وہ چاہیے جتنا بھی زور لگا لے لیکن وہ کرسی کے بازو اکھیڑنے کی جدوجہد میں لگا ہوا تھا۔۔۔
دھاڑ سے دروازہ کھلا تھا۔۔۔ دو مکرہ شکل کے شخص اندر داخل ہوۓ تھے۔۔۔ ایک نے آتے ہی زرداد کے بال نوچنا شروع کر دیے تھے۔۔اس نے بالوں سے پکڑ کر زرداد کی گرد ن کو اسطرح پیچھے کیا کہ زرداد کی گردن کی رگیں پھول کر باہر نظر آنے لگی تھیں۔۔۔
دانین نے پھر سے عجیب سی آوازیں نکالنا شروع کر دی تھیں۔۔۔
بڑا تو ہیرو بنا پھرتا ہے۔۔۔ ابے۔۔۔ یاں۔۔۔یاں۔۔۔ ہمارے سامنے بول۔۔۔ پاکستان زندہ باد۔۔۔
اس نے زور سے زرداد کے پیٹ میں گھما کر ٹانگ ماری تھی۔۔ پوری کرسی ہل گٸ تھی۔۔۔
پاکستان۔۔۔ زندہ۔۔۔ باد۔۔۔ زرداد نے پہلے ایک طرف منہ کر کے تھوک پھینکا۔۔۔ اور پھر دھاڑنے کے انداز میں کہا۔۔۔
ابے ۔۔۔ تیری تو۔۔۔ اب دونوں مکرو شکل ۔۔ آدمی زرداد کو مار رہے تھے۔۔۔
میں ہوں۔۔۔ ادھر۔۔۔ دانین پاگلوں کی طرح۔۔۔ چیخنے کی کوشش میں عجیب سی آوازیں نکال رہی تھی۔۔۔ زرداد نے اپنی پوری قوت لگانا شروع کر دی۔۔۔ بازو رسی کے ساتھ اتنی مظبوطی سے بندھے تھے کہ ہل بھی نہیں پا رہے تھے۔۔۔
زرداد کا پورا جسم زور لگانے سے پسینے میں ڈوب گیا تھا۔۔۔
دانین مسلسل رو رہی تھی۔۔۔ اور آنکھیں پھاڑے زرداد کو دیکھے جا رہی تھی۔۔۔
دانین چپ کرو ۔۔۔ پلیز۔۔۔ چپ کرو۔۔ میں کچھ کرتا ہوں۔۔۔ دانین کا بلکنا اور تڑپنا اس سے دیکھا نہیں جا رہا تھا۔۔۔ پیچھے سر سے خون بہہ کر گردن تک آیا ہوا تھا۔۔۔
ام۔م۔م۔م۔م۔م۔۔۔۔ آہ۔۔۔ وہ اپنا پورا زور لگا رہا تھا۔۔۔ لکڑی کی کرسی کے بازو کے کیل۔۔ اوپر کو اٹھنے لگے تھے۔۔۔ زرداد نے اپنی ہتھیلیوں سے کرسی کے بازو کی اگلی جگہ کو جکڑا ہوا تھا۔۔
اسے پتہ تھا۔۔۔ رسی نہیں ٹوٹ سکتی
سر میں شدید درد کے زیر اثر بہت مشکل سے زرداد نے دھیرے سے اپنی آنکھیں کھولی تھیں۔۔۔
اون۔و۔۔۔و۔۔۔و۔۔اون۔۔۔و۔ووو۔۔اس کے پاس سے آوازیں آ رہی تھی۔۔۔
زرداد کے بازو نہیں ہل رہے تھے۔۔۔ اس نے مکمل آنکھیں کھولی تھیں۔۔۔ اس کے بازو ایک لکڑی کی کرسی کے بازوٶں کے ساتھ باندھ کر جکڑے ہوۓ تھے۔۔۔
اس کے بلکل ساتھ نیچے زمین پر دانین بیٹھی تھی ۔۔۔ اس کے ھاتھ پیچھے بندھے تھے۔۔۔ اور اس کے منہ پرکپڑا باندھا ہوا تھا۔۔۔
وہ مسلسل چیخنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔ لیکن منہ پر کپڑا ہونے کی وجہ سے وہ چیخ بھی نہیں پا رہی تھی۔۔۔ انتہاٸی گندا مٹی اور ٹوٹی پھوٹی چیزوں سے اٹا ہوا کمرہ تھا۔۔۔ جس کرسی کے ساتھ اسے باندھا ہوا تھا۔۔۔ وہ بھی کو پرانی سی کرسی تھی۔۔۔
کچھ دیر زرداد کو اپنے حواس بحال کرنے میں لگے۔۔۔
دانین۔۔۔ دانین۔۔۔ پریشان مت ہو۔۔۔
اینکر اپنے ساتھ بیٹھے تجزیہ کاروں سے راۓ لے رہی تھی۔۔۔
دیکھیں۔۔۔ اس وقت ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔۔۔ کہ کیا چل رہا ان کے دماغ میں۔۔۔ انڈیا کا کہنا ہے اس میں بس چند شر پسند گروہ متحرک ہیں۔۔۔ اب زرداد ہارون کو غاٸب کرنے میں ان کی کیا چال ہے۔۔۔ یہ وقت سے پہلے ہم نہیں بتا سکتے۔۔
ان کی اہلیہ بھی ان کے ہمراہ ہیں۔۔۔ دونوں لا پتہ ہیں۔۔۔ ان کے اہل خانہ سے ہم آپ سب کی ملاقات کرواٸیں گے کچھ دیر میں۔۔۔ اینکر اپنی کرسی کو گھوماتے ہوۓ کہہ رہی تھی۔۔
ہارون اور سکندر دم سادھے بیٹھے تھے۔۔۔ ان کے گھر کے باہر۔۔۔ میڈیا کا اور لوگوں کا رش لگ گیا تھا۔۔۔ ۔
پاکستان کے نامور گلوکار۔۔۔ زرداد ہارون ۔۔۔ انڈیا میں۔۔۔ لا پتہ۔۔۔ ان کی اہلیہ ان کے ہمراہ ہیں۔۔۔
ٹی وی پر ہر جگہ ۔۔ یہی آوازیں سناٸی دے رہی تھیں۔۔۔
❤❤❤❤❤❤❤
اس نے آج سے پہلے کبھی زرداد کو یوں اتنا پریشان ہوتے نہیں دیکھا تھا
تم اپنی بکواس بند کرو کچھ دیر کے لیے۔۔ سمجھی تم ۔۔۔ اس نے خونخوار نظروں سے گھورا اور دھاڑنے کے انداز میں کہا۔۔۔ وہ سہم گٸ۔۔
وہ مشہود کا انتظار کر رہا تھا جب سر کے پیچھے کچھ زور کا لگا۔۔۔ آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا تھا۔۔۔
❤❤❤❤❤❤❤❤
پاکستانی نامور گلوکار۔۔۔ زرداد ہارون۔۔۔ انڈیا میں لا پتہ۔۔۔ ان کی اہلیہ بھی ان کے ہمراہ ہیں۔۔۔
ٹی وی پر بار بار بریکنگ نیوز چل رہی تھی۔۔۔ سدرہ اور ثمرہ کی حالت رو رو کر غیر ہوٸی پڑی تھی۔۔۔
جی ۔۔ جی۔۔۔ ہم مکلمل کونٹیکٹ میں ہیں۔۔۔ لیکن ۔۔ ان کا کہنا ہے۔۔ ہم نے سکیورٹی پرواٸیڈ کی تھی۔۔۔ وہ اس ہوٹل میں ہی موجود نہیں تھے۔۔۔ اینکر بیٹھی بات کر رہی تھی۔۔۔
آپکو نہیں لگتا کہ یہ سب مورہت سامیر کی رہاٸی کے لیے کیا جا رہا ہے۔۔۔
بےوقوف کہیں کی۔۔۔ وہ بار بار اپنا منہ چھپاتا ہوا اسے ایک درخت کے نیچے لے آیا تھا۔۔۔
مہ۔۔۔مہ۔۔۔میں نے سوچا تمھارے اٹھنے سے پہلے مندر دیکھ آٶں گی میں۔۔۔ وہ ابھی بھی کچھ نہیں سمجھی تھی وہ کیوں اتنا پریشان تھا کیا مسٸلہ تھا ۔۔
وہ فون پر بار بار کال ملا رہا تھا ۔۔ اور کبھی ارد گرد دیکھ رہا تھا۔۔
ہیلو۔۔۔ مشہود۔۔۔ سنو۔۔۔ ہاں۔۔۔ ہاں۔۔۔ مل گٸ ہے وہ۔۔ اس کی آواز اس کے اندر کی پریشانی کا حال بتا رہی تھی۔۔۔
اچھا سنو۔۔ ہوٹل کےداٸیں طرف کے مندر کے باغ میں ہیں ہم دونوں جلدی پہنچو۔۔۔
زرداد نے موباٸل جیب میں رکھا۔۔۔ اور پھر سے ارد گرد دیکھا۔۔ دوپٹے سے منہ ڈھک لو اپنا۔۔۔ دانین کو غرانے کے انداز میں کہا۔۔۔
زری ہوا کیا ہے۔۔ مجھے بتاو تو۔۔۔ کیوں اتنے پریشان ہو۔۔۔ وہ خود بھی اس انجانی پریشانی سے بےحال ہو گٸی تھی۔۔
پارٹ ٢
وہ جلدی سے اس کے آس پاس کے لان میں دیکھ رہا تھا۔۔۔ اس کی نظریں تیزی سے ارد گرد گھوم رہی تھیں۔۔
جب اچانک اس کی جان میں جان آٸی ۔۔۔ وہ ایک عورت کے ساتھ بیٹھی مزے سے باتیں کر رہی تھی۔۔۔
دانین۔۔۔ دانین۔۔۔ وہ اسے دور سے پکارتا ہوا آگے آیا۔۔۔ دانین اسے دیکھ کر مسکرا کر اٹھی۔۔۔ ہر معاملے سے یکسر انجان تھی۔۔۔
زرداد نے پاس جا کر زور سے اس کا بازو دبوچا تھا۔۔۔
پاگل لڑکی۔۔۔ وہ بری طرح اس پر دھاڑا تھا۔۔۔ وہ ناسمجھی کے انداز میں گھبرا گٸ تھی۔۔۔
چلو یہاں سے جلدی۔۔۔ وہ تیزی سے اس کا بازو پکڑ کر ایک طرف لے آیا تھا۔۔۔ ۔ چہرہ پریشان حال تھا۔۔۔ ماتھے پر سو بل تھے۔۔۔
کہ۔۔۔کیا ہوا زری۔۔۔ اس کے جھنجوڑنے پر وہ تھوڑی سی لڑ کھڑا گٸی تھی۔۔۔
تم کیوں ایسے ۔۔۔ بنا بتاۓ۔۔۔ چلی آٸی۔۔۔ زرداد نے دانت پیستے ہوۓ اسے غصے سے دیکھا۔۔
کہہ اس نے پاکستان کا ملی نغمہ ۔۔۔ تاج محل کے سامنے کھڑے ہو کر گایا تھا۔۔۔ متشعل افراد اور کچھ پارٹیز بری طرح اس کے خلاف بول رہی تھیں۔۔۔
کیا پاگل ہیں یہ لوگ۔۔۔ زراد نے زور سے ریموٹ دیوار میں مارا۔۔۔مشہود نے اسے سختی سے منع کیا کہ وہ خود آس پاس ۔۔ دیکھ کر آتا ہے دانین کو وہ ہوٹل سے باہر نا آۓ۔۔۔۔
وہ سر کو ہاتھوں میں جکڑ کر بیٹھا تھا کہ اچانک اس کے زہن میں کل مندر والی بات آٸی۔۔۔
اوہ۔۔۔ تو کہیں وہ اکیلی ۔۔۔ پاگل لڑکی۔۔۔ زرداد نے دانت پیسے۔۔۔ جلدی سے مشہود کو کال ملاٸی پر اس کا نمبر مصروف میں جا رہا تھا۔۔۔
وہ تیزی سے اٹھا ۔۔ ہڈ ۔۔ پہن کر اچھی طرح منہ کو چھپایا۔۔۔ سن گلاسز لگاۓ اور کمرے سے باہر نکل آیا۔۔۔
❤❤❤❤❤❤
دانین کو کوریڈور میں پاگلوں کی طرح آوازیں دی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ وہ وہاں بھی نہیں تھی۔۔۔جلدی سے مشہود کا نمبر ڈاٸل کیا۔۔
دانین ۔۔۔ دانین کمرے میں نہیں ہے نیچے لابی میں چیک کرو ذرا میں اوپر سارے فلور دیکھتا ہوں۔۔۔
وہ تیزی سےکمرے سے باہر نکلا تھا۔۔۔ دل تیز تیز دھڑک رہا تھا۔۔۔ اسے دانین سے اس طرح کی بیوقوفی کی توقع ہر گز نہیں تھی۔۔۔ اس کے پاس تو فون بھی نہیں تھا۔۔۔ وہ اور مشہود ۔۔۔ پورے ہوٹل میں اسے تلاش کر چکے تھے۔۔۔
زراد کو اب دانین پر غصہ آ رہا تھا آخر کو وہ کہا ں چلی گٸ تھی۔۔۔ دل تھا کہ ایک انجانے خوف سے دھڑکنےلگا تھا۔۔۔ ویڈیو میں وہ اس کے ساتھ کھڑی تھی بلکل۔۔۔ اور لوگوں نےالگ سے ان کی تصویریں بھی لی تھیں۔۔
زرداد نے ٹی وی آن کیا۔۔۔ ہر نیوز چینل نے اسی بات کو اچھلا ہوا تھا۔۔ کہہ اس نے پاکستان کا ملی نغمہ ۔۔
ایک رات کے اندر اندر سوشل میڈیا کے زریعے اس کو بری طرح کانٹروریسز کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔۔۔
سر آپ پریشان نا ہوں۔۔۔ میں نے ڈبل سکیورٹی کی بات کی ہے۔۔۔ وہ لوگ بس آنے والے ہوں گے۔۔آپ اور میم کمرے سے باہر مت آۓ گا۔۔۔ پولیس پہنچ چکی ہے ویسے اتنی پریشانی کی بات نہیں ہے۔۔۔ پولیس لوگوں کو سنبھال رہی ہے۔۔۔ یہ چند شر پسند لوگوں کا کام ہے۔۔۔بس۔۔۔ زراد نے فون کو بند کیا۔۔۔
بالوں کو ھاتھ کے زریعے ماتھے سے پیچھے کیا۔۔۔ اور ایک دم سے کسی خیال کہ آنے پر وہ چونک گیا تھا۔۔۔
دانین ۔۔۔ دانین کمرے میں موجود نہیں تھی۔۔ وہ تیزی سے بھاگتا ہوا واش روم کی طرف گیا۔۔۔ اس کا دروازہ کھلا تھا۔۔۔
دانین ۔۔۔ دانین ۔۔ اس نے ٹیرس پر دیکھا۔۔۔ وہ وہاں بھی نہیں تھی۔۔۔
ایک دم سے زرداد کے چہرے پر پریشانی کی لیکریں بن گٸ تھیں۔۔۔
وہ تیزی سے کمرے سے باہر نکلا تھا۔۔۔
پردہ ہٹا کر دیکھا۔۔۔ تو نیچے لوگوں کی بھیڑ اکٹھا تھی۔۔۔ ہاتھوں میں ۔۔۔ بینرز پکڑ رکھے تھے۔۔۔ کچھ میں تو ہندی لکھی تھی۔۔۔ اور کچھ میں انگلش میں لکھا تھا۔۔۔ لوگ اس کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔۔۔ اسے انڈیا سے باہر نکالنے کے اور اس کے گانے یہاں بین کرنے کے لیے۔۔۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔۔۔
مشہودپریشان آواز میں اسے کچھ بتا رہا تھا۔۔۔ کل تاج محل کے سامنے کھڑے ہو کر اس نے جو ملی نغمہ گایا تھا۔۔۔ وہ ویڈیو واٸرل ہو گٸ تھی نغمے کے بعد جو اس نے دو دفعہ پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگا ڈالا تھا۔۔ اس پر زیادہ کانٹروریسز ہو رہی تھیں۔۔۔۔۔۔ اور کچھ شر پسند لوگ متشعل ہو گۓ تھے۔۔۔
پاکستان اور ہندوستان کے آپس کےحالات پہلے ہی کچھ کشیدہ چل رہے تھے۔۔۔ اوپر سے لوگوں نے اس کی اتنی سی بات کو ہوا بنا کر ملک میں جگہ جگہ احتجاج شروع کیا ہوا تھا۔۔۔
زرداد نے پیار سے اس کی طرف دیکھا۔۔ وہ کچھ خفا سی بیٹھی تھی۔۔۔
صرف آج ہی چند جگہوں پر وہ گھومے تھے۔۔ اور اب واپس ہوٹل جا رہے تھے۔۔۔۔۔
❤❤❤❤❤❤
فون کی بار بار آواز پر ۔۔ زرداد نے منہ پر سے تکیہ اٹھایا تھا۔۔۔
ایک نظر فون پر اور دوسری گھڑی پر ڈالی صبح کے دس بج رہے تھے۔۔۔
مشہود کا نمبر فون پر چمک رہا تھا۔۔۔
ہم۔م۔م۔۔ بولو۔۔ فون کان کو لگاتے زرداد نے کہا۔۔ جبکہ اس کے ہاتھ انگاڑاٸی کی صورت میں اوپر اٹھے تھے۔۔۔
سر کچھ مسٸلہ کھڑا ہو گیا ہے یہاں۔۔۔ مشہود کی آواز میں پریشانی تھی۔۔ اس کے عقب سے شور سناٸی دے رہا تھا۔۔۔۔
کیوں کیا ہوا۔۔۔ سر ونڈو کا پرد ہٹا کے نیچیں دیکھیں ذرا۔۔۔ ٹیرس میں مت نکلیے گا۔۔۔ پردہ ہٹا کے دیکھیں۔۔۔ مشہود کی پریشانی اس کی سمجھ سے بالاتر تھی۔۔۔
زرداد کمبل کو ایک ہاتھ سے اپنے پر سےاٹھاتا ہوا ۔ نیچے اترا تھا۔۔۔
۔۔۔ ہینڈسم بواۓ۔۔۔ ونس فور می۔۔۔ ایک گوری میم ۔۔ بھیڑ میں سے آگے آٸی۔۔۔زرداد کو خوشگوار حیرت ہوٸی کہ وہ لوگ بھی اسکو سنتے تھے۔۔۔
وہ ۔۔ جو۔۔۔ ٹمھارا۔۔۔۔ وطن والا ۔۔ وہ سناٶ ۔۔ دو۔۔۔ آ ٸی لو۔۔ دس سونگ۔۔ وہ ٹوٹی پھوٹی اردو میں بولی۔۔۔ اور زرداد کے پاکستان کے لیے گاۓ گۓ نغمے کی فرماٸش کر دی۔۔۔
اوہ ۔۔ وہ گانا نہیں۔۔۔ ہے۔۔۔ میرا نغمہ ہے ۔۔۔ زرداد نے قہقہ لگایا تھا۔۔۔
تھوڑا سا سناٶ دو۔۔۔ مجھے سننا ہے۔۔ پلیز۔۔۔ وہ التجا کرنے جیسے انداز میں کہہ رہی تھی۔۔
زرداد نے اس کے بہت اسرار پر نغمے کے چند مصرے گنگنا ڈالے اور سب لوگ تالیاں پیٹ رہے تھے۔۔۔
اور آخر میں پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا ویڈیوز بنا رہے تھے۔۔۔ لوگ اس کی اور دانین کی تصویریں لے رہے تھے۔۔۔
بہت مشکل سے وہ اور دانین لوگوں کی بھیڑ میں سے سکیورٹی کی مدد سے نکل پاۓ تھے۔۔۔
پل بھر میں۔ وہ اور دانین لوگوں میں گِھر گۓ تھے۔۔۔
وہ ہنس کر سب کے ساتھ تصویریں بنا رہا تھا۔۔۔
اپنا ۔۔ نادانیاں والا گانا گا دیجے نا ۔۔۔ تھوڑا سا بس۔۔ ایک لڑکی نے فرماٸش کی۔۔۔ انڈین فلم میں اسکی آواز میں یہ سپر ہٹ گانا رہا تھا اس کا۔۔۔ جس کی فرماٸش وہ لڑکی کر رہی تھی۔۔۔
لوگوں کا اتنا رش دیکھ کر سیکورٹی۔۔ فوراََ الرٹ ہو گٸ تھی۔۔۔ وہ آ کر لوگوں کو زرداد سے دور رہنے کا کہہ رہے تھے۔۔۔
زرداد نے ہاتھ کے اشارے سے سکیورٹی کو کچھ بھی کرنے سے منع کیا۔۔۔
دانین یہاں۔۔۔ دوسرے ملک میں بھی لوگوں کی زرداد کے لیے محبت دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔۔۔
بس تھوڑا سا گنگناٶں گا۔۔۔ اس نے بچی کی طرف پیار سے دیکھا۔۔۔ اور پھر ایک نظر مسکراتی ہوٸی دانین پر۔۔۔ دانین کی مسکراہٹ پر تو سب قربان تھا۔۔۔
پھر اس نے گانے کے چند بول گنگناۓ تھے۔۔۔ لوگ اور اکٹھے ہو رہے تھے۔۔۔
17
پارٹ ١
سنا۔۔۔ ہے۔۔۔ محبت کرنے والوں کی جگہ ہے یہ۔۔۔زرداد نے پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈال کر دانین کی طرف دیکھا۔۔
وہ جو تاج محل کی سفید رنگ کی خوبصورت عمارت کو دیکھنے میں محو تھی۔۔۔ اس کی بات پر پیچھے مڑ کر۔۔۔ اسے دیکھا۔۔۔
وہ جیبوں میں ہاتھ ڈالے وہی قاتل مسکراہٹ ہونٹوں پر سجاۓ کھڑا تھا۔۔۔
سورج کی کرنیں ۔۔۔۔ تاج محل کے سامنے بنی ندی کے پانی پہ پڑ پر کر منظر کو اور خوبصورت بنا رہی تھی۔۔۔
پر کبھی کبھی بے اعتبار لوگ محبت کا اعتبار بھی پا جاتے ہیں۔۔۔ یہاں آ کر۔۔۔ وہ اب چلتا ہوا بکل اس کے سامنے آ گیا تھا۔۔۔ ہونٹوں پر مسکراہٹ ڈیرہ ڈالے ہوٸی تھی۔۔۔
اعتبار ایسے نہیں آۓ کرتے۔ زرداد۔۔ وہ ہوا سے اڑتے ہوۓ دوپٹے کو سنبھال رہی تھی۔۔۔ اور ایک طنز بھری سی مسکراہٹ اس کے بھی لبوں پر تھی۔۔۔
تو کیا جان لے کر ہی اعتبار کرو گی۔۔۔۔
ہریشان نہ ہو زیادہ دیر نہیں رکنا پڑے گا ۔۔۔
وہ کچھ کہتے کہتے رک گٸ تھی۔۔۔ پھر خاموشی سے زرداد کے قدم سے قدم ملا کر چلنےلگی۔۔۔
❤❤❤❤❤❤❤❤
ظالم کہیں کی۔۔۔۔ زرداد نے اس کو اپنی آنکھوں میں بساتے ہوۓ سوچا۔۔۔
زرداد نے اپنی ہنسی چھپاتے ہوۓ دانین کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔
جو ڈریسنگ کے آگے کھڑی تیار ہو رہی تھی۔۔۔ انہیں آج بنکاک گھومنا تھا۔۔۔۔
❤❤❤❤❤❤❤
زری تھوڑا سا تو اور قریب ہو۔۔۔ اس سے زیادہ قریب تو تم رات نادیہ کے ساتھ ۔۔۔ نازش قہقہ لگا رہی تھی
دانین کا دل ایک دم اے ڈوبا تھا۔۔۔ رات والے منظر نظروں کے سامنے سے گزر رہے تھے۔۔۔
نازش زرداد اور دانین کی تصویریں بنا رہی تھی۔۔۔
یہاں اتنا قریب ہونے پر سزا مل جاتی ہے۔۔۔ زرداد نے دانین کے کان میں سرگوشی کی۔۔
دانین کا دل ہلکے سے ڈوبا تھا۔۔۔
❤❤❤❤❤❤❤❤
وہ پہلی دفعہ زرداد کو اس طرح لاٸیو کسی کے ساتھ پرفارم کرتا دیکھ رہی تھی۔۔۔
جب ۔۔ جب نادیہ اپنا چہرہ اس کے چہرہ کے پاس لے کر آتی دانین فوراََ جزبز سی ہو کر اردگرد دیکھنے لگتی۔۔۔
کبھی ہونٹوں پر زبان پھیرتی۔۔۔
اسے خبر بھی نہیں تھی۔۔۔ کتنے ہی کیمرے اس کی یہ حالت ریکارڈ کر رہے تھے۔۔۔
❤❤❤❤❤❤❤
وہ بیڈ پر لیٹا قہقے لگا رہا تھا۔۔ جاندار قہقے ۔۔۔آج کتنے عرصے بعد وہ ۔۔ یوں کھل کر ہنس رہا تھا۔۔۔
وہ ہاتھ صاف کرتے ہوۓ اسے حیران ہو کر دیکھ رہی تھی۔۔۔
زرداد کو مختلف کیمرہ مینز کی طرف سے دانین کی وہ وڈیو گفٹ مل رہی تھی۔۔۔ جو کل رات کے شو میں اس کی حالت پر بنی تھی۔۔۔
وہ زرداد کے دل کو ایسے کرتی ہوٸی ۔۔پوری دنیا سے زیادہ دلکش عورت لگ رہی تھی۔۔۔
نہ خود کو ہاتھ لگانے دیتی۔۔۔ نہ کسی اور کو چھونے دیتی ۔۔
جہاز لینڈ کر رہا تھا۔۔۔
زرداد نے مسکراتے ہوۓ شرارت سے اپنا بازو اس کے آگے کیا۔۔۔
❤❤❤❤❤❤❤
وہ کبھی اس کروٹ بیٹھ رہی تھی ۔۔ تو کبھی اس کروٹ۔۔۔
نادیہ بخت۔۔۔ کےساتھ زرداد اپنے ہی ایک گانے پر پرفارم کر رہا تھا۔۔۔ کبھی اس کی کمر پر ہاتھ رکھ رہا تھا تو کبھی اس کو کمر سے پکڑ کر اوپر اٹھا رہا تھا۔۔۔
دانین کے گال تپ رہے تھے۔۔۔ وہ اتنی مشہور اور خوبصورت ٹاپ ماڈل تھی۔۔۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ پرفکیٹ کپل لگ رہے تھے۔۔۔اور ایک وہ تھی۔۔ اس کا اور زرداد کا کوٸی مقابلہ ہی نہیں تھا۔۔۔
گھٹن سی ہو رہی تھی۔۔۔دل کر رہا تھا۔۔۔سٹیج پر جاۓ۔۔۔ اور ہاتھ پکڑ کر زرداد کو وہاں سے کہیں اور لے جاۓ۔۔۔ وہاں جہاں ایسی دنیا نہ ہو جیسی اس کی تھی۔۔۔
وہ خود اپنی ہی حالت پر پریشان ہو رہی تھی۔۔۔
اس کا رنگ زرد پڑتا جا رہا تھا۔۔ شاٸید۔۔۔
۔ اور اپنے اور اس کے سراپے کو ایک ساتھ کتنی ہی تصویروں میں قید کر لیا۔۔۔
اس کےکندھے پر سر رکھے۔۔۔ آنکھیں موندے۔۔۔ وہ دنیا جہان کی معصومیت کو سموۓ۔۔۔ سو رہی تھی۔۔۔ زرداد کے لب مسکرا دۓ تھے۔۔۔ دھیرے سے سیٹ کی پشت کے ساتھ سر ٹکا کر اس نے بھی آنکھیں موند لی تھیں۔۔۔
کسی کے بولنے پر دانین کی آنکھ کھلی تو ۔۔ جھینپ گٸی۔۔۔ بڑے مزے سے زرداد کے کندھے کو تکیہ سمجھ کر سر رکھے ہوۓ تھی۔۔۔
سورٕی۔ ۔۔دھیرے سے کہا ۔ جب کہ اس کے ہاتھ اسکے بالوں کو کانوں کے پیچھے کر رہے تھے۔۔۔
پہلی دفعہ دیکھا ہے ۔۔۔ کوٸی عناٸت کرنےپر بھی معافی مانگ رہا ہے۔۔۔۔ آنکھوں میں بہت سے شکوے لیے زرداد نے اس کی طرف دیکھا۔۔
اس نے خاموشی سے رخ موڑ لیا تھا۔۔
اب وہ غصہ نہیں کرتی تھی ۔۔ نہ ہی ناگواری دکھاتی۔ تھی۔۔ بس چپ ہو جاتی تھی۔۔۔ اب اسے اس پر غصہ آتا بھی نہیں تھا۔۔۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain