد تھی۔۔۔ میں کیسے مان لوں یہ محبت تھی۔۔۔ دانین کا چہرہ آنسوٶں سے بھیگا ہوا تھا۔۔۔ آواز رونے کی وجہ سے بھاری ہو گٸ تھی۔۔۔ آنکھوں میں اپنی ساری اذیتوں اور ذلت۔۔ کا کرب واضح تھا۔۔۔
میں تمہیں کیسے یقین دلاٶں۔۔۔ بولو۔۔۔ وہ التجا کے انداز میں اسے کہہ رہا تھا۔۔۔ اس کے اتنا قریب بیٹھ کر بھی وہ اس سے کوسوں دور تھا۔۔
ٹھیک ہے تم مجھے موقع تو دو میں تمہیں دنیا کی ہر خوشی دوں گا۔۔۔

anusinha
 

پر تم نہیں کرتے مجھ سے محبت۔۔۔ زرداد ہارون۔۔۔ تم نہیں کرتے۔۔۔ اس کی آنکھوں میں خون جیسی لالی تھی۔۔۔
میں کیسے کر لوں یقین کہ تم مجھے نہیں چھوڑو گے۔۔۔ تم مجھے عزت دو گے۔۔۔ میرا ساری عمر ساتھ نبھاٶگے۔۔۔
بولو میں کیسے کروں تم پر یقین۔۔۔ نہیں آتا مجھے تم پر تمھاری اس محبت پر یقین۔۔۔
تم نے خود مجھے ایسا بنایا ہے۔۔۔ خود ۔۔۔ تمھاری وہ باتیں۔۔۔ آج بھی میری روح تک چھلنی کر دیتی ہیں۔۔۔ جب تم نے میری پاک محبت کی توہین کی ایک دفعہ نہیں ۔۔۔ دو دفعہ کی۔۔۔
ہاں میں اعتراف کرتی ہوں آج کہ میں تم سے محبت کرتی ہوں۔۔۔ اور شاٸید ہمیشہ کرتی رہوں گی۔۔۔لیکن میں تم پر کبھی یقین نہیں کر سکتی۔۔ کبھی بھی نہیں۔۔۔
جاری ہے

anusinha
 

آج وہ زرداد کو ترکی بہ ترکی جواب نہیں دے رہی تھی۔۔۔
مان کیوں نہیں لیتی کہہ تمہیں محبت ہے ۔۔ اتنی اپناٸت بھرا لہجہ تھا۔۔۔
میں جانتا ہوں ۔ تم نے صرف اور صرف مجھے چاہا ہے۔۔۔ وہ تھوڑا اور قریب ہوا تھا۔۔۔
دانین جب اتنی محبت کرتی ہو تو پھر کیوں مجھے پل پل تڑپا رہی ہو۔۔۔ لہجے میں التجا تھی
کیوں نفرت کا لبادہ اوڑھ کے پھرتی ہو۔۔۔ چہرہ اب بلکل پاس تھا دانین کے چہرٕے کہ اگر دانین آنکھیں کھولتی ۔۔ تو وہ پورے کا پورا اس میں سما جاتا۔۔۔
بولو نہ۔۔۔ بولو بھی۔ دانین کی قربت میں زرداد کی آواز پھر سے بھیگ رہی تھی۔۔۔ اس سے پہلے کہ وہ دانین کی خاموشی کو ہاں سمجھ کر ۔۔ اس کے اور قریب آتا۔۔۔
دانین نے دھکے کے سے انداز میں اسے دور کیا۔
ہاں ۔۔۔کرتی ۔۔۔ ہوں ۔۔ محبت ۔۔۔ بہت کرتی ہوں۔۔۔ وہ روہانسی آواز میں چیخ رہی تھی۔۔۔

anusinha
 

وہ کپڑے بدل کر۔۔۔ اب اس کی ساٸڈ پر اس کے سر پر کھڑا تھا۔۔۔ لوز سا ٹرایوزر اور ٹی شرٹ پہنی ہوٸی تھی۔۔۔
نازش جو کہہ رہی تھی کیا وہ سچ ہے۔۔۔ دانین کا دل عجیب طرح سے دھڑکا۔۔۔
نہ۔۔نہ۔۔نہیں۔۔۔ گھٹی سی آواز میں جواب دیا۔۔۔
زرداد نے اس کاموباٸل اٹھایا۔۔۔اور کال لسٹ میں سے نازش کا نمبر نکال کر اس کے سامنے کر دیا۔۔۔
تو پھر نازش کو کیوں کال کی تم نے۔۔۔ وہ اس پر جھکا ہوا تھا۔۔۔ آنکھیں شرارت سے چمک رہی تھیں۔۔
دانین بیٹھنے کا سے انداز میں اٹھی۔۔۔ زرداد کی نظریں اسے پریشان کر رہی تھیں۔۔۔
یہ ۔۔ تو۔۔۔ میں نے ویسےہی کی تھی اسے۔۔۔ دانین نے ہونٹوں پر زبان پھیری۔۔۔ اور بالوں کو کان کے پیچھے کیا۔۔۔
اچھا۔۔۔ زرداد نے مسکراہٹ دباٸی۔۔۔
وہ اس کے پیروں کی طرف بیٹھ رہا تھا۔۔۔ دانین نے جلدی سے پیر سمیٹ لیے۔۔۔
اور سمٹ کر بیٹھ گٸ۔۔۔

anusinha
 

نازش قہقہ لگاتے ہوۓ کہہ رہی تھی۔۔۔
زرداد نے ناسمجھی کے انداز میں پہلے نازش کی طرف دیکھا۔۔۔ اور پھر۔۔۔ دانین کی طرف۔۔۔
یہ اداس نہیں ہوا کرتی۔۔۔ بہت مظبوط ہے۔۔۔ ڈاکٹر جو ٹھہری۔۔۔زرداد نے طنزیہ لہجے میں کہا۔۔۔
ارے ۔۔۔ ایسی ویسی۔۔۔ جس دانین نے مجھے آج تک کبھی کال نہیں کی ۔۔۔ اس کی کال آٸی جب میں دبٸ میں تھی۔۔۔ اتنی پریشان اداس آواز۔۔ وہ زرداد کو پر شوق لہجے میں بتا رہی تھی۔۔۔
زرداد نے چونک کے دانین کی طرف دیکھا۔۔۔
دانین نے خجل سے انداز میں نظریں پھیر لیں۔۔۔
زرداد کے ہونٹوں کی گہری مسکراہٹ پھر سے لوٹ آٸی تھی۔۔۔
ہممم۔مم۔ تو ۔۔۔ نازش ۔۔ کال تو اس نے تمہیں کی۔۔ پھر اس میں یہ بات کہا سے آ گٸ ہاں کہ یہ مجھے مس کر رہی تھی۔۔۔ زرداد نے شرارت سے سامنے کھڑی دانین کو دیکھا۔۔۔ پر سوال ساتھ کھڑی نازش سے کر رہا تھا وہ۔۔۔

anusinha
 

وہ محفل کی جان بنا سامنے کھڑا مسکرا رہا تھا۔۔۔
تمہیں جانا ہوگا ۔۔۔ پرامس کرو۔۔۔ نازش بڑے مان سے اسے کہہ رہی تھی۔۔۔
ٹھیک ہے۔۔۔۔ زرداد کہیں گے تو چلوں گی میں ۔۔ اس نے خجل سی ہو کر جان چھڑوانے کے انداز میں کہا۔۔۔ ۔
کیوں نہیں کہے گا۔۔۔ رکو ذرا۔۔۔ ہے۔۔۔ زرداد ۔۔۔ زرداد کم ہیر۔۔۔ ہنڈسم۔۔ نازش ہاتھ کا اشارہ کرتے ہوۓ زرداد کو بلا رہی تھی۔۔۔
دانین پر بھر پور نظر ڈالتا ہوا وہ ان دونوں کے پاس آ کر کھڑا ہوا۔۔۔
بنکاک ۔۔۔ دانین بھی ہمارے ساتھ چلے گی ۔۔۔ اوکے۔۔۔ نازش نے مسکراتے ہوۓ زرداد کو کہا۔۔
دانین زرداد نے تھوڑا حیران ہو کر دانین کی طرف دیکھا دانین نے اسے صاف الفاظ میں کہا ہوا تھا وہ کبھی کہیں بھی اس کے ساتھ نہیں جاۓ گی۔۔۔
ہاں نہ اس دفعہ دیکھا نہیں ۔۔ یہ یہاں تمہیں مس کرتی رہی۔۔۔ تم وہاں اداس رہے۔۔۔ پر اگلی دفعہ یہ نہیں ہوگا۔۔ بلکل بھی۔

anusinha
 

سلیبرٹیز کا سمندر آج ان کے گھر کے بڑے سے لان میں موجود تھا۔۔۔
زرداد اس سے چاہے جتنا بھی بد دل ہوا تھا۔۔ لیکن اس کا ہوش ربا سراپا اس کے دل کے تار بجا رہا تھا۔۔۔
بار بار وہ دانین کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔ جو بے نیازی سے کھڑی ۔۔ نازش سے باتیں کر رہی تھی۔۔۔
دانین۔۔ دبٸ مس کر دیا تم نے لیکن نیکسٹ مت مس کرنا۔۔ ہم سب بنکاک جا رہے ۔۔۔ نیکسٹ منتھ۔۔۔ اور اس دفعہ تمھیں ہر صورت زرداد کےساتھ جانا ہے۔۔۔ نازش دانین کے بازو پر ہاتھ رکھ کر التجا کے انداز میں کہہ رہی تھی۔۔۔
میں ۔۔ میں کیا کروں گی وہاں جا کر۔۔۔ دانین نے زبردستی مسکرانے کی کوشش کی۔۔۔
ارے۔۔۔ کیا مطلب ۔۔ سب کی واٸف ان کے ساتھ ہوتی ہیں ۔۔۔ بس یہ تمھارا ہنڈسم اداس ہوتا وہاں۔۔ نازش نے دانین کو کندھا مارتے ہوۓ کہا۔۔۔ دانین نے نازش کی نظروں کا تعاقب کیا۔۔

anusinha
 

بوجھل آنکھوں سے پاس پڑے موباٸل کو اٹھا کر۔۔ الارم بند کیا۔۔۔
سیدھی ہوٸی تو نظر زرداد پر پڑی تھی۔۔۔
کتنا ظالم تھا یہ شخص۔ خود غرض۔ ۔۔ اس کے لیے۔۔۔ میں کیسے اپنے دل کو صاف کر لو۔۔۔ زین کہتا ہے۔۔۔ ایک دن میری نفرت کی کھوکھلی دیوار گر جاۓ گی۔۔۔
لیکن مجھے تو یوں لگتا ہے۔۔۔ میں شاٸید ساری عمر ہی اس سے نفرت کرتی رہوں گی۔۔۔ اور یہ نفرت کبھی محبت کا لبادہ پھر سے نہیں اوڑھے گی۔۔۔ دھیرے سے بیڈ سے نیچے اتری تھی۔۔۔
اور بوجھل سے قدم اٹھاتی وہ ہاسپٹل کے لیے تیار ہونے لگی۔۔۔
❤❤❤❤❤❤❤❤
واو۔۔۔ دانین ۔۔ بہت پیاری لگ رہی ہو۔۔۔ نازش نے اس کی بلاٸیں لینے کے انداز میں کہا
وہ مسکراتی ہوٸ لان میں داخل ہوٸی تھی۔۔۔ شاکنگ پنک ستاروں سے بھرے فراک میں۔۔ سلیقے سے کۓ گۓ سہنگار کے ساتھ بہت الگ لگ رہی تھی۔۔۔
زرداد نے اپنے ایوارڈ کی خوشی میں گٹ ٹو گیدر رکھی تھی۔

anusinha
 

بڑے مصروف سے انداز میں۔۔۔ اپنے کپڑے نکال رہا تھا۔۔
پورے کمرے میں اس کے سینٹ کی خوشبو پھیل گٸ تھی۔۔۔
دانین نے کروٹ لے کر منہ دوسری طرف کر لیا تھا۔۔۔
کپڑے تبدیل کرنے کےبعد جب وہ بیڈ پر آیا تو۔۔۔ وہ دوسری کروٹ میں لیٹی ہوٸی تھی۔۔۔
تھک سا گیا ہوں ۔۔ تمھاری نفرت سے لڑتے لڑتے۔۔۔ بیڈ پر لیٹ کر وہ دانین کی پشت پر بکھرے اس کے لمبے گھنے بال دیکھتے ہوۓ سوچ رہا۔۔۔تھا
جھوٹ ہی سمجھتا رہا کہ تم مجھ سے محبت کرتی ہو۔۔ ایک دن میری بے پنا ہ محبت تمھاری نفرت کی اس کھوکھلی دیوار کو گرا دے گی۔۔۔ لیکن میں غلط سوچتا رہا۔۔۔
واقعی تمھاری نفرت میری محبت سے زیادہ مضبوط ہے۔۔۔ وہ اب بلکل سیدھا ہو کر لیٹ گیا تھا۔۔ بے حد تھکا ہوا تھا کب ننیند آٸی پتہ بھی نا چلا۔۔۔
❤❤❤❤❤❤
الارم کی آواز پر ۔۔ اس نے آنکھیں کھولی تھیں۔۔۔