۔۔۔ وہ کوٸی انتہاٸی بدتمیز لڑکی تھی۔۔۔
پتا ہے یہ کون ہے۔۔۔ دانین سکندر۔۔۔ فرسٹ پوزیشن لی ہے اس نے بورڈ میں۔۔۔ نرمل نے فخر سے فری کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا۔۔۔
اور اس میڈیکل کالج میں ۔۔۔ پہلی سیٹ پہ بیٹھنا اس کا حق ہے سمجھی تم۔۔۔ نرمل بھی ترکی با ترکی جواب دے رہی تھی۔۔۔
چلو ہٹو اب ۔۔۔ تم لوگوں سے اب پرنسپل آفس میں ہی بات ہوگی۔۔۔
وہ تیزی سے دانین کا ہاتھ پکڑے اسے پرنسپل آفس لے جا رہی تھی۔۔۔
اس کا میڈیکل کالج میں ایڈمیشن ہو گیا تھا۔۔۔لیکن جس دن سے وہ آ رہی تھی ۔۔ یہ پانچ لڑکیوں کا گروپ اسے مسلسل تنگ کر رہا تھا۔۔ وہ خاموشی سے صرف پڑھنا چاہتی تھی۔۔۔
لکین آج نرمل نے فرشتہ بن کر اسے بچایا تھا۔۔۔
وہ مشکور شکل بنا کر اپنے ساتھ چلتی اس لڑکی کو دیکھ رہی تھی۔۔۔
❤❤❤❤❤
جاری ہے
الطاف نے چاۓ کا کپ ہونٹوں سے ہٹاتے ہوۓ کہا۔۔۔
اچھا چلو پھر ہم چلتے ہیں ۔۔ کوٸی اور مطلب کہیں اور ضرورت ہوٸی تو بتانا۔۔۔
اظہر نے اس سے ہاتھ ملایا۔۔۔
تھوڑا سا دور بیٹھا تھا وہ لیکن ساری گفتگو۔۔۔ باآسانی سن سکتا تھا۔۔۔
چہرہ ضبط سے سرخ ہو رہا تھا۔۔۔
💔💔💔💔
کیا مسٸلہ ہے ۔۔۔۔ پیچھے ہٹو۔۔۔ نرمل ۔۔ ان لڑکیوں کو ہٹاتے ہوۓ آگے بڑھی۔۔۔ اور سامنے کرسی پر پریشان س بیٹھی ۔۔ دانین کا ہاتھ پکڑ کر اسے اٹھایا۔۔۔
کیا مسٸلہ ہے تم سب کے ساتھ۔۔۔ میں اور یہ لڑکی ہم جا رہے ہیں پرنسپل آفس میں کمپلین کرنے۔۔۔
میں ایک ہفتے سے دیکھ رہی ہوں ۔۔۔ تم لوگ اس لڑکی کو بلا وجہ تنگ کرتی ہو۔۔۔ نرمل نے دھمکی کے انداز میں ان سب کو انگلی دیکھاٸی ۔۔
آرام سے ۔۔۔ فری آگے ہوٸی۔۔۔ یہ ہماری جگہ ہے جس پہ یہ بیٹھی ہے اسکو ہم نے اس دن بھی کہا تھا۔۔۔ کہ یہاں کوٸی نہیں بیٹھے گا۔
سوچتے ہیں ۔۔ لکھتے ہیں کچھ ایسا۔۔۔ وہ مسکرا رہا تھا۔۔۔
چلو اب اٹھو۔۔۔ اس نے کار کی چابیاں اٹھاتے ہوۓ زرداد سے کہا۔۔۔
وہ بے دلی سے اظہر کے پیچھے قدم اٹھاتا اتر گیا تھا۔۔۔
💔💔💔💔
یار میں سمجھ رہا ہوں تمھاری بات۔۔۔ پر دیکھو نا۔۔۔ دم ہے لڑکے کی آواز میں۔۔۔ لیکن سوز اور ۔۔۔ درد۔۔۔۔ سمجھ رہے ہو نہ۔۔ درد۔۔ سامنے بیٹھے الطاف نے اپنے سینے پہ ہاتھ رکھ کر کہا۔۔۔
یار وہ چاہیے مجھے۔۔۔ وہ نہیں آ رہا اس کی آواز میں۔۔۔
یار کیا بات کرتے ہوۓ۔۔۔ وِن کر کے آیا ہے۔۔۔ بیسٹ سنگر شو سے۔۔۔ اظہر نے اسے قاٸل کرنے کہ کوشش کی
اوہ بس کر یار۔۔۔ وہاں ۔۔ چار جج بیٹھے ہوتے۔۔۔ الطاف نے ہوا میں ہاتھ مارتے ہوۓ کہا۔۔۔
اور یار میں نے۔۔۔ فہد کی جگہ اسے لے کر پھنسنا ہےکیا۔۔۔ سمجھا کر نا۔۔ اسے ابھی چھوٹے موٹے پروگرامز کروا۔۔۔ ہاں۔۔ البم بنا نہ یار اس کی۔۔۔
زرداد نے بے یقینی سے دیکھا۔۔۔
دیکھو زرداد۔۔۔ یار۔۔۔ یہ جو انڈسٹری ہے نا ٹیلنٹ سے بھری پڑی ہے۔۔۔ ہر نیا آنے والا بندہ چاہتا بس وہ ہی وہ ہو۔۔۔
لیکن یار یہاں آگے بڑھنا بہت مشکل ہے۔۔۔ ایک دم سے کچھ نہیں ہو سکتا۔۔۔ تمہیں اپنی پہچان بنانی ہے پہلے یہاں۔۔۔ اظہر کو اس کی اتری شکل دیکھ کر پتا چل گیا تھا۔۔ کہ وہ ٹاک شو والی بات سے اتنا خوش نہیں ہوا۔۔۔
اچھا چلو ابھی تو ۔۔۔ کوک سٹوڈیو چلتے ہیں ۔۔۔ ایک نیا گانا بنانے لگے ہیں وہ لوگ میں نے تمھاری بات کی ہے ۔۔۔ ان سے ۔۔ آڈیشن کے لیے بلایا ہے ان لوگوں نے۔۔۔ اظہر نے کورٹ پہنتے ہوۓ اسے کہا۔۔۔
جبکہ وہ بے دلی سے گھومتی کرسی کی پر نظر جماۓ بیٹھا تھا۔۔۔
میں ہوں نا تمھارے ساتھ۔۔ اظہر نے اس کے قریب آ کر اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا تھا۔۔۔ اپنے اگلے گانے میں ۔۔ میں تمھارے ساتھ کو میں کام کروں گا ۔۔۔
دانین نے چیخنے کے سے انداز میں کہا۔۔۔
وہ ایک دم چپ ہوا تھا۔۔۔ چہرہ تھوڑا سخت ہوا۔۔۔ اور تیزی سے دروازہ پوارا کھول کر دیوار میں مارتا ہوا وہ وہاں سے چلا گیا۔۔۔
❤❤💔💔💔💔
تو کوٸی بات نہیں۔۔۔ البم کو ابھی چھوڑ دیتے ہیں۔۔۔ تم چھوٹے موٹے ۔۔ کام پکڑو ذرا۔۔ اظہر نے کرسی کو داٸیں باٸیں گھماتے ہوۓ ۔۔۔ سامنے پڑی میز پر ہاتھ رکھ کے کہا۔۔۔
زرداد پریشان سی شکل بناۓ اس کے سامنے بیٹھا ہوا تھا۔۔۔
ہارون نے اسے ایک بھی پیسہ دینے سےمنع کر دیا تھا۔۔۔ اور سکندر کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں تھا۔۔۔ انھوں نے بہت کوشش کہ وہ کچھ نا کچھ کر دیں لیکن اتنے پیسوں کا انتظام اکھٹے کرنا ممکن نہیں تھا۔۔۔
دیکھو ایک ٹاک شو کے لیے میں نے تمھاری بات کی ہے۔۔۔ وہاں انھیں ایک سنگر کی ضرورت ہے۔۔۔ اظہر نے ۔۔۔ اپنی تھوڑی پہ انگلیاں پھیرتے ہوۓ زرداد کو کہا۔۔
میں تم سے بات کیا تمھاری شکل بھی دیکھنا پسند نہیں کرتی۔۔۔ دانین کی سانس اب ضبط کرتے کرتے تیز ہو گٸی تھی۔۔۔ ناک پھولی ہوٸی تھی۔۔۔ اور آواز غصے اور رونے کے ملے جلے تاثر سے کانپ رہی تھی۔۔۔
دانی میں بہت شرمندہ ہوں ۔۔ یار۔۔۔ زرداد نے دھیرے سے اس کی کلاٸی کو چھوڑا تھا۔۔۔ جسے اب وہ سہلا رہی تھی۔۔۔ اتنے فولاد جیسے ہاتھ تھے۔۔۔ اس کے۔۔۔
پہلی بات تو یہ۔۔۔۔ میں۔۔۔۔۔۔ تمہاری۔۔۔۔ یار ۔۔۔ نہیں ۔۔۔ سنا تم نے
دوبارہ میرے لیے یہ الفاظ ۔ ہر گز استعمال نہ کرنا۔
دانین نے انگشت انگلی اس کی آنکھوں کے سمنے لہرا کر اسے خبردارکیا۔۔۔۔۔۔۔ دوسرا رہوتم شرمندہ۔۔۔ میری بلا سے۔۔۔ میں تمھاری شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی۔۔۔ نکلو ابھی اور اسی وقت میرے کمر سے۔۔۔ دانین نے سخت شکل بناتے ہوۓ کہا۔۔۔
پلیز۔۔ دانی۔۔۔وہ تھوڑا سا بولا تھا۔۔۔
نکلو۔۔۔۔۔ باہر۔۔۔۔
اچھا میں جا رہی ہوں پڑھنا ہے۔۔ مجھے۔۔۔ دانین نے بے زاری سے کتابیں اٹھاٸی۔۔۔ اور منال کو دیکھے بنا آگے چل دی۔۔۔
منال نے عجیب سا منہ بنایا۔۔۔ وہ ابھی اس کے ساتھ اور گپیں لگانا چاہتی تھی پر دانین نے کوٸی ساتھ نا دیا۔۔۔
جیسے ہی اپنے کمرے میں قدم رکھا ۔۔ ایک دم رکی تھی۔۔۔ وہ اس کے کمرے میں دروازے کے بلکل پاس ہی کھڑا تھا۔۔۔ ایسے جیسے اسی کا انتظار کرر رہا تھا۔۔۔
دانین کا رنگ سرخ ہو گیا تھا۔۔۔ تیزی سے پلٹنے لگی تو زرداد نے اس کی کلاٸی پکڑ لی تھی۔۔۔
پلیز میری بات سنو۔۔۔ التجا والا انداز تھا۔۔۔
چھوڑو مجھے۔۔۔ دانین نے خونخوار نظروں سے زرداد کی طرف دیکھا۔۔۔
پہلے میری بات تو سن لو۔۔۔ اس نے دانین کو کھینچ کے کمرے کے اندر کیا اور دروازہ بند کر دیا۔۔۔
کیا بدتمیزی ہے یہ۔۔۔ چھوڑو مجھے۔۔۔ اور اسی وقت نکلو میرے کمرے سے۔۔۔
اچھا چلو کوٸی بات نا کرنا پر چلو تو سہی ۔۔۔ آٹو کیوں کروا رہی ہو۔۔۔ زرداد نے کار کی طرف اشارہ کیا۔۔۔
نہیں ۔۔ مجھے نہیں جانا تمھارے ساتھ تمہیں بات کیوں نہیں سمجھ آتی۔۔۔ دانین کی آواز اونچی ہو گٸی تھی لہجہ تھوڑا سخت ہو گیا لیکن آواز میں ہلکی سی کپکپاہٹ بھی تھی۔۔
اوۓ۔۔۔ اوۓ۔۔ کیوں تنگ کر رہا ابے بچی کو۔۔۔ رکشہ والے نے منہ باہر نکال کر کہا۔۔۔ منہ سے پان کے چھینٹے باہر کو نکل پڑے۔۔۔ جس کو اس نے اپنے گلے پر لٹکتے کپڑے سے صاف کیا اور خونخوار نظروں سے زرداد کی طرف دیکھا۔۔
دانین تیزی سے رکشے میں بیٹھی تھی۔۔۔ چلیں بھاٸی۔۔۔ اس نے اپنی پھولی سانسوں کو بحال کرتے ہوۓ کہا۔۔۔
رکشہ دھول اڑتا ہوا پاس سے گزر گیا۔۔۔
زرداد نے زور سے کک کی شکل میں زمین پہ پاوں مارا۔۔۔ اور مٹی اڑ کر اسی کے جوتے گندے کر گٸی تھی۔۔
💔💔💔💔
دانین۔۔۔۔ دانین۔۔۔ ایک منٹ کہاں جا رہی ہو۔۔۔
اس کے لہجے میں التجا اور شرمندگی کا گھلا ملا عنصر تھا۔۔۔ کار ادھر کھڑی ہے۔۔۔ وہ اسکے تیز تیز چلتے قدموں کے ساتھ قدم ملاتا ہوا اسے کہہ رہا تھا۔۔۔
میری بات تو سنو۔۔۔ ایک منٹ۔۔۔ کار میں بیٹھو۔۔۔ وہ اسکے بلکل سامنے آ گیا تھا۔۔۔
دانین ایک دم سے رکی تھی۔۔ دل کیا اس کی اس حرکت پہ آج پھر اس کے مکروہ چہرے پہ ایک چماٹ جڑ دے۔۔۔
دانین نے منہ کا رخ دوسری طرف کیا اور پاس کھڑے رکشے کو ہاتھ سے اشارہ کیا۔۔۔
دانین یہ کیا بیوقوفی ہے میں لینے آیا ہوں نا۔۔۔زرداد نے دانین کو بازو سے پکڑ کر اس کا رخ اپنی طرف کیا۔۔ وہ کرنٹ کھا کر پیچھے ہوٸی۔۔۔
خبرداد۔۔۔ اگر مجھے ہاتھ بھی لگایا تو۔۔۔ میں خود جا سکتی ہوں۔۔۔ اور کوٸی ضرورت نہیں ۔۔ مجھے یوں لینے آنے کی۔۔۔ دانین نے حقارت سے دیکھتے ہوۓ سختی سے کہا۔۔۔
ہارون چاہتے تھے وہ چلا جاۓ وہ اس کو ہر گز نہیں برداشت کر سکتے تھے یہاں۔۔وہ اونچا اونچا بول رہے تھے۔۔۔۔۔
سکندر ان کو رام کر رہے تھے۔۔۔ وہ بی اے کے پپپر دینے آیا تھا۔۔ ۔
اظہر نے اسے کہا تھا اپنی تعلیم مت چھوڑو۔۔۔ امتحان کے بعد جا کر اس نے اظہر کی مدد سے ایک البم بنانے کے بارے میں سوچا تھا۔۔۔ لیکن اس کے لیے اسے پہلے کچھ بجٹ کی ضرورت تھی ۔۔ جس کے لیے ہارون بلکل راضی نہیں تھے۔۔۔
جلتی سگریٹ اس کی انگلیاں جلا گٸی تھی۔۔۔ وہ کان لگا کر نیچے ہونے والی کفتگو سننے میں اتنا مگن تھا۔۔۔
سی۔۔۔۔ی۔۔۔ی۔۔۔ جلن کی تکلیف سے منہ سے آہ نکلی۔۔۔ جلدی سے اس نے سگریٹ گرا کر انگلیوں کو اپنے منہ میں رکھ لیا تھا۔۔۔
💔💔💔💔💔
کالج کے گیٹ کے باہر اسے دیکھ کر دانین کا خون تک جل کے رہ گیا تھا۔۔۔
ماتھے پہ سو بل ڈالے وہ پاس سے گزرنے لگی تو زرداد نے آواز دی۔۔
اشعال کے پوچھنے پہ سکندر نے ۔۔ دانین کے بیمار ہونے کا سارا قصہ سنا ڈالا تھا۔۔۔ وہ پاس بیٹھا تھا۔۔۔
اس کو نیچا دکھانے کے لیے میں نے جو بھی کیا وہ بہت غلط تھا۔۔۔ زرداد نے دونوں ہاتھوں کا تکیا بنا کر سر کے نیچے رکھا۔۔۔
وہ تو اس کی شکل بھی دیکھنا گوارا نہیں کر رہی تھی۔۔۔ تو وہ اس سے معافی کیسے مانگے۔۔۔ اور کیا الفاظ ہوں جن کو وہ ادا کرے۔۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔۔۔
فون بجنا شروع ہو گیا۔۔۔ تھا۔۔ فون سکرین پہ منسا کا نام دمک رہا تھا۔۔۔
بنا دیکھے ہی اسے پتہ تھا کون ہوگا۔۔۔ پر بات کرنے کو بلکل دل نہیں تھا۔۔۔
وہ فون بجتا چھوڑ کے باہر آ گیا تھا۔۔۔
چاند پوری آب وتاب سے چمک رہا تھا۔۔۔ اس نے سگریٹ سلگا لی تھی۔۔۔ اندھیرے میں ایک دم سے روشنی ہوٸی اور پھر ختم ہوگٸی۔۔
نیچے سے سکندر اور ہارون کی آوازیں آ رہی تھیں۔۔۔
پر دانین کو ۔۔۔ سدرہ نے نہیں بتایا تھا۔۔۔ وہ دانین اور زرداد کے حوالے سے اپنے دل میں بہت ساری باتیں سوچ بیٹھی تھیں۔۔۔
پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے۔۔۔ مخصوص انداز میں بازو فولڈ کیے ہوۓ۔۔۔ شرٹ کے بٹن کھلے۔ تھے۔ پر ہونٹوں پہ وہ مسکراہٹ نہیں تھی۔۔۔اور نا آنکھوں میں وہ چمک تھی۔۔۔
دانین اس دن کے بعد آج اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔ جس کی بربادی کی دعاٸیں وہ دن رات کرتی تھی وہ تو اور نکھر کر سامنے کھڑا تھا۔۔۔
دل کو جیسے مٹھی میں جکڑ لیا ہو کسی نے اسےگھٹن کا احساس ہونے لگا۔۔۔
مہنگے کپڑے۔۔۔ مہنگے جوتے۔۔۔ پر۔۔ پر۔۔۔ گندہ ۔۔ سستا ۔۔۔ کردار ۔۔ گھٹیا ۔۔ گلا سڑا ذہن ۔۔۔
دانین کا چہرہ سرخ پڑ گیا تھا اس کو دیکھ کر۔۔۔ نظروں میں حقارت تھی۔۔۔ آنکھیں سرخ ہو گٸی تھیں۔۔۔ کتاب پر اس کی گرفت مظبوط ہو گٸی تھی۔۔۔ اور دانت ایک دوسرے میں پیوست ہو گۓ تھے۔۔۔
یا شو میں اس کی اتنی تعریف نے اسکا دماغ یوں خراب کر دیا تھا۔۔۔
اور ااظہر اسے اشتہار پہ لے آیا تھے۔۔۔اس نے چونک کے اظہر کی شکل کو دیکھا۔۔۔
اظہر نے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔۔۔ لب بھینچ کے تسلی کے سے انداز میں سر ہلایا۔۔۔
وہ کچھ بولتے بولتے رک گیا۔۔۔
💔💔💔💔💔
دروازے پہ ہوٸی دستک۔۔ پہ اس نے گردن اوپر اٹھاٸی تھی جو پریکٹیکل نوٹ بک پر جھکی ہوٸی تھی۔۔۔ وہ ڈاٸیگرام بنانے میں اتنی مگن تھی کہ باہر کی کوٸی خبر نہیں تھی۔۔
زرداد دروازے میں کھڑا تھا۔۔۔ دانین کی نظر پہلے جوتوں پہ پڑی تھی۔۔ پھر اس سے ہوتی ہوٸی اوپر۔۔۔
اس کے پیپر بہت اچھے ہوۓ تھے۔۔۔ اب پریکٹیکل ہو رہے تھے۔۔۔
اسے کسی نے کچھ نہیں بتایا تھا کہ اشعال اور زرداد گھر آ رہے ہیں۔۔صرف وہ اور ہارون تھے جن کواس بات کا علم نہیں تھا۔۔۔
ہارون کو تو زرداد کی وجہ سے نہیں بتایا گیا تھا۔۔۔
رگیں تنی ہوٸی تھیں۔۔۔
وہ ایک دم سے باہر آیا تھا۔۔۔چہرہ سرخ ہو رہا تھا پہلی دفعہ وہ یوں ریجیکٹ ہو رہا تھا۔۔۔
پھر ڈاٸریکٹر سے بات کر کے اظہر اس کے پاس آیا۔۔۔
زرداد ایک اور بھی جگہ ہے۔۔ ۔۔۔ پر سوچ انداز میں اظہر نے کہا تھا۔۔۔
اظہر کی شکل سے صاف پتہ چل رہا تھا کہ ڈاٸرکٹر نے انکار کر دیا ہے۔۔۔ اسے عجیب سا محسوس ہوا اتنی اچھی آواز تھی اس کی۔۔۔ پورٕے پاکستان کے ٹاپ شو سے وہ جیت کر آیا تھا۔۔۔
اسے توہاتھوں ہاتھ لیا جانا چاہیے تھا۔۔۔ لیکن ایسا بلکل نہیں ہو رہا تھا۔۔۔
اس نے بڑے ضبط سے اپنی سخت ہوتی رگوں کو قابو کیا تھا۔۔۔ ہاتھوں کو ڈھیلا چھوڑا۔۔۔ اور اپنے جزبات کو قابو کیا جو ہر چیز کو تحس نحس کردینا چاہتے تھے۔۔۔
ایک اشتہار کے لیے پلے بیک سنگنگ کرنی ہے۔۔۔ اظہر نے رک رک کر کہا۔۔۔ کیونکہ وہ ایک دم سے بہت اونچے خواب دیکھ رہا تھا۔۔
ششیے کے بنے اس کمرے میں اسے باہر بیٹھے سارے لوگ نظر آ رہے تھے۔۔۔
ابھی اس نے دوسرا مصرہ شروع ہی کیا تھا جب۔۔۔ کٹ کروا دیا گیا تھا۔۔۔۔
پلیز۔۔۔ طرز کو فولو کریں۔۔۔ زرداد۔۔۔ اسے بند کمرے میں آواز سناٸی دی تھی۔۔۔
ااوکے۔۔۔ اس نے مسکراتے ہوۓ۔۔۔ انگوٹھے سے یس کا اشارہ کیا تھا۔۔۔ ہیڈ فون پھر سے کان پہ چڑھاۓ ۔۔۔ خشک ہوتے ہونٹوں پہ زبان پھیری۔۔۔آنکھیں بند کر کے طرز کو فوکس کیا۔۔۔
” نا۔۔۔ جانے۔۔۔۔۔ نا۔۔۔۔ جانے۔۔۔ دل۔۔۔۔ کیا۔۔۔ ہو۔۔۔ گا۔۔۔ کیا۔۔۔ ہو گا۔۔۔ اب۔۔۔ “
اس نے اپنی طرف سے بلکل طرز کے مطابق مصرے میں جان ڈالی تھی۔۔۔ لیکن پھر سے کٹ کی آواز آٸی۔۔۔
نو۔۔ نو۔۔۔ زرداد۔۔۔ آپ ٹریک سے ہٹ رہے ہیں۔۔۔ اظہر کے ساتھ بیٹھے ڈاٸرکٹر نے اسے پھر سے گانے کو کہا۔۔۔
پر کٹ۔۔۔۔ پھر ۔۔۔ کٹ۔۔۔۔ کٹ۔۔۔ کٹ۔۔۔۔ وہ جھنجلا گیا۔۔۔ وہ غصے سے باہر آیا تھا۔۔۔
دل غلطی کر بیٹھا ہے۔۔۔
قلم ازہماوقاص۔۔
قسط نمبر6
اوہ زرداد آو۔۔ ادھر۔۔۔ اظہر نے خوش دلی سے استقبال کیا تھا اسکا۔ بیسٹ سنگر مقابلہ جیتنے کے بعد یہ اسکا پہلا پروجیکٹ تھا۔۔ جو اسے مل رہا تھا۔۔۔
اظہر حسان کی وجہ سے۔۔۔ وہ یہ سمجھتا تھا کہ جیتنے کے بعد شاٸیداسے فوراََ ہی ہاتھوں ہاتھ لیا جاۓ گا۔۔۔
لیکن ایسا نہیں ہوا تھا۔۔۔یہ انڈسٹری ۔۔۔ اس سے زیادہ تجربہ کار۔۔۔ گلوکاروں سے بھری پڑی تھی۔۔۔ اپنی جگہ بنانا اتنا آسان نہیں تھا۔۔۔
آج دو ہفتے گزرنے کے بعد اظہر نے اسے ایک ڈرامہ کے ٹاٸٹل سونگ کو پلے بیک کے طور پر گانے کے لیے بلوایا تھا۔۔۔
وہ سٹوڈیو۔۔ میں کھڑا تھا۔۔۔ اسے طرز۔۔ تکلم۔۔۔ لہجہ۔۔۔ سب بتا کر ایک کاغز پکڑا دیا گیا تھا۔۔۔
اس نے ماٸک کو اپنے منہ کے آگے سیٹ کیا تھا۔۔۔گلےکو تھوڑا سا صاف کرنے کے بعد۔۔ اس نے پہلا مصرہ شعر کا ادا کیا تھا۔۔۔
نہیں کرتے تم بات۔۔۔ سو جاتے۔۔ ہو ہمیشہ میں ۔۔ ہیلو ہیلو کرتی رہ جاتی ہوں۔۔۔ وہ ابھی بھی خفا تھی اس سے۔۔۔
نہیں۔۔۔ بے ۔۔بی۔۔ نہیں سوتا آج۔۔۔ پلیز اب تو جانے دے میری ماں۔۔۔ زرداد نے رونے کے سے انداز میں کہا۔۔۔
منسا کی کھلکھلاتی ھنسی کی آواز فو ن سے ابھری تھی۔۔
❤❤❤❤❤
جاری ہے
ٹریٹ دے رہا ۔ ہوں آج ان کو اپنی جیت کی خوشی میں۔۔۔
۔ احمد بھاٸی اور آپی کو۔۔
وہ چہک رہا تھا۔۔۔۔ گردن ٹیڑھی کر کے فون کو کان کے پاس جکڑے ہوۓ تھا۔۔ جب کے اس کے ہاتھ۔۔ شرٹ کے بٹن بند کر رہے تھے۔۔۔
تو ۔۔۔کم از کم ۔۔ اشعال آپی سے تو بات کر لو نا۔۔۔۔ منسا خفا لہجے میں بولی۔۔۔
اوکے بابا۔۔۔ کروں گا نا بات۔۔۔ اب جاٶں اجازت ہے۔۔۔ ساری رات بات کریں گے آج۔۔۔ اوکے۔۔۔ پرامس۔۔۔ اس نے بچوں کی طرح اسے لالچ دیا۔۔۔ کیونکہ اشعال بار بار اسے آوازیں دے رہی تھی۔۔۔ اس کی حالت بھی اب ایسی تھی اس سے بھوک برداشت بھی نہیں ہوتی تھی آجکل۔۔۔ دو ماہ بعد اس کی ڈیلوری تھی۔۔۔ اسی کو لے کر زرداد کو حیدر آباد جانا تھا۔۔۔
جب منسا کو یہ بتایا تو وہ پچھے پڑ گٸی تھی۔۔ کہ اس دفعہ وہ گھر بات کرے لازمی۔۔۔ تا کہ ثمرہ ۔۔ نیلم سے بات کرے اور ان لوگوں کی بات آگے بڑھے۔۔۔
دانین کا چہرہ کرب سے زرد پڑ گیا۔۔۔
منال اسے گول گول گھما رہی تھی۔۔۔۔
اور اس کے وجود کے ساتھ ساتھ اس کا دل بھی گول گول ہی گھوم گیا تھا۔۔۔
آج پھر اللہ نے اسی کا ساتھ دیا۔۔۔۔ وہ جیت گیا تھا۔۔۔ وہ جیت گیا۔۔۔ اس کا دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔۔۔
آج پھر وہ ہنس رہا ہو گا۔۔۔ چہک رہا ہوگا۔۔۔ منال باہر جا چکی تھی۔۔۔ وہ ساکت۔۔ بیٹھی تھی۔۔۔
باہر سب لوگ خوش ہو رہےتھے۔۔۔۔ ساتھ ٹی وی کا شور تھا۔۔۔
وہ بھی ایسے ہی خوش ہوگا آج۔۔۔۔ اس نے سامنے پڑی کتاب کو اٹھایا تھا۔۔۔ اور پوری قوت سامنے دیوار میں دے مارا تھا۔۔۔۔
❤❤❤❤
میں جا رہا ہوں نا۔۔۔ تو کرتا ہوں۔۔ بات بے بی۔۔۔ اچھا اب باہر آپی انتظار کر رہی ہیں۔۔۔ٹریٹ دے رہا ۔
اب وہ دھڑکتے دل کے ساتھ اپنے کمرے میں بیٹھی اس کے ہار جانے کی دعا مانگ رہی تھی۔۔۔۔
اللہ اس کو ہارا دے۔۔۔۔ اللہ اسے کو ذلت دے۔۔۔ اللہ وہ ہار جاے۔۔۔ دل بار بار یہی کلمات دہرا رہا تھا۔۔۔
وہ گا رہاتھا۔۔۔ دانین کے کانوں میں اس کی آواز پڑ رہی تھی۔۔۔
افف۔ف۔ف۔ف۔ اس نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لی تھی۔۔۔ انگلیاں اس زور سے اس نے کانوں میں ڈالی تھی کہ کان درد کرنے لگے تھے۔۔۔
کتاب سامنے کھلی پڑی تھی۔۔۔ کیمسٹری کا پیپر تھا صبح کو۔۔۔
اب اسکا گانا بند ہو چکا تھا ۔۔ دانین نے دھیرے سے انگلیاں باہر نکالی۔۔۔
اللہ دوسرا لڑکا جیت جاۓ۔۔۔ پلیز۔۔۔۔ پلیز۔۔۔
دھم سے اس کے کمرے کا دروازہ کھلا تھا۔۔۔ منال سامنے کھڑی تھی۔۔۔ اس نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔۔۔
دانی ہو گٸی دعا قبول تمھاری۔۔۔ جیت ۔۔۔۔ گۓ۔۔۔۔ بھاٸی۔۔۔۔وہ چہک کر اس کے پاس آٸی۔۔۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain