Damadam.pk
anusinha's posts | Damadam

anusinha's posts:

anusinha
 

اس بات سے انجان جس بھتیجے کے لیے یہ تالیاں پیٹ رہے ہیں وہ ان کی بیٹی کی خوشیوں کا قاتل ہے۔۔۔
جان بھوج کے شازر اور سکندر رات کو ہارون کو دکان پہ بیٹھا آتے تھے۔۔۔ تا کے شو سب مل کر بیٹھ کر دیکھ سکیں۔۔۔
جب بھی شو لگتا وہ پڑھاٸی کا بہانہ بنا کر اپنے کمرے میں آ جاتی تھی۔۔۔ اور کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتی تھی کہ اس کی آواز کانوں میں نا جاۓ۔۔۔
اس کی آواز گونج رہی تھی۔۔۔ اس نے واپس کمرے میں آ کر اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لی تھیں۔۔۔ اسے نفرت ہوتی تھی اس کی آواز سے۔۔۔
زرداد فاٸنل میں پہنچ گیا تھا۔۔۔ آج فیصلے کا شو تھا۔۔۔ اس کے پیپرز ہو رہے تھے۔۔۔
دل عجیب سی ضد لگا کر بیٹھ گیا تھا اللہ سے۔۔۔
اللہ وہ ہارجاے۔۔۔۔ پلیز اللہ وہ ہار جاۓ ۔۔۔ اس نے کل رات سے دوسرے لڑکے کو پتا نہیں کتنے ووٹ دے چھوڑے تھے۔۔۔

anusinha
 

۔ اور ایسا اب وہ روز کرنے لگی تھی۔۔۔۔
اس نے منہ پہ ہاتھ رکھ کے نیچے کیے ساتھ ہی آنسو اس کی ہتھیلیاں بھگو گۓ تھے۔۔۔
یک نیا عزم تھا۔۔ آنسو اب خشک ہو گۓ تھے۔۔ہر نماز کے بعد دل پرسکون ہونے کا سفر طٕے کرتا جاتا تھا۔۔۔
اس نے پاس پڑا فارم اٹھایا اور فِل کرنا شروع کر دیا۔۔۔
جیسے جیسے وہ فارم پر کر رہی تھی۔۔۔اسکا ارداہ اور پختہ ہوتا جا رہا تھا۔۔۔
آج زرداد کو گھر سے گۓ سات ماہ ہونے کو آۓ تھے۔۔
وہ ان سات ماہ میں ایک دفعہ بھی گھر نہیں آیا تھا۔۔۔ اچھا ہی تھا وہ نہیں آیا تھا۔۔۔ دانین اب اس کی شکل تک نہیں دیکھنا
چاہتی تھی۔۔۔
❤❤❤❤❤
وہ پڑھتے پڑھتے پانی لینے کے لیے آٸی تھی۔۔۔ لاونچ میں سب بیٹھے شو دیکھ رہے تھے۔۔۔ مسواۓ۔۔ ہارون کے۔ اور اس کے۔۔ ہارون سے چوری چھپ کے سب زرداد کا شو دیکھتے تھے۔۔ جن میں سب سے زیادہ پر جوش اس کے بابا تھے۔۔۔سکندر۔۔۔

anusinha
 

ہے۔۔۔بےبی۔۔۔۔ آٸی ۔۔ لو یو۔۔۔۔ وہ چیخ رہی تھی خوشی سے۔۔۔
لاٸیو شو پوری دنیا دیکھ رہی تھی۔۔۔
زرداد قہقہ لگا رہا تھا۔۔۔ منسا۔۔۔ بار بار اسے محبت بھرے بوسے دے رہے تھی ۔۔
❤❤💔💔
نماز کے بعد اس نے کانپتے ہوۓ ہاتھ دعا کے لیے اٹھاۓ تھے۔۔۔
میں کیوں روتی رہوں اس کے لیے۔۔۔ وہ اتنا کچھ کرنے کے بعد بھی سکون میں ہے۔۔۔ میں کیوں زندگی برباد کروں اس کے پیچھے۔۔۔۔ اللہ۔۔۔ مجھے ہمت دے۔۔۔ پلیز اللہ مجھے ہمت دے۔۔۔
گرم گرم آنسو گال بھگو رہے تھے۔۔۔
اللہ اسے ایسے ہی تڑپا کسی کے لیے۔۔۔ جیسے میں تڑپی ہوں۔۔ اس کے دل میں بھی ایسے ہی کسی کی سچی چاہت ہو اور وہ ٹھکراۓ اسے ۔۔وہ تڑپے۔۔۔ مجھے یہ دیکھنا ہے اللہ۔۔ مجھے اس کے خوبرو چہرے کے پیچھے چھپے اس مکروہ چہرے کو زلیل ہوتے دیکھنا ہے۔۔۔ اس کا دل نا جانے دکھ میں کتنی ہی بدعاٸیں دے گیا تھا زرداد کو۔۔۔

anusinha
 

زرداد اب کھل کر ہنسا تھا۔۔۔ اس نے اپنے ہونٹوں پہ زبان پھیری۔۔ اور نظر اب اگلے جج کی طرف تھی۔۔۔
ہینڈسم بواۓ ۔۔ نسوانی۔۔۔ آواز ابھری۔۔۔ ریحا۔۔۔بول رہی تھی۔۔۔
اگلی جج لڑکی تھی۔۔ بڑی محبت سے اس کی طرف دیکھا۔۔
زرداد نے ہنستے ہوۓ اپنے داٸیں پاٶں کو سٹیج کی زمین پہ داٸیں باٸیں گھمایا۔۔ نظریں اپنی تعریف پہ ایک دم نیچے ہو گٸی تھیں۔۔۔ لب مسکرا اٹھے تھے۔۔
ود بیوٹیفل واٸز۔۔۔ لو یو۔۔۔ ریہا۔۔ نے ہواٸی بوسہ اچھالا۔۔۔ زرداد کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی تھی۔۔۔ خوشی اس کے انگ انگ سے پھوٹ رہی تھی۔۔۔ چار ججز نے باری باری اسے دس نمبر دے ڈالے تھے۔۔۔
وہ ہنستا ہوا واپس ویٹنگ روم میں جا رہا تھا۔۔۔ دل خوشی سے دھک دھک کر رہا تھا۔۔۔
آج شو کا پہلا دن تھا۔۔ اور وہ دھاک بیٹھا چکا تھا۔۔۔۔
فون کی سکرین پہ منسا کا نمبر چمک رہا تھا۔۔۔ اس نے جوش میں نمبر اٹھایا تھا۔

anusinha
 

وہ باتھ روم کی دیوار کے ساتھ لگ کے پھوٹ پھوٹ کے رو دی تھی۔۔۔
💔💔💔💔
آپ تیار ہیں۔۔۔ اس کے پاس آ کر۔۔۔ کمپیر نے کہا تھا۔۔۔۔
یس۔۔۔ اس نے اپنے منہ سے زور کا سانس نکالا تھا۔۔۔
ہو۔و۔و۔و۔۔۔ اٹھ کے کھڑا ہوا۔۔۔
ایک نظر سامنے پوری دیوار پہ نسب آینے میں اپنے آپ پر ڈالی۔۔۔ اور سٹیج کی طرف چل پڑا۔۔۔
سٹیج پر جا کر گانا اس کے لیے نیا نہیں تھا۔۔ لیکن ایسے بڑے لیول پہ گانا نیا ہی تھا۔
واٸٹ ٹی شرٹ ۔۔۔ گرے۔۔ چیک ولا کوٹ۔۔۔ سلیقے سے بال جِل سے سیٹ کیے ہوۓ۔۔۔ اور چہرے پر سجی اس کی وہی مخصوص قاتل مسکراہٹ۔۔۔
۔ ۔جیسے ہی وہ سٹیج پہ آیا تھا۔۔۔ ایک شور ہوا تھا۔۔۔ لڑکیوں کی زیادہ چیخیں شامل تھیں۔۔۔
پھر اس نے گانا شروع کیا تھا۔۔۔ ماٸک کو اپنے منہ کے قریب لے کر گیا۔۔ ایک دفعہ تھوڑا سی گھبراہٹ ہوٸی اسے۔۔۔ کہ پورا پاکستان اسے دیکھ رہا ہے۔۔۔ پر پھر۔

anusinha
 

اور جو ملتا ہے وہ بھی دھوکا ہی ہوتا۔۔۔
سارا قصور میرا خود کا ہے۔۔۔ میرے جیسی بیوقوف لڑکیوں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔۔۔ کچھ تو اپنی عزت تک بھی لٹا آتی ہیں۔۔۔اسکا گلا کڑوا سا ہو گیا تھا۔۔۔
زرداد نے تو ۔۔۔۔ہاں زرداد نے بھی تو کتنی دفعہ اسکے ہاتھوں کو چھوا تھا نا۔۔۔ ہاں۔۔۔ چھوا تھا۔۔۔ وہ اپنے ہاتھوں کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ پتلے سے ہاتھ۔۔۔ سانولے سے۔۔۔ وہ تیزی سے اپنے کمرے کی طرف جا رہی تھی۔۔
اسکا تو سب کچھ ہی ختم کر گیا تھا نا۔۔۔ اسکا دل۔۔۔ توڑ گیا تھا۔۔۔ اس کی روح چھلنی کر گیا تھا۔۔۔ اس کے وجود کو کراہیت زدہ کر گیا تھا۔۔۔ اس کی آنکھوں کے خوابوں کو نوچ گیاتھا۔۔۔
وہ بار بار اپنے ہاتھ دھو رہی تھی۔۔۔ اسے گھن آ رہی تھی اپنے ہاتھوں سے۔۔۔ ان کو کتنی بار اس نے چھوا تھا۔۔۔
ہنستا ہوگا وہ مجھ پہ
۔۔ ٹپ ۔۔ٹپ۔۔۔ آنکھوں سے آنسو گرنے لگےتھے۔۔۔

anusinha
 

دانین تم کیوں اٹھ کے باہر آٸی ہو۔۔۔منال اسکی طرف بھاگی تھی۔۔۔ آج ہفتوں بعد تو وہ کمرے سے نکلی تھی۔۔۔
اور کمزور ہو گٸی تھی۔۔۔ آنکھیں اندر کو دھنس گٸی تھی۔۔۔ لاغر سا جسم لگ رہا تھا۔۔۔
وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوٸی کچن کی طرف جا رہی تھی۔۔ جب منال کی نظر اس پر پڑی تھی۔۔۔
کچھ نہیں۔۔۔ منال ٹھیک ہوں اب میں۔۔۔ پانی لینے آٸی تھی۔
ہلکے ہلکے سے کمزوری کے چکر اسے ابھی بھی آ رہے تھے۔۔۔ لیکن اب ہروقت لیٹے رہنے سے وہ بیزار سی ہو گٸی تھی۔۔۔
اچھا پھر پانی پی کر میری بات سننا ذرا۔۔۔ منال کی آنکھیں کسی انوکھی سی خوشی سے چمک رہی تھیں۔۔۔
وہ سر ہلاتی کچن میں گھس گٸ تھی۔۔۔ سدرہ اور ثمرہ سبزی بنا رہی تھیں اور ساتھ پتہ نہیں کس کس عورت کے کون کونسے قصے چھیڑ کے بیٹھی ہوٸی تھیں۔
وہ پانی لے کر آہستہ سے چلتی منال کے پاس واپس آٸی تھی۔۔۔

anusinha
 

کیا ہوا۔۔ میں تمھیں اپنی نیل پالش دکھا رہی ہوں ۔۔۔ اور تم کچھ اور ہی سوچے جا رہے ہو دیکھ ہی نہیں رہے۔۔۔ منسا نے خفا سی شکل بناٸی۔۔۔
نہ۔۔نہ۔۔نہیں۔۔۔ ایسی بات نہیں۔۔ زرداد نے لیپ ٹاپ کا رخ تھوڑا اور اپنی طرف موڑا۔۔
اپنے پیچھے تکیہ سیٹ کیا۔۔۔ اور چہرے پہ زبردستی مسکراہٹ لانے کو کوشش کی۔۔
منسا کینیڈا واپس چلی گٸ تھی۔۔۔ لیکن زرداد کے ساتھ اسکا دن رات رابطہ تھا۔۔۔ سارا دن انٹرنیٹ کے ذریعے۔۔ پیغامات اور ویڈیو کالز۔۔۔
پھر بھی۔۔۔ آج تھوڑے اپ سیٹ لگ رہے ہو۔۔۔ نہ میری تعریف کی۔۔۔ اس نے بڑی ادا سے اپنے بال کندھے سے پیچھے کیے۔۔ وہ بے حد دلکش لگ رہی تھی۔۔ پر اس کا دل آج دانین کی طبعیت کا سن کر بجھا بجھا سا تھا۔۔۔
بہت بڑی غلطی کر بیٹھا تھا نادانی میں۔۔ وہ اس سے کتنی چھوٹی تھی۔۔۔ اس نے کس بری طرح اسے دھوکا دیا تھا۔۔۔

anusinha
 

دانی۔۔ دانی۔۔۔ دوا کے لیے تھوڑا سا منہ کھولو۔۔۔ دانی۔۔۔ سدرہ ہلکے سے اس کے گال تھپ تھپا رہی تھی۔۔
وہ بے سدھ ہی پڑی تھی۔۔ پھر اچانک اس کے لب کچھ بڑ بڑا رہے تھے دھیرے سے۔۔۔ سدرہ نے کان قریب کیا تھا۔۔ تاکہ اس کی نیم بے ہوشی میں کی ہوٸی سرگوشی کو سن لے۔۔۔
جیسے ہی وہ کان اس کے کپکپاتے ہونٹوں کے پاس لے کر گٸی تو اس کی آنکھیں ایک دم سے زیادہ کھل گٸی تھیں۔۔ رنگ زرد سا ہو گیا تھا۔۔
اس کے لبوں سے نکلنے والی آواز۔۔۔۔۔۔۔ زری ۔۔۔ تھی۔۔۔۔
کیا ہوا کیا کہہ رہی۔۔۔کچھ فاصلے پہ کھڑے سکندر نے پوچھا۔۔۔
پہ۔۔پہ۔۔پانی۔۔۔ پانی ۔۔ مانگ رہی ہے۔۔۔ سدرہ گڑ بڑا گٸی تھی۔۔۔
تو دو نہ اسے پانی۔۔ سکندر جگ سے پانی گلاس میں انڈیل رہے تھے۔۔۔
اور سدرہ اپنی فق ہوتی رنگت کے ساتھ بہت کچھ حقیقت کے برعکس سوچ رہی تھی۔۔۔
💔💔💔💔💔

anusinha
 

ہونٹ بھینچ کے بیٹھا ہوا تھا جبکہ نظریں سامنے لگے ٹی وی پہ ٹکی تھیں۔۔۔۔
وہ اسی دن کراچی اشعال کے گھر آ گیا تھا۔۔۔ احمد اور اشعال یہاں ایک چھوٹے سے فلیٹ میں رہتے تھے۔۔۔
اماں۔۔۔ وہ نہیں کر رہا ہے بات۔۔ آپ پریشان نا ہوں۔۔۔ میں۔۔۔ میں کہہ رہی ہوں نا۔۔۔ اچھا ۔۔۔ اچھا۔۔۔ آپ بلکل پریشان نا ہوں۔۔ اشعال پوری کوشش کر رہی تھی کہ اپنی روتی ہوٸی ماں کو تسلی دے۔۔ آج ایک ہفتہ ہونے کو تھا اس کو یہاں آۓ ہوۓ وہ کسی سے بات تک نہیں کر رہا تھا کال کاٹ دیتا تھا۔۔۔
چاچو کو بھی کہیں بے فکر رہیں۔۔۔ احمد ہیں نا یہاں۔۔۔ اشعال پریشانی سے کبھی سامنے بیٹھے زرداد کو دیکھ رہی تھی تو کبھی کچھ دور بیٹھے احمد کو۔۔۔
اوہ۔۔۔ کیسے ۔ کب۔۔۔ اشعال کی آواز اور شکل ایک دم دانین کی بیماری کا سن کر پریشانی میں تبدیل ہو گٸی تھی۔۔۔
اچھا میں کرتی ہوں چچی کو فون۔۔۔ اچھا اللہ حافظ۔۔۔

anusinha
 

اتنی محنت کی میری بچی نے۔۔سدرہ کی روہانسی آواز ابھری۔۔۔
سکندر پریشان سے کھڑے دانین کے چہرے کو دیکھ رہے تھے۔۔۔
آنکھوں کے نیچے گہرے سیاہ حلقے پڑے تھے۔۔۔ہونٹوں کا رنگ زرد تھا اور ان پر پپڑی جمی تھی۔۔۔
چہرہ ایسے مرجھایا ہوا تھا۔۔۔ اور گال زرد ہوۓ پڑے تھے۔۔۔
سکندر کی آنکھوں میں پانی آ گیا تھا۔۔۔
دانین کبھی ایسے بیمار نہیں ہوٸی تھی۔۔۔ اب تو اتنے دن ہو گۓ تھے۔۔۔ اس کا بخار اترنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔۔۔
اب وہ مزید سدرہ اور دانین کو ایسی حالت میں نہیں دیکھ سکتے تھے۔۔۔ تیزی سے کمرے سے باہر چلے گٸے تھے۔۔۔
💔💔💔💔
اماں سے تو بات کر لو کم از کم۔۔۔ اشعال زرداد کے پاس موباٸل لے کر کھڑی تھی۔۔۔ چہرے پہ بلا کی پریشانی لیے۔۔
ان سے کیا ناراضگی۔۔۔ اشعال بار بار اس کے سامنے فون کر رہی تھی جسے وہ دیکھ بھی نہیں رہا تھا۔۔۔

anusinha
 

آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں اس کی حالت تو دیکھیں اتنا تیز بخار ہے۔ وہ بستر سے نہیں اتر پا رہی آپ کہہ رہے اسکا پریکٹیکل ہے۔۔۔ ڈاکٹر نے تیز بخار میں بے سدھ پڑی دانین کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا۔۔۔
لیکن ہماری بچی کا سال ضاٸع ہو جاۓ گا ڈاکٹر ۔۔ بہت ذہین ہے میری بچی۔۔ سکندر پاس کھڑا ڈاکٹر کو کہہ رہا تھا۔۔۔
دیکھیں ۔۔ آپ کو بچی کی پڑھاٸی سے زیادہ اس کی صحت پیاری ہونی چاہیے۔۔ ڈاکٹر نے سکندر کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر کہا اور پھر اپنی چیزیں سمیٹتا ہوا باہر نکل گیا۔۔۔
شازر ڈاکٹر کے پیچھے پیچھے نکل گیا۔۔۔ ڈاکٹر کو مین گیٹ تک لے جانے کے لیے۔۔۔
سکندر ڈاکٹر ٹھیک کہہ رہا ہے۔۔ کوٸی بات نہیں امتحان دوسری کوشش میں دے دی گی۔۔۔ہارون نے سکندر کو تسلی دی۔۔۔
سدرہ اس کے سر پر ٹھنڈی پٹیاں رکھ رہی تھی۔۔۔ اور ساتھ ساتھ اپنے آنسو اور ناک دوپٹے کے پلو سے پونچھ رہی تھی۔

anusinha
 

دل غلطی کر بیٹھا ہے۔۔۔
قلم ازہماوقاص۔۔
قسط نمبر 5
نکل میرے گھر سے۔۔۔ بدر زمین سے اٹھا تھا۔۔۔ اس نے اپنے ہونٹوں کے کنارے سے نکلتے خون کو اپنی انگلیوں کے پوروں پہ لگا کے دیکھا تھا۔۔۔
زرداد ناک پھلاۓ کھڑا تھا۔۔۔ اس کا سانس تیز رفتاری سے چل رہا تھا۔۔
زرداد کے فولادی جسم کے آگے بدر کی کیا چلنی تھی۔۔ ایک پنچ نے ہی اس کا دانت توڑ ڈالا تھا۔۔۔
چل نکل۔۔ چل دفعہ ہو جا۔۔ بدر اسے دھکے دے رہا تھا۔۔۔ اس نے بدر کو پھر سے دھکا دیا۔۔ وہ لڑکھڑاتا ہوا پاس پڑی کرسی سے ٹکرایا۔۔۔
زرداد نے اپنی شرٹ کو جھٹکا دے کر درست کیا۔۔۔ گٹار اٹھایا اور بدر کو گھورتا ہوا باہر نکل گیا۔۔۔
💔💔💔💔

anusinha
 

زرداد کا لہجہ سخت تھا لیکن شرمندگی سے بھرا ہوا۔۔
ابے۔۔۔ جا۔۔۔ تو کوٸی دودھ پیتا بچہ ہے جو تو میری بات پہ ایسے ہی عمل کر گیا۔۔ بدر نے ناگواری سے منہ بگاڑ کے کہا
میں نے تمہیں مجبور تھوڑی کیا تھا۔۔۔ اپنی مرضی سے کیا تو نے سب۔۔۔ بدر بھی اب اکڑ کے سیدھا ہو گیا تھا۔۔۔
بکواس بند کر اپنی۔۔۔ زرداد نے اس گریبان سے پکڑا تھا۔۔۔
اب وہ دونوں گوتھم گوتھا ہو رہے تھے۔۔۔
بدر زرداد کے ایک ہی جھٹکے سے ڈھیر ہو گیا تھا۔۔۔
جاری ہے

anusinha
 

اچھا ۔۔اچھا۔۔ ہوا اسے خود ہی پتہ چل گیا۔۔ تمہیں بتانا نہیں پڑا۔۔۔بدر کی لڑکھڑاتی آواز نے کمرے کی خاموشی کو توڑا۔۔۔
زرداد دونوں ہاتھوں کے پنجوں میں۔۔ اپنے سر کوجکڑے یوں کرسی پہ بیٹھا تھا۔۔۔ کہ منہ نیچے زمین کی طرف تھا۔۔۔
چپ کر جا۔۔۔ زرداد کی گھٹی سی آواز کہیں بہت دور سے آتی ہوٸی محسوس ہوٸی۔۔۔
کہ۔۔کہ۔۔کچھ غلط نہیں کیا تم نے یار۔۔۔ اس کی اکڑ ایسے ہی ختم ہونی تھی۔۔۔ تو۔۔۔ تو۔۔۔ ریلکس ہو جا۔۔۔۔ بدر نے زرداد کے پاس آ کر ڈرتے ڈرتے اس کے کندھے پہ ھاتھ رکھ کر کہا تھا۔
چپ کر جا۔۔۔۔ چپ کر جا۔۔۔ تجھے بات سمجھ نہیں آتی کیا۔ وہ دھاڑا تھا اور ایک جھٹکے سے اٹھا تھا۔۔۔ بدر تھوڑا لڑ کھڑا سا گیا تھا۔۔۔
وہ ایک ایک لفظ ٹھیک بول کر گٸی ہے۔۔۔ گرانا اسے چاہتا تھا۔۔ گر میں خود گیا ہوں۔۔۔ تیری باتوں میں آ کر میں نے غلط کیا سب۔۔۔

anusinha
 

من من بھاری قدم اٹھاۓ کو نہیں اٹھ رہا تھا۔۔۔ آنسو ایسے تھے کے گلی کا تھوڑا سا راستہ میلوں کا راستہ دکھاٸی دے رہا تھا۔۔۔ اس کا چہرہ پسینے سے شرابور تھا۔۔۔
زلت۔۔۔ تزلیل۔۔۔ کیا کچھ نہیں ساتھ لے کر لوٹ رہی تھی وہ۔۔ لینے کو تو صرف اسے گٸی تھی۔۔۔ پر ۔۔۔
تیر کی سی تیزی سے وہ بیٹھک کے کھلے دروازے میں داخل ہوٸی اور کنڈی چڑھاتے ساتھ ہی دروازے کے ساتھ بیٹھتی ہی چلی گٸی۔۔۔
❤❤❤❤

anusinha
 

اتنی گری ہوٸی حرکت کی تم نے اپنی اس چچا کی بیٹی کے ساتھ جو تمہیں اتنا پیار کرتے ہیں تم پہ جان چھڑکتے ہیں۔۔۔
لعنت ہو تم پہ زرداد ہارون۔۔۔ لعنت ہو تم پہ۔۔۔۔ وہ زور سے چیخی تھی۔۔۔ گلا درد کی شدت سے پھٹی ہوٸی آواز باہر نکال رہا تھا۔۔۔ ناک اور آنکھوں سے پانی رواں تھا۔۔
ماتھے اور گردن سے پسینہ ٹپک رہا تھا۔۔۔
زرداد دم سادھے کھڑا تھا۔۔ اسے اندازہ بھی نہیں تھا۔۔ کہ دانین کو یوں حقیقت کا پتہ چلے گا۔۔
مجھے گھن آ رہی تمھارے وجود سے۔۔۔ تم کیا مجھ سے اپنی جان چھڑواٶ گے میں تھوکتی ہوں تم پہ۔۔۔
وہ غصے سے مڑی دروازے کہ پاس گٸی ۔۔ اور پھر پلٹی تھی۔۔ ایک دم سے ۔۔۔ اب اس کا رخ بدر کی طرف تھا۔۔۔
ایک زناٹے دار تھپڑ اب بدر کی گال کی زینت بنا تھا۔۔۔
جالی کا دروازہ ایک دھماکے سے بند ہوا تھا۔۔۔
اس کا دل گھبراہٹ سے پھٹ جانے کو تھا۔۔

anusinha
 

زرداد اور بدر کا ایک دم سے رنگ پیلا پڑ گیا تھا۔۔
دانین کا ہاتھ ہوا میں اٹھا تھا۔۔ اور اپنی پوری قوت لگا کے زرداد کے گال پہ ایک دھماکے دار تھپڑ کی صورت میں پڑا تھا۔۔۔
شرم تو نہ آٸی تمہیں۔۔۔ رونے سے دانین کی آواز بھاری ہوگٸی تھی ۔۔ پر وہ چیخ رہی تھی۔ چہرہ کرب سے ذلت۔۔۔اور تزلیل کے احساس سے سرخ ہو رہا تھا۔۔۔ ۔
اس ۔۔اس۔۔ کی تو میں کچھ نہیں لگتی تھی۔۔ پر تمھاری تو چچا زاد تھی نا۔۔۔ دانین نے انگلی سے بدر کی طرف اشارہ کیا۔۔
آواز رونے کی وجہ سے بھاری اور پھٹی ہوٸی لگ رہی تھی۔۔۔
اپنے سامنے کھڑے اس شخص کو اس نے حقارت سے دیکھا تھا۔۔۔جو کچھ دن پہلے اسے دنیا میں سب سے زیادہ عزیز تھا۔۔۔ دانین کی آنکھوں میں ذلت کی وجہ سے خون اتر آیا تھا۔۔
محبت کا بھوت ساری تزلیل بھری باتیں سن کہ بھک سے اڑ گیا تھا۔۔۔

anusinha
 

میں نے تو بس تمھاری اکڑ ختم کرنی تھی۔۔۔
تیری وجہ سے پھنسا بیٹھا ہوں میں آج اس کلو کے ساتھ۔۔ ایک نظر نہیں بھاتی مجھے۔۔۔ چپک ہی گٸی ہے میرے ساتھ۔۔۔وہ بدر کو بیزاری سے اپنے دکھڑے سنا رہا تھا۔۔۔
تو بول دے نا اس کو۔۔۔ مجھے کیوں سنا رہا ہے۔۔۔ بدر نے بھی ترکی با ترکی جواب دیا۔۔
کیا۔۔کیسے ۔۔ بول دوں ۔۔ اتنا آسان ہے کیا سب۔۔ زراد کی ناگواری اور بےزرای عروج پہ تھی۔۔۔ تو نے ہی یہ گھٹیا مشورہ دیا تھا مجھے۔۔۔ مجھے کوٸی شوق نہیں تھا اس کلو سے جھوٹی محبت کا ناٹک بھی کروں۔۔۔ اتنی نفرت بھری تھی زرداد کے لہجے میں کہ باہر کھڑی دانین کا دل کٹ کے رہ گیا تھا۔۔دل کر رہا تھا زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جاۓ۔۔۔
جالی کا دروازہ ایک دھما کے سے کھلا تھا ۔۔۔ اور دانین زرداد کے بلکل سامنے کھڑی تھی۔۔ وہ کرسی پہ بیٹھا ہوا تھا۔۔۔

anusinha
 

کبھی دانین کی طرف دیکھ رہا تھا تو کبھی زرداد کی طرف۔۔
چلو نکلو۔۔۔ چلو شاباش۔۔۔ اب تو باقاعدہ زرداد ۔۔دانین کا بازو پکڑے اسے باہر نکال رہا تھا۔۔۔ اس نے اسے باہر نکالا اور تیزی سے پلٹا جالی کے دروازے کے پٹ دھماکے سے بند ہوۓ تھے۔۔۔
وہ دو قدم چلی لیکن پھر رک گٸی تھی۔۔۔ آنکھ سے اس بے دردی پہ آنسو چھلک پڑے تھے۔۔۔ وہ وہیں کھڑی تھی ابھی جب زرداد کی آواز اس کے کانوں میں پڑی اور وہ زمین میں گڑتی ہی چلی گٸی۔۔۔
وہ سمجھا تھا وہ اب تک جا چکی ہو گی۔۔۔ لیکن وہ وہیں دروازے کے پاس کھڑی تھی۔۔ اور جالی کے دروازے کی وجہ سے اندر ہونے والی ساری گفتگو باآسانی سن سکتی تھی۔۔۔
ایک تو نے مجھے اس عذاب میں ڈال دیا ہے۔۔۔ اس سے اب کیسے جان چھڑواٶں۔۔۔ زرداد جھنجلا کے بول رہا تھا۔۔
کیسے اسے بتاٶں کہ نہیں کرتا میں تم سے کوٸی محبت ۔۔ وحبت۔۔