Damadam.pk
anusinha's posts | Damadam

anusinha's posts:

anusinha
 

۔۔۔ انھیں اٸیرپورٹ سے لانے کے بعد سب ادھر ہی رک گۓ تھے آج۔۔
باتوں کی آوازیں شورو غل۔۔۔
بنا دیں امی سوپ۔۔۔ زرداد نے چہرہ اوپر اٹھا کر ثمرہ سے کہا۔۔۔اور خود اٹھ کر بیٹھ گیا۔۔۔
زرداد نے انگڑاٸی لینے کے سے انداز میں ہاتھ اوپر اٹھا کر دانین کی طرف دیکھا۔۔۔
پھر صوفے پر اپنے ساتھ والی جگہ پر اشارہ کیا جہاں سے ابھی ثمرہ اٹھ کر گٸ تھی۔۔۔ آنکھیں ۔۔۔ ہلکی ہلکی خماری ظاہر کر رہی تھیں۔۔۔ جیسے ابھی نشہ چڑھنا شروع ہی ہوا ہو بس۔۔۔۔
دانین نے اپنی ہنسی دباٸی۔۔۔ اور شرارت سے سر نہیں میں ہلا دیا۔۔۔ جب کے گال تپنے لگے تھے۔۔۔ اور دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔۔
زرداد سفید رنگ کے قمیض شلوار میں۔۔۔ اس کے دل کو دھڑکا رہا تھا۔۔۔
سامنے بیٹھا یہ خوبصورت شخص ۔۔۔ اس کے عشق میں پاگل تھا۔۔۔ وہ اس کے لیے سب کچھ تھی۔۔۔ دانین نے دل میں سوچتے ہوۓ۔۔۔ محبت سے اسے دیکھا۔۔

anusinha
 

زرداد نے محبت بھری نظر ۔۔۔ اپنے باپ پر ڈالی اور ایک دفعہ پھر دونوں ایک دوسرے کے گلے لگے ہوۓ تھے۔۔۔
❤❤❤❤❤❤❤❤
زری۔۔۔ سوپ پینا ہے۔۔ بنا دوں ۔۔۔ بیٹے۔۔۔ ثمرہ نے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوۓ محبت سے کہا۔۔۔ وہ جو شرارت اور محبت سے دانین کو دیکھنے میں مصروف تھا۔۔ ثمرہ کی بات پر ایک دم چونکا۔۔۔
سب لوگ دیر تک بیٹھے گپ شپ کر رہے تھے۔۔۔ گھر میں عید کا سا سما تھا۔۔۔۔ منال اشعال۔۔۔ اسما۔۔۔ شازر۔۔۔ احمد ۔۔ سب تھے وہاں۔
زرداد ثمرہ کی گود میں سر رکھے لیٹا ہوا تھا۔۔۔ لیکن نظریں۔۔۔ سامنے منال اور اشعال کے درمیان گھری بیٹھی دانین پر بار بار پڑ رہی تھیں۔۔۔
وہ شرماتی ہوٸی کتنی دلکش لگ رہی تھی۔۔ زرداد کی نظروں کی تپش سے گھبرا کر کبھی چوری چوری اسے دیکھ رہی تھٕی۔۔۔ تو کبھی نظریں جھکا رہی تھی۔۔
سب لوگ کراچی میں زرداد کے گھر پر ہی جما تھے۔۔۔

anusinha
 

آخری قسط
ابا بس کریں۔۔۔ اب۔۔ شازر نے ہارون کے پیچھے ہاتھ پھیرتے ہوۓ کہا۔۔ جو زرداد کے گلے لگے ہوۓ تھے۔۔۔ اور روۓ جا رہے تھے۔۔۔ زرداد کے بھی آنسو بہہ رہے تھے۔۔۔
ہارون کبھی اس کا ماتھا چوم رہے تھے تو کبھی اس کے ہاتھ پکڑ کر چوم رہے تھے۔۔۔
ادھر آو تم بھی۔۔۔ انھوں نے دانین کو بلایا اور اس کا ماتھا چوما
سب لوگوں کی آنکھیں نم تھیں۔۔۔
اٸیرپورٹ پر صرف۔۔۔ گھر والے ہی نہیں آۓ تھے۔۔ بلکہ پورا پاکستان ہی جیسے امڈ آیا تھا۔۔۔ ۔
زرداد پر پھول برساۓ جا رہے تھے۔۔۔ لوگ قطار در قطار کھڑے تھے۔۔
وہ اپنے گھر والوں کے ہمراہ ہارون کا ہاتھ پکڑے لوگ کی بھیڑ اور محبت میں سے گزر رہا تھا۔۔۔
ہارون کا سینہ۔۔۔ فخر سے تنا ہوا تھا۔۔۔ انھیں۔۔ اپنے بیٹے پر ناز تھا۔۔۔
وہ کبھی مسکرا کر لوگوں کی بھیڑ کو دیکھ رہے تھے۔۔۔ تو کبھی۔۔ اپنے بیٹے کے چہرے کی طرف۔۔۔

anusinha
 

بخار سے آنکھیں۔۔۔ سرخ ہو رہی تھیں۔۔۔
بھاٸی صاحب۔۔۔ کوٸی ہاسپٹل ہے یہاں۔۔۔ دانین نے گاڑی کے شیشے کو نیچے کر کے ایک آدمی سے پوچھا۔۔۔
نہیں۔۔۔ ایک کلینک ہے چھوٹا سا۔۔۔ ہاسپٹل نہیں ہے یاں۔۔۔ مارے۔۔ گاٶں میں۔۔ آدمی نے حیران ہو کر دونوں کو دیکھا۔۔۔
وہ آدمی ان کو اس کلینک تک لے آیا تھا۔۔۔
کوٸی ڈاکٹر موجود نہیں تھا۔۔۔ لیکن دانین کو ساری میڈیسن۔۔ بینڈیج۔۔ مل گۓ تھے۔۔۔
میرا موباٸل دیکھنا ان لوگوں نے۔۔ کہیں گاڑی میں ہی رکھا ہو گا۔۔۔ دانین اس کو پٹی کر رہی تھی۔۔۔ جب زرداد نے اسے کہا۔۔۔
اور واقعی ہی موباٸل گاڑی کی بیک سے ہی ملا تھا۔۔۔
کوٸی۔۔ سنگرام پور گاٶں ہے۔۔۔ لوکیشن میں بھیجتا ہوں تمہیں۔۔ زراداد مشہود سے بات کر رہا تھا۔۔۔
❤❤❤❤❤❤❤❤

anusinha
 

خود اتنی تکلیف میں تھا۔۔ پھر بھی اسے بچوں کی طرح ۔۔ پیار کر رہا تھا۔۔۔ اتنا سکون تھا کہ پتہ ہی نا چلا کب وہ یوں اس کے ساتھ چمٹ کر سو گٸ تھی۔۔۔
❤❤❤❤❤❤❤
صبح گال کسی گرم چیز سے لگنے کا احساس ہو۔۔۔ وہ زرداد کی گود میں سر رکھے سو رہی تھی۔۔۔ اور وہ بخار میں تپ رہا تھا۔۔۔
چہرہ زرد ہو رہا تھا۔۔۔
جھٹکے سے وہ اٹھی تھی۔۔۔ زری۔۔۔ زری۔۔۔ آپکو بخار ہو رہا ہے۔ آپکو میڈیسن کی ضرورت ہے ۔۔ وہ زرداد کےچہرے کو اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر بول رہی تھی۔۔
چلیں۔۔۔ چلتے ہیں اب ۔۔۔ وہ زرداد کو سہارا دے کر اٹھا رہی تھی۔۔۔
وہ پھر سے اسی سڑک پر رواں تھے۔۔۔ زرداد کا جسم تپ رہا تھا۔۔۔ لیکن وہ تیزی سے گاڑی سڑک پر دوڑا رہا تھا۔۔۔
کچھ فاصلے پر ۔۔۔ آبادی کے آثار نظر آنے لگے تھے۔۔ شاٸید کوٸی گاٶں تھا۔۔۔
زارداد نے گاٶں کی سڑک پر گاڑی دوڑا دی تھی۔۔۔

anusinha
 

ہم۔۔ کچھ دیر آوازوں کے بعد۔۔ زرداد نے کہا۔۔۔ وہ واقعی شاٸید غنودگی میں تھا۔۔۔
زری ۔۔مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔۔ دانین نے گھٹی سی آواز میں کہا۔۔۔
میرے پاس آو۔۔۔ زرداد نے دھیرے سے کہا۔۔۔ اپناٸت بھرا۔۔۔ محبت کی چاشنی میں ڈوبا ہوا لہجہ۔۔۔
وہ دھڑکتے دل اور خوف سے کانپتے وجود کے ساتھ پیچھے آٸی۔۔
یہاں آو اندھیرے میں کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔۔۔ بس زرداد کے ہاتھوں نے پکڑ کر اسے اپنے ساتھ بٹھایا تھا۔۔۔ وہ زرداد سے لپٹ لپٹ گٸ تھی سکون مل گیا تھا۔۔۔ خوف سے کانپتے دل کو تسکین کا احساس ہوا تھا۔۔۔
کتنا پیار احساس تھا یہ۔۔ وہ اس کا شوہر اس کا محافظ تھا۔۔ اس کے پہلو میں آتے ہی سارے خوف ہوا ہو گۓ تھے۔۔۔ اب تو دل محبت سے دھڑک رہا تھا۔۔۔زرداد کی خوشبو۔ ۔۔ اس کے وجود میں سراٸیت کر رہی تھی۔۔۔
زرداد کے اس کے بازو اور کمر پر تپھکی کے انداز میں ہاتھ پھیر رہا تھا۔۔

anusinha
 

۔م۔م۔م۔۔۔۔ زرداد نے لب بھٕنچے اور کار کی سیٹ کی پشت کے ساتھ سر ٹکا دیا۔۔۔
ہمم۔م۔م۔م۔ اس کا مطب ہے۔۔۔ رات یہں پر رکتے ہیں۔۔۔ صبح درد کچھ کم ہو گا تو نکلیں۔۔۔ گے۔۔ آہ۔۔۔ وہ تھوڑا سا سیدھا ہوا۔۔۔
بس کو ٸی آبادی نظر آ جاۓ۔۔۔ پھر وہاں سے رابطہ کریں گے۔۔ مشہود کے ساتھ۔۔۔
دانین نے دھیرے سے سر اثبات میں ہلا دیا تھا۔۔۔ دل زرداد کی تکلیف سے گھبرایا ہوا تھا۔۔۔
میں پیچھے لیٹتا ہوں کچھ دیر۔۔۔ زرداد پچھلی سیٹ پر چلا گیا تھا۔۔۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤
زرداد شاٸید پھر غنودگی میں چلا گیا تھا۔۔۔ اور دانین کا دل خوف سے کانپ رہا تھا۔۔۔ گاڑی کی لاٸٹ بھی بند تھی۔۔۔ رات ہونے سے گھپ اندھیرا ہو گیا تھا۔۔۔
دل کانپنے لگا تھا۔۔ اس نے خوف سے اپنے پپڑی جمے ہونٹوں پر زبان پھیری تھی۔۔۔
زری۔۔۔ زری۔۔۔ گھٹی سی آواز میں اس نے پیچھے مڑ کے زرداد کو آواز دی تھی۔۔۔

anusinha
 

زرداد کے سینے سے لگی وہ بری طرح رو رہی تھی۔۔۔ چہرے کو بلکل زرداد کے سینے میں چھپا رکھا تھا۔۔۔۔
زرداد کےلب۔۔۔ اس حالت میں بھی مسکرا دۓ تھے۔۔۔ وہ حیرانی سے دانین کےیہ مہربانی دیکھ رہا تھا۔۔۔ ایسے ساتھ چمٹی ہوٸی تھی۔۔۔
زندہ ہوں دانین۔۔اس کے بالوں میں دھیرے سے ہاتھ سر سے لے کرکمر تک پھیرتے ہوۓ زرداد نےسرگوشی ۔۔ کی۔۔۔
وہ اور اونچا رونے لگے تھی اس بات پر۔۔۔ جسم اور تیزی سےہلنے لگا تھا۔۔۔ زرداد کے خشک ہوتے ہونٹوں پر جاندار مسکراہٹ آ گٸ تھی۔۔
اس نے دانین کے کانپتے وجود کو دونوں بازوٶں میں زور سے بند کر کے۔۔ جکڑ لیا تھا۔۔۔ جبکے ہونٹ بار بار اس کے سر کی مانگ پر مرہم رکھ رہے تھے۔۔۔
ایسا کرنے سے اس کی کندھے کی تکلیف اور بڑھ گٸی تھی۔۔۔ لیکن اس تکلیف کی زرداد کو کوٸی پرواہ نہیں تھی۔۔۔ دانین کے کانپتے جسم کو جیسے سکون مل گیا تھا۔۔۔

anusinha
 

2nd last.
ابا۔۔۔ شازر کی گھٹی سی آواز پر ہارون نے جھکا ہوا سر اوپراٹھایا۔۔۔
سارا چہرہ آنسو سے تر تھا۔۔۔ انکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔۔۔
ابا آپ کچھ دیر لیٹ جاٸی رات بہت ہو گٸ ہے ۔۔۔ صبح سے بیٹھے ہیں۔۔۔ تھک جاٸیں گے ۔۔ شازر ان کے قریب آ کر بولا۔۔۔
پتہ نہیں۔۔۔ میرا بچہ۔۔۔ کس حال میں ہو گا۔۔۔ وہ شازر کے گلے لگ کر بری طرح رو دۓ تھے۔۔۔
سکندر بھی پاس بیٹھے ۔۔۔ رونے لگے تھے۔۔۔۔
شازر میرا بچہ لا دو مجھے۔۔۔ میں اسے سینے سے لگا لوں۔۔۔ وہ تڑپ تڑپ کر کہہ رہے تھے۔۔۔
سب گھر والے ان کے ساتھ مل کر رو رہے تھے۔۔۔
گھر میں اتنے افراد تھے۔۔۔ پر سب لوگ خاموش تھے۔۔۔ قبرستان جیسی خاموشی۔۔۔
❤❤❤❤❤❤❤

anusinha
 

آنسو۔۔ زرداد کے ماتھے کو گیلا کر رہے تھے۔۔۔
دانین نے جلدی سے زرداد کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔۔۔
دھیرے سے اسکے ہاتھ کو مسل رہی تھی۔۔۔ اور کبھی اسکے ہاتھوں کو اٹھا کر اپنے ہونٹوں اور گالوں کو لگا رہی تھی۔۔۔
مر جاٶں گا تو کرو گی کیا اعتبار۔۔۔ زرداد کی آواز ذہن میں گونجی تھی۔۔۔
اس کے آنسو اور تیزی سے بہنے لگے تھے۔۔۔ زری ۔۔۔ پلیز۔۔ زری ۔۔ اٹھو نا۔۔۔ زری۔۔۔ وہ اب بری طرح رو رہی تھی۔۔۔
پھر جلدی سے پانی کی بوتل اٹھا کر اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے۔۔۔
زرداد نےدھیرے سے آنکھیں کھولی تھیں۔۔
دانین کا دھندلہ سا چہرہ اس کی آنکھوں کے آگے لہرا گیا تھا۔۔۔
کندھے کی تکلیف اب پہلے سے کچھ کم تھی۔۔۔
زرداد نے اپنے خشک ہوتے ہونٹوں پر زبان پھیری۔۔۔ دانین تڑپ کے اس کٕےسینے پر ڈھیر تھی۔۔۔ بری طرح رو رہی تھی پورا جسم ہل رہاتھا

anusinha
 

پھر گرم چاقو۔۔۔ زرداد کےزخم پر رکھ دیا۔۔۔ زرداد بے ہوشی کے عالم بھی تڑپ کے اچھلا تھا۔۔۔دانین نے جلدی سے اسے اپنے سینے سے لگا لیا تھا۔۔۔ گرم چاقو ابھی بھی اس کی زخم والی جگہ پر تھا۔۔ وہ اسکو زور سے اپنے سینے کے ساتھ بھینچے ہوٸی تھی۔۔۔ آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے۔۔۔ اور جسم ہچکیوں سے آہستہ آہستہ ہل رہا تھا۔۔۔
پھر دھیرے سے پیچھے ہوٸی تو۔۔۔ اسکے اپنے سارے کپڑے بھی۔۔ خون میں لتھ پتھ تھے۔۔۔
اپنے دوپٹے سے اسکے بازو کو زور سے باندھا تھا۔۔۔
زرداد بے ہوش ہو چکا تھا۔۔۔
زری زری۔۔۔ وہ آہستہ سے اس کے گال تھپ تھپا رہی تھی۔۔۔
زری۔۔۔
پھر اس کی طرف کی سیٹ کو ہینڈل کھینچ کے نیچے کر دیا تھا۔۔۔
وہ بےسدھ پڑا تھا۔۔۔
دانین کبھی اس کے بالوں میں ہاتھ پھیر رہی تھی۔۔۔ اور کبھی اس کے ماتھے پر اپنے ہونٹوں کا مرہم رکھ رہی تھی۔۔۔

anusinha
 

زرداد کی آنکھیں بند ہوتی جا رہی تھی۔۔۔ اسے اب کوٸی ہوش نہیں تھا وہ اس کے ساتھ کیا کیا کر رہی ہے۔۔۔ دانین نے جلدی سی شرٹ اتار کر کندھے کے زخم کو دیکھا۔۔۔ زخم گہرا تھا۔۔۔۔ لیکن دانین کو یہ ڈر تھا۔۔ کہ گولی کہیں اندر نا ہو۔۔۔ درختوں کے اردگرد ہونے کی وجہ سے۔۔۔ اندھیرا سا تھا۔۔۔ اس نے گاڑی کی لاٸٹ کو جلایا۔۔۔
اب ادھر ادھر دیکھا۔۔ گاڑی کی ہیچھے سیٹ پر پانی کی بوتل پڑی تھی۔۔۔جلدی سے ۔۔ پانی اٹھایا ۔۔۔ اور زرداد کی شرٹ کو گیلا کر کے۔۔ اس کے کندھے کو ہلکے سےصاف کیا۔۔ گولی بس چھو کر گزری تھی۔۔۔ اندر نہیں تھی۔۔۔ دانین اب پھر سے ڈیش بورڈ میں لگے ڈرا کو چھان رہی تھی۔۔۔ وہاں چاقو۔۔ ایک ریوالور پڑا تھا۔۔۔
اب چاقو ہاتھ میں پکڑے وہ سوچ رہی تھی۔۔ کہ اچانک کچھ خیال آنے پہ۔۔۔ زرداد کی پینٹ کی جیبیں دیکھی۔۔۔ ایک طرف سے لاٸٹر کو نکالا اور چاقو کو گرم کیا۔

anusinha
 

زرداد اب صرف گاڑی کو دوڑانے میں مصروف تھا۔۔۔
زرداد تکلیف کو برداشت کرتا ہوا مسلسل گاڑی چلا رہا تھا۔۔۔ عجیب ہی جگہ تھی ارد گرد درخت ہی درخت تھے درمیان میں وہ سنسان سڑک تھی۔۔۔ جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔۔۔ زرداد کی برداشت اب ختم ہو رہی تھی۔۔۔
اس نے گاڑی سڑک سےنیچے اتار کر ایک طرف درختوں کے درمیان میں دوڑا دی تھی۔
تھوڑی دور جا کر اس نے گاڑی روک دی تھی۔۔۔
اور سیٹ کی پشت ے سر ٹکا دیا تھا۔۔۔ تکلیف سے ۔۔ آنکھیں بند ہوتی جا رہی تھی۔۔ لیکن منہ سے آہ تک نہیں نکلی تھی۔۔۔ بس زرد پڑتی رنگت۔۔۔ اور بھینچے ہوۓ ہونٹ اسکی تکلیفکی گواہ تھیں۔۔۔
دانین کو جیسے ایک دم سے ہوش آیا تھا۔۔۔ فوراََ سیدھی ہو کر۔۔ اب اس کی ہڈ اتار رہی تھی ہڈ اتار کر ایک طرف پھینکی۔ساری شرٹ خون سے لتھ پتھ تھی۔۔۔ وہ ہچکیوں کے ساتھ رو رہی تھی۔۔۔ اب اس کی شرٹ اتار رہی تھی۔۔۔

anusinha
 

۔۔۔ سپیڈ اتنی زیادہ تھی کہہ دانین نےلڑھک رہی تھی۔۔۔
دانین اس کی طرف دیکھے جا رہی تھی اور روۓ جا رہی تھی۔۔۔ لیکن اب آنسو بے آواز تھے۔۔۔ زرداد نے تکلیف کو برداشت کرنے سی لب زور سے ایک دوسرے سے پیوست کر رکھے تھے۔۔۔ جبڑے اتنے زور سے جکڑے ہوۓ تھے۔۔۔ کہ رگیں باہر کی ابھری ہوٸی تھیں۔۔۔
زرداد کے جسم کے مختلف حصوں سے ۔ نکلتا خون دانین کو تکلیف دے رہا تھا۔۔۔ اسے ایک کھروچ تک نہیں لگنے دی تھی زرداد نے۔۔۔ یہ ساری مشکل میں پڑنے کی زمہ دار بھی وہ خود کو ہی سمجھ رہی تھی۔۔۔
کہا۔۔ نہ۔میری بیوی کو ہاتھ مت لگانا۔۔۔ زرداد کی دھاڑ اس کی ذہن میں گونجی تھی۔۔۔
اب ہوش میں آنے کے بعد اس کے ذہن میں بار بار زرداد کے کہے ہوۓ الفاظ گونج رہے تھے۔۔۔
نہ میں۔۔۔ یوں ۔۔ اکیلی۔۔۔ باہر آتی۔۔۔ نہ ایسا ہوتا۔۔۔ وہ ہچکی کے ساتھ رو رہی تھی۔۔

anusinha
 

کچھ بھی بولا نہیں جا رہا تھا۔۔۔
دانین دانین چلو یہاں سے۔۔۔ سن رہی ہو مجھے چلو یہاں سے۔۔۔ زرداد نے پیار سے اسے خود سے الگ کیا۔۔۔ اس کے چہرے کو اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر اوپر اٹھایا۔۔۔ وہ بری طرح خوف زدہ تھی۔۔۔
کچھ نہیں ہوا۔۔۔ کچھ نہیں ہوا۔۔۔ ہوش میں آو اب۔۔۔ چلو۔۔ یہاں سے نکلنا ہے ہمیں۔۔۔ وہ اس کے ساکت جسم کو ہلا رہا تھا۔۔۔
پھر ایک دم سے مڑا۔۔ اور ان دونوں لڑکوں کی جیبوں میں ہاتھ ڈال ڈال کر موباٸل۔۔۔ گاڑی کی چابی نکال چکا تھا۔۔۔
ہاتھ سے گھسیٹتا ہوا دانین کو باہر لے کر آیا۔۔۔ عجیب ہی کوٸی ویران سی جگہ تھی۔ جیسے کوٸی جنگل سا ہوتا۔۔۔ ۔۔زرداد نے وہاں کھڑی گاڑی کا دروازہ کھول کر اس کی فرنٹ سیٹ پر دانین کو بیٹھایا۔۔۔جلدی سے چابی لگاٸی اور گاڑی سٹارٹ کی۔۔۔۔۔ اور تیزی سے بنا کچھ جانے وہ ایک طرف گاڑی کو بڑھا چکا تھا۔۔۔

anusinha
 

مکے کے ساتھ بازو کے ساتھ بندھی ہوٸی لکڑی ان کا منہ چھیلتی ہوٸی جا رہی تھی۔۔۔
دونوں ڈھیر تھے۔ سناٸی نہیں دیا تھا کہ۔۔۔ میری بیوی کو ہاتھ نہ لگانا۔۔۔ زرداد چیخ رہا تھا۔۔۔
پھر ایک دم سے اٹھا تھا۔۔۔ جلدی سے اپنے بازو۔۔ کھولے۔۔۔ کرسی کے بازو ایک طرف پھینکے۔۔۔
ایک طرف پڑے ریوالر اور اس کے پاس پڑے دانین کے دوپٹے کو اٹھایا۔۔ریوالور کو۔۔۔ اپنی پینٹ کی جیب میں رکھا۔۔ منہ سے ناک سے اور کندھے سے خون میں بری طرح لتھ پتھ تھا وہ۔۔۔
دانین کےپاس آ کر اس کے بازو پیچھے کھولے منہ کی پٹی جیسے ہی کھلی دانین کوایک دم سے کھانسی آ گٸ تھی۔۔۔ مٹی سے سارے کپڑے اٹے ہوۓ تھے۔۔۔ بال بری طرح بکھرے ہوۓ تھے۔۔۔ آنکھیں سرخ تھی ۔۔۔ جسم خوف سے کانپ رہا تھا۔۔۔ آواز چیخ چیخ کر بند سی ہو گٸ تھی۔۔۔
وہ تڑپ کٕر زرداد کے سینے سے جا لگی تھی۔۔۔ اور پورا جسم کانپ رہا تھا۔

anusinha
 

۔۔۔ چہرہ تکلیف سے ایک دم زرد پڑا۔۔۔ لیکن حواس کو قابو میں رکھتے ہوۓ اس نے بنا کسی تاخیر کے ایک ہی لمحے کے اندر اندر دوسرے آدمی کے ریوالور تانے ہوٸی بازو کو اپنی ٹانگ کچھ اس طرح سے گھما کر ماری کہ ریوالور۔۔ اچھالتا ہوا ایک طرف گرا تھا۔
دونوں ایک جست میں زراد پر جھپٹ پڑے تھے۔۔ دانین کا دل خوف سے پھٹنے کی حد تک آ گیا تھا۔۔۔ لیکن وہ دونوں زرداد کے آگے زیادہ دیر ٹک نہیں سکے تھے۔۔۔ پل بھر میں ہی اس کو باندھ کر مارنے والے دونوں۔۔ اس کے ہاتھ کھل جانے پر اس کے فولادی جسم کے آگے اپنے مریل سے کالے جسموں کو ٹکا نہیں سکے تھے۔۔ وہ جو بچپن سے ہی اپنے سے بڑے لڑکوں کو ڈھیر کر دیتا تھا اس کے لیے یہ دونوں کچھ بھی نہیں تھے بس اس کے ہاتھ کھلنےکی دیر تھی۔۔۔ وہ بار بار ان کے منہ پر مکے جڑ رہا تھا۔۔۔

anusinha
 

۔۔۔ سارا کمرہ اس کی دھاڑ پر گونج اٹھا تھا۔۔۔
ان میں سے ایک نے دانین کے گلے میں جھولتا دوپٹہ اتار کر ایک طرف پھینک دیا تھا۔۔۔ دانین کا پورا جسم کانپ رہا تھا۔۔۔
اور پھٹی ہوٸی انکھیں۔۔۔ زرداد پر مرکوز تھی۔۔۔
جسے ہی ان میں سے ایک نے دوپٹہ پھینکا زرداد کی جاندار چیخ سے پورا کمرہ ہل گیا تھا۔۔۔ کرسی کے دونوں بازو اپنے کیل سمیت ۔۔ علیحدہ ہو گۓ تھے۔۔۔
زرداد کرسی کے بازو سمیت اس کی طرف بڑھا تھا جو بلکل دانین کے پیچھے اس کے بال پکڑے کھڑا تھا۔۔
ایک نے اسی وقت۔۔۔ پینٹ کی جیب سے ریوالور نکالا تھا۔۔۔ جب زرداد دانین کو ایک طرف کر کے ایک آدمی پر جھپٹا تو اتنی دیر میں دوسرا زرداد پر فاٸر کر چکا تھا۔۔۔
جاری ہے

anusinha
 

دانین مسلسل روۓ جا رہی تھی۔۔ اس کی آواز بھی بیٹھ گٸ تھی۔۔۔
اسکو چپ کروا مار اسے ایک ۔۔۔ ان میں سے ایک نے دانین کی طرف اشارہ کر کے دوسرے کو کہا۔۔۔
خبردار اگر میری بیوی کو کسی نے ہاتھ لگایا تو۔۔۔ زرداد نے غرانے کے انداز میں کہا۔۔۔ منہ اور ناک سے خون نکل رہا تھا۔۔۔
دونوں اب ایک دوسرے کی مکرہ شکلیں دیکھ کر ہنسنے لگے۔۔۔
اچھا ۔۔۔ تیری بیوی کو ہاتھ نا لگاٸیں۔۔۔ ۔۔
ایک شرط پہ۔۔۔ بول ویڈیو میں۔۔۔ پاکستان مردہ باد۔۔۔ وہ زرداد کے اوپر جھک کر اس کے کان میں بولا۔۔۔
زرداد چپ رہا ۔۔۔ اس کے بازو ابھی بھی کرسی کے ہینڈل کو اکھیڑنے کی کوشش کر رہے تھے۔۔۔
اب ان میں سے ایک دانین کو بالوں سے پکڑتا ہوا گھسیٹ کرزرداد کے سامنے لے آیا تھا۔۔۔
میری بیوی کو ہاتھ نا لگانا۔۔۔ زرداد دھاڑنے کے انداز میں بولا۔۔۔ سارا کمرہ اس کی دھاڑ پر گونج اٹھا تھا۔۔۔

anusinha
 

زرداد کا چہرہ ایک طرف ڈھے سا گیا تھا۔۔۔
دانین مسلسل روۓ جا رہی تھی۔۔۔ آنکھیں آنسوٶں سے تر تھیں۔۔۔ منہ سے کپڑا بندھے ہونے کی وجہ سے پانی نکل رہا تھا۔۔۔
اوۓ پوچھ ۔۔۔ کیتار سے ۔۔۔ پہنچا نہیں ابھی تک۔۔۔ ان میں سے ایک نے دوسرے کو کہا وہ اپنی جیب سے موباٸل نکالتا ہوا کمرے سے باہر چلا گیا تھا۔۔۔ دوسرا اب اپنے موباٸل سے زرداد کی ویڈیو بنا رہا تھا۔۔۔ ویڈیو بناتے ہوۓ بار بار وہ آ کر زرداد کے منہ پر تھپڑ اور مکے مار رہا تھا۔۔۔ بول پاکستان مردہ باد۔۔۔ اب وہ کیمرے سے ویڈیو بنا رہا تھا۔۔۔
بول۔۔۔ اس نے پھر سے بال پکڑ کر پیچھے کیے۔۔۔
پاکستان زندہ باد۔۔۔
پھر سے زور کی ٹانگ پڑی تھی۔۔۔ کرسی لڑکھڑاتی ہوٸی زرداد سمیت نیچے گری تھی۔۔۔
وہ آ رہا ہے۔۔۔ کہہ رہا ۔۔ آ کر ختم کرتا اسے ۔۔۔ باہر جانے والا آدمی اب آ کر اندر والے سے کہہ رہا تھا۔۔۔