Damadam.pk
anusinha's posts | Damadam

anusinha's posts:

anusinha
 

وہ ۔۔وہ۔۔ میں۔۔ زرداد پلیز گھر چلو۔۔ میں تایا ابا سے بات کرتی ہوں ۔۔ تم معافی مانگ لو ان سے۔۔ وہ روہانسی ہو رہی تھی۔۔۔
اپنی ہمدردی اپنے پاس رکھو اور چلو جاٶ فوراََ گھر۔۔۔ زرداد غصے سے دروازے کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔۔ اتنا روکھا انداز تھا۔۔ کرخت آواز تھی کہ ایک لمحے کو تو دانین کا دل ہی دہل گیا تھا۔۔۔
زری۔۔ پلیز۔۔۔ کیا ہو گیا ہے۔۔ تم ایسے چھوڑ کے نہیں جا سکتے گھر۔۔ خوشی خوشی جانا ۔۔۔ اسے پتا تھا کہ زرداد کو منا کر واپس لانے والا اب کوٸی گھر نہیں تھا۔۔ اس نے ایسے ہی کراچی کے لیے نکل جانا تھا۔۔۔
اور اس کے ایسے جانے پہ معاملا اور بگڑ سکتا تھا۔۔۔
اوہ پلیز دانی ۔۔ دفعہ ہو جاٶ گھر۔۔۔ زرداد نے زور کی آواز پیدا کرتے ہوۓ اس کے آگے ہاتھ جوڑے تھے۔۔۔
بدر سینے پہ ہاتھ باندھے۔۔ ایک ھاتھ سے اپنی تھوڑی کو سہلاتے ہوۓ ۔۔

anusinha
 

جو دوپٹے سے اپنے آنسو پونچھ رہی تھی۔۔۔
سب سے پہلے ہارون اندر گۓ تھے پھر اس کے پیچھے باقی سب آہستہ آہستہ۔۔۔۔ برآمدے سے ہوتے ہوۓ اپنے اپنے کمروں میں گم ہو گیے تھے۔۔۔
❤❤❤❤
وہ بیٹھک کے باہر گلی میں کھلتے ہوۓ دروازے کے پاس کھڑی تھی۔۔۔ ہاتھ کانپ رہے تھے دل کی دھڑکن تیز ہو رہی تھی۔۔۔
اپنے گرد بڑا سا دوپٹہ اچھی طرح گھما ڈالا تھا اس نے اور اس کے پلو کو پکڑ کر اپنے ناک پر اٹکایا تھا۔۔۔
رات کے دس بج رہے تھے۔۔۔ ان کے گھر سے پانچ گھر چھوڑ کے ہی۔۔ بدر کا گھر تھا۔۔
دل تھا کا زرداد کی فکر میں پاگل ہو رہا تھا۔۔ کہیں وہ چلا نا جاۓ کہیں۔۔ میں کیا کروں گی۔۔۔ اگر وہ کبھی واپس نا آیا تو۔۔ نہیں نہیں۔۔۔ دل عجیب سے وسوسے پال رہا تھا۔۔۔
گلی میں کسی کسی گھر کی باہر کو چلنے والی بتی جل رہی تھی۔۔ ہر گھر سے ابھی ہلکی ہلکی بولنے کی

anusinha
 

میری زندگی ہے یہ جیسے بھی گزاروں۔۔۔ وہ برابر گردن اکڑا کے کھڑا تھا۔۔۔
نا اس وقت شازر گھر تھا نا سکندر دونوں شہر سے باہر کپڑا لینے گیے ہوۓ تھے۔۔۔
جا رہا ہوں میں۔۔۔ وہ ٹوٹا ہوا گٹار اٹھا کے دھمکی کے سے انداز میں کہہ رہا تھا۔۔۔
ثمرہ اور منال ہارون کو مارنے سے روکنے کے لیے زبردستی پکڑے کھڑی تھیں۔۔۔ اور دانین سہم کے سدرہ کے گلے لگی ہوٸی تھی۔۔
وہ تیزی سے باہر نکلنے لگا تو ثمرہ آگے بڑھی تھی اسے روکنے کو لیکن ہارون نے اس کا بازو پکڑ کر روک دیا۔۔۔
خبردار اگر کسی نے روکا اسے۔۔۔
رات کے نو بج رہے تھے۔۔۔ جب وہ گھر سے باہر نکلا۔۔۔ دروازہ ایسے دھماکے سے بند کیا تھا کہ دانین نے ڈر کے آنکھیں بندکر لی تھیں
کیوں رو رہی ہو۔۔ یہیں بدر لفنگے کے پاس ہی ہو گا۔۔۔ کہیں نہیں جاتا وہ۔۔۔ ہارون نے ثمرہ کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا۔۔

anusinha
 

اسکے بعد اس گٹار کی حالت بھی وہی ہو گٸ تھی جو اس سے پہلے دو کی ہو چکی تھی۔۔۔
تم نے یہ سب چھوڑنا کہ نہیں۔۔۔ ہارون غصے کی حالت میں اس کی طرف بڑھے تھے۔۔۔
جن کو بڑی مشکل سے ثمرہ اور منال نے روکا تھا۔
دانین تو دم سادھے کھڑی تھی۔۔ اور جھگڑا ختم ہو جاۓ اس کے لیے سورتیں پڑھنا شروع ہو گٸی تھی۔۔۔
نہیں چھوڑ سکتا۔۔۔ وہ اکڑ کے کھڑا تھا۔۔۔ آنکھوں میں غصہ بھرا تھا۔۔سرخ ہوتا چہرہ۔۔۔ ضبط سے بند کی ہوٸی مٹھیاں۔۔ جبڑے آپس میں جکڑے ہوۓ۔۔۔ ماتھے کی نسیں پھولی ہوٸی۔۔۔
تو پھر نکل جا میرے گھر سے۔۔۔ ہارون کا غصے سے برا حال تھا۔۔۔ وہ غصے سے آگے بڑھ رہے تھے۔۔۔
نکل دفعہ ہو جا۔۔۔ اتنی زور دار آواز تھی کہ سب کانپ گیے تھے۔۔۔
جا رہا ہوں ویسے بھی۔۔۔ واپس نہیں آنے کا میں۔۔۔ وہ بھی چیخ رہا تھا۔۔۔ مجھے یہی بننا ہے۔۔۔ وہ نہیں جو آپ چاہتے ہیں ۔۔

anusinha
 

جب کے ھاتھ گٹار کے پاس پڑی ڈاٸری کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔۔
زرداد نے بھنویں اچکا کر اس سرخ ڈاٸری کو دیکھا۔۔۔۔
اچھا پڑھ لوں گا۔۔۔ اب تم جاٶ۔۔ زرداد سے اب اس کی یہاں موجودگی زیادہ برداشت نہیں ہو پا رہی تھی۔۔۔۔
اوکے ۔۔۔ اوکے۔۔۔ جا رہی ہوں۔۔۔ خوش دلی سے مسکراتی ہوٸی وہ وہاں سے چل دی تھی۔۔۔
❤❤❤❤❤
کوٸی کسر نا چھوڑنا مجھے ذلیل کرنے کے۔۔۔ یہ میراثیوں کا گھر نہیں ہے۔۔۔ ہارون دھاڑ رہے تھے۔۔۔
گٹار صحن میں ٹوٹا پڑا تھا۔۔۔ سب لوگ ارد گرد آنکھوں میں خوف لیے کھڑے تھے۔۔ کیونکہ پچھلی دفعہ جب یوں گٹار صحن کے درمیان میں اپنی آخری سانسیں لے رہا تھا تو۔۔۔ سب نے زرداد کو بچانے کی خاطر اس کی ضمانت دی تھی کہ اب گٹار اس گھر میں نہیں آۓ گا۔۔۔
آج جب ہارون عشإ کی نماز کے لیے نکلنےلگے تو ان کے کانوں میں سیڑھیوں کے پاس سے کوٸی آواز گھسی تھی۔۔

anusinha
 

پر زرداد نے تو ان کے ارمانوں پہ ہمیشہ پانی ہی پھیرا تھا۔۔۔
اشعال نے بہت سمجھا کر بھیجا تھا اسی کا نتیجہ تھا کہ وہ بڑے ضبط سے بیٹھا ہوا تھا ۔۔۔۔ اور ہارون کی جھاڑ سن رہا تھا۔۔۔
چلو اب کھانا کھا کر آرام کرو۔۔۔آخری بات ہارون نے تھوڑی نرمی سے کی تھی۔۔۔
کیا کر رہے ہو۔۔ موباٸل کی سکرین پہ ابھرے الفاظ پڑھ کے بے ساختہ اس کے لب مسکرا دیے تھے۔۔۔
وہ آہستہ آہستہ تھکے قدموں سے سیڑھیاں چڑھتا ہوا جب اوپر آیا تو۔۔۔ کمرے میں دانین کو دیکھ کر منہ کا زاویہ ہی بدل گیا
تمہیں پتا تھا نا میرے پیپر ہو رہے۔۔ پھر بھی وہیں رک گۓ۔۔۔ اس کے گٹار کو ایک طرف رکھ کے وہ پلنگ سے اٹھی تھی۔۔۔
ویسے تو زرداد اپنی کسی چیز کو ہاتھ نہیں لگانے دیتا تھا کسی کو۔۔۔ وہ بھی نہیں لگاتی تھی۔۔ یہ جاننے سے پہلے تک کہ زرداد کے دل میں اس کے لیے چاہت ہے۔۔

anusinha
 

کیونکہ۔۔۔ ثمرہ کا کوٸی بیسوں بار فون آ چکا تھا ۔۔ کہ ہارون بہت غصے میں ہیں جلدی گھر پہنچو۔۔
❤❤❤❤
برخوردار تم تو جیسے بہت ہی فارغ تھے نا۔۔۔ جو وہاں رک گۓ ان کے ساتھ۔۔۔ ہارون رعب دار آواز میں کہہ رہے تھے۔۔۔ ماتھے پہ ناگواری کے سو بل تھے۔۔۔ جن کو دیکھ کر ثمرہ منہ ہی منہ میں بڑبڑاٸی تھی۔۔۔
خالہ زاد تو آخر کو میری ہے نا۔۔۔ منہ بگاڑتی وہ وہاں سے اٹھ کہ چلتی بنی تھی۔۔۔ جانتی تھی اب زرداد کی کچھ لمبی ہی کلاس ہو گی۔۔۔
تمہیں تو میں نے بولا ہے کہہ سکندر کے ساتھ دوکان پر بیٹھا کرو۔۔۔ آواز میں بلا کی سختی بھر کے وہ بولے تھے۔۔۔
سکندر اور ہارون کی مین بازار میں کپڑوں کی دوکان تھی۔۔ ان کا کاروبار کافی پرانا تھا ۔۔ اس لیے پورا شہر ان کو جانتا تھا۔۔
ہارون کی بہت خواہش تھی۔۔ کہ چلو شازر ان کے کاروبار کو آگے بڑھاۓ گا تو زرداد کچھ بن جاۓ گا۔

anusinha
 

سکندر کے سوال پہ سب کی توجہ کا مرکز دانین بن گٸی تھی اب۔۔
آ۔۔۔آ۔۔آچھے ہو رہے بابا۔۔۔ بہت اچھے ہو رہے۔۔۔ خشک ہوتے ہونٹوں پہ زبان کا مرہم لگاتے ہوۓ اس نے کہا۔۔۔
لیکن صرف وہی جانتی تھی۔۔۔ اتنے اچھے نا ہو پا رہے تھے جتنے اچھے ہونے چاہیے تھے۔۔۔
پرسوچ انداز میں۔۔۔ دل میں رزلٹ کا خوف بھر کے اس نے نوالہ زہر مار کیا۔۔۔
اب کیا کہے سب کو۔۔ کہ سب کی لاڈلی دانین ۔۔ سب کی امیدیں جس سے وابستہ ہیں۔۔۔ میٹرک میں بورڈ کی پوزیشن لے کر سب کا سر فخر سے اونچا کرنے والی۔۔۔ جس کی مثالیں نا صرف خاندان میں دی جاتی تھیں بلکہ اس کے نام کے چھپے بینر دیکھ کر پورے شہر کو دی جاتی تھیں۔۔ اس سال سب کو مایوس کر دینے والی تھی۔۔۔
نا اپنے دل کو لگام دے سکی۔۔۔ نا جزبات کو قابو میں رکھ سکی۔۔۔ نا اس کے شہد میں ڈوبےتیروں کو دل چھلنی کرنے سے روک سکی۔۔

anusinha
 

اس کو بولو اب آ جاۓ ۔۔۔ تین دن تو ہو چکے۔۔ اب اور کتنا کراچی گھمانے لگ پڑا ہے وہ ۔۔۔۔۔ ہارون کھانے کی میز پہ بیٹھے۔۔ ثمرہ سے کہہ رہے تھے۔۔۔
انہیں ویسےہی نیلم اور اس کے بے باک خاندان سے شروع سے ہی چڑ تھی۔۔۔ اب زرداد کے ان کے ساتھ یوں گھومنے پہ انھیں سخت کوفت ہو رہی تھی۔۔۔
جی۔۔۔ جی۔۔ میں نے فون کیا تھا۔۔ نیلی کو آج بس پہنچ رہے۔۔ وہ کل شام تک۔۔ ثمرہ۔۔۔ نے ہارون کے غصے سے گھبراتے ہوۓ کہا۔۔۔
دانین کے کان کھڑے ہو گۓ تھے۔۔ اور ھاتھ کھانا کھاتے کھاتے رک گۓ تھے۔۔۔ اس دن سے اس کے بھی تو سینے پہ سانپ لوٹ رہے تھے۔۔۔ جب سے پتا چلا تھا کہ محترم ۔۔ وہاں ان کے گاٸیڈ بن کر رک گیے ہیں۔۔۔
دلِ بے قرار کو جیسے قرار سا آ گیا تھا ۔۔ وہ کل واپس آ رہا تھا۔۔۔ ایک سکون تھا جو اندر کہیں اتر سا گیا تھا۔۔۔
دانی بیٹا پیپر کیسے ہو رہے ہیں۔۔۔

anusinha
 

پر وہ سب جیسا ہونے کے باوجود الگ سا ہی تھا۔۔۔
نظر لگانے کا ارداہ ہے کیا۔۔۔ آنکھوں میں شوخی۔۔ بھر کے ہونٹوں پہ شریر سی مسکراہٹ چھپاۓ وہ تھوڑا سا منسا پر جھکا تھا۔۔۔
وہ بے باک سی لڑکی بھی خجل سی ہو گٸی تھی۔۔۔ ایک دم سے بالوں کو کانوں کے پیچھے زور سے پھنساتے ہوۓ اس نے نظریں چراٸیں۔۔۔ جب کہ اس کے خوبصورت ہونٹ ہنسی کو دبانے کی خاطر منہ کے اندر غاٸب ہو گٸے تھے۔۔۔۔
زرداد ایک دم اپنے بے ساختہ ابھرنے والے قہقے کو فضا میں گھلنے سے نا روک سکا۔۔۔
وہ بھی دھیرے سے مسکرا دی تھی۔۔۔
فون نمبر تو دو اپنا۔۔۔ زرداد اب کافی حد تک۔۔ اس کےرویے سے مطمٸین ہو چکا تھا۔۔۔
پینٹ کی جیب سے موباٸل نکالتے ہوۓ اس نے کہا۔۔۔
شٶر۔۔۔ وہ بڑے ناز سے اپنا موباٸل نمبر اسے نوٹ کروا رہی تھی۔۔۔
لہروں کا شور۔۔۔ ان کی گھلتی ہنسی۔۔۔ سورج ڈوبنے تک سناٸی دے رہی تھی۔۔۔
❤❤❤❤

anusinha
 

مسکراہٹ چہرے پہ سجاۓ اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔
منسا کی کھنکتی ہوٸی ہنسی فضا میں ابھری تھی۔۔۔
باقی سب لوگ ولیمے کے بعد واپس حیدر آباد جا چکے تھے۔۔۔
زرداد ۔۔نیلم اور منسا کے ساتھ ان کو کراچی گھمانے کے غرض سے رک گیا تھا۔۔۔
اج وہ پہلی دفعہ منسا سے کھل کہ اتنی گفتگو کر رہا تھا۔۔ نہیں تو ہر وقت کوٸی نہ کوٸی ارد گرد ہی ہوتا تھا۔۔۔
سفید رنگ کی ڈریس شرٹ۔۔ کے بازو فولڈ کی صورت میں اوپر چڑھاۓ ہوۓ۔۔۔ گریبان کے پہلے دو بٹن کھولے ہوۓ۔۔۔ جیبوں میں ہاتھ ڈالے ۔۔ چہرے پہ گہری مسکراہٹ سجاۓ۔۔۔ ہوا سے پھڑ پھڑاتے بال۔۔ وہ ڈھیر کر دینے کی حد تک دلکش شخصیت کا مالک تھا۔۔۔ منسا اسکا بغعور جاٸزہ لے رہی تھی۔۔۔ اس کی شخصیت میں کچھ تو الگ تھا ہی جو وہ منسا ہاشم۔۔ اس کے بارے میں سوچ رہی تھی۔۔۔
اس کے آگے پیچھے تو ایسے بہت سے لڑکوں کی گردش رہتی ہی تھی۔۔۔

anusinha
 

دل غلطی کر بیٹھا ہے۔۔۔۔
قلم از ہماوقاص۔۔۔
قسط نمبر 4
سمندر کی لہریں بار بار ان کے پاوں چھو رہی تھیں۔۔۔
آپ پہلی دفعہ آٸی ہیں کراچی۔۔۔ زرداد نے بڑی محبت سے پاس کھڑی۔۔۔منسا سے پوچھا۔۔۔
وہ مسکراٸی ۔۔۔ اور اپنے ہونٹوں کو چھوتی بالوں کی شیطان لٹ کو اپنی انگلیوں کی مدد سے دھیرے سے یوں پیچھے کیا کہ وہ نادان پھر سے اسکے چہرے پہ ہی منڈلانے لگی تھی۔۔۔
جی نہیں۔۔۔ بچپن یہں گزارا ہے میں نے۔۔۔ بہت چھوٹی تھی۔۔ جب ڈیڈ کے ساتھ کینیڈا شفٹ ہو گی تھی۔۔۔ وہ میٹھی سی آواز میں دھیرے دھیرے ایسے بول رہی تھی۔۔ کہ زرداد فدا سا ہوا جا رہا تھا۔۔۔
اس نے دونوں ہاتھ پیچھے باندھ رکھے تھے۔۔۔ دوپٹے سے بے نیاز۔۔ وہ ہلکے سے کرتے کے ساتھ جینز پہنے ہوۓ تھی۔۔۔
ہم۔م۔م۔م۔ اسی لیے آپ کی اردو اتنی بہتر ہے۔۔۔ زرداد اپنی مخصوص دل دھڑکا دینے والی مسکراہٹ

anusinha
 

پڑھنے کو دل نہیں کرتا تھا اب ویسے جیسے پہلے کرتا تھا۔۔۔
پھر کچھ دیر بعد وہ زرداد کے کمرے میں تھی۔۔۔
پہلے تو اس کی ٹی شرٹ کو اٹھا کے اپنے سینے سے لگا کہ بھینچ ڈالا۔۔۔ پھر اپنے منہ پہ ڈال کے لیٹ گٸی۔۔۔
اس میں سے زرداد کی خوشبو آ رہی تھی۔۔۔ ۔ جو اب اس کے ناک سے گھس کے اس کے دل پہ گدگدی کر رہی تھی۔۔۔
پھر اس کے گٹار پر وہ کتنی ہی دیر یونہی پیار سےہاتھ پھیرتی رہی ۔۔۔۔
ایک انوکھا سا احساس تھا۔۔۔ اس کی ہر چیز سے اپنا پن محسوس ہو رہا تھا۔۔۔
لب خود بہ خود مسکرا رہے تھے۔۔۔
دانین زرداد۔۔۔۔۔ وہ زیرِلب اس نام کو کتنی دفعہ دہرا چکی تھی۔۔۔ پھر اپنی ڈاٸیری کو زرداد کے گٹار کے نیچے رکھ کے وہ ۔۔۔ باہر آ گٸی تھی۔۔۔
❤❤❤
جاری ہے

anusinha
 

اشعال کی شادی ہو چکی تھی۔۔۔ سب لوگ ولیمے کے لیے جا رہے تھے مسواۓ دانین کے جس کے سالانہ پیپر میں دو دن پڑے تھے۔۔۔ ہارون نے اسے ساتھ جانے سے سختی سے منع کیا تھا۔۔۔ اور گھر رہ کر پڑھنے کی تاکید کی تھی۔۔
اس کا دل اچھل اچھل جانے کو کر رہا تھا ۔۔۔اسے پتہ وہ کس دل سے رکی تھی۔۔۔
اور پھر وہ سارا دن زرداد کے لیے ڈاٸری لکھتی رہی۔۔۔ ایک چھوٹی سی خوبصورت ڈاٸری جو اسے کچھ سال پہلے اس کی دوست نے تحفے کے طور پر دٕی تھی۔۔ اس پر آج وہ اپنی ساری محبت ۔۔۔ اپنی بے چینی ۔۔ کو لفظوں کی شکل دے کر لکھ رہی تھی۔۔۔ شاٸید اس کی اتنی محبت دیکھ کر۔۔۔ وہ اپنی ساری ناراضگی بھول جاۓ۔۔۔
وہ اسے کتنا پیارا ہے۔۔۔ وہ اسے کتنا سوچتی ہے۔۔۔ اس کا دل کیا کیاکیا چاہتا ہے سب کچھ اس نے اس ڈاٸری میں لکھ ڈالا تھا۔۔۔۔
پتہ ہی نا چلا وہ گھنٹوں اس ڈاٸری کو لکھتی ہی چلی گٸی۔

anusinha
 

اشعال کی احمد سے شادی ہونے جا رہی تھی۔۔۔
ویسے احمد ان کا دور کا رشتہ دار بھی تھا۔۔۔احمد کراچی میں ایک پراٸیویٹ کمپنی میں ملازمت کر رہا تھا ۔
تم بس اپنی پڑھاٸی کی طرف دھیان دو چھوڑ دو یہ جنون۔۔۔ تمہیں پتا ہے نا ابا بلکل پسند نہیں کرتے۔ ۔۔۔ اب کی بار تو اشعال روہانسی ہو گٸی تھی۔۔۔
زرداد بنا کچھ کہے وہاں سے جا چکا تھا۔۔۔ ناک اور منہ پھولا ہوا۔۔۔
اشعال آپی پلیز رونا مت ۔۔۔ دانین نے جلدی سے اشعال کو روکا تھا۔۔۔۔ اسے پتا تھا اشعال زرداد کو لے کر بہت حساس ہے۔۔۔
دانی دیکھو نا کتنا ضدی ہے ۔۔۔ کوٸی بات نہیں مانتا میری۔۔۔ اشعال کی آنکھیں ڈبڈبا ہی گٸی تھیں۔۔۔
اف آپی۔۔۔۔ نا کریں نا۔۔۔ دانین گھٹنوں کے بل بیٹھی۔۔۔ اشعال کے آنسو صاف کر رہی تھی۔۔
جبکہ خود اسکا دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔۔۔۔ کہ زرداد کراچی چلا جاۓ گا۔۔۔
❤❤❤❤

anusinha
 

جہاں تھوڑی دیر بعد زرداد بھی موجود تھا۔۔۔
بتاو مجھے۔۔۔ اگر ابا کو پتا لگا تو تمہیں پتا ہے وہ کیا حشر کریں گے تمہارا۔ اشعال زرداد کو سمجھا رہی تھی۔۔۔
لیکن اسے تو جیسے کوٸی ڈر ہی نہیں تھا۔۔
۔ تو کیا ہے۔۔۔ پورے پاکستان کا سنگنگ کمپیٹیشن ہے۔۔۔ میں کونسا جیت ہی جانے والا ۔۔۔ ایک دفعہ قسمت تو آزمانے دیں۔۔۔ وہ جھنجلا کے بول رہا تھا۔۔۔
لیکن تمہیں پتا ہے یہ بات ابا سے چھپی کہاں رہ سکے گی۔۔۔ کراچی آنا پڑے گا تمہیں۔۔۔ اور پھر ٹی وی پہ پوری دنیا دیکھے گی۔۔۔ تمہیں کیا لگتا ابا کو کوٸی کچھ نا بتاۓ گا۔۔۔ اشعال کو اب اس پہ غصہ آ رہا تھا۔۔۔
احمد نے اسے سب بتا دیا تھا۔۔ کہ زرداد کراچی آنا چاہتا ہے گانے کے مقابلے میں حصہ لینے۔۔۔ کسی چینل نے ایک شو شروع کرنا تھا جس میں وہ پورے پاکستان میں سے کسی ایک اچھے گلوکار کو سامنے لانے والے تھے۔۔۔

anusinha
 

وہ زرداد کو پورے ھال میں تلاش کر رہی تھی۔۔۔ پھر سٹیج کے پاس کھڑا وہ کسی کو کوٸی ہداٸت دے رہا تھا۔۔۔
بجلی گراتی شخصیت لیے۔۔۔
زری۔۔۔ زری۔۔۔ وہ تو سن ہی نہیں رہا تھا۔۔۔ کسی سے بات کرنے میں اتنا مصروف تھا۔۔۔
زری۔۔۔ اس نے زور سے آواز دی تھی۔۔ تا کہ موسیقی کی۔ اونچی آواز میں اس کی آواز زرداد کے کانوں تک پہنچ جاۓ۔۔۔
کیا ہے۔۔۔ ماتھے پہ سو بل ڈالے وہ مڑا تھا۔۔۔
اشعال آپی بلا رہی تمہیں۔۔۔ اس نے اپنے منہ کے گرد ھاتھ کا داٸرہ بنا کر کہا۔۔۔
اچھا ۔۔۔ اچھا۔۔۔ ابھی بہت کام یہاں آ جاتا ہوں۔۔۔ اتنی بے رخی سے کہا گیا۔۔۔
ایک دم اس کے رویے نے دل بجھا سا دیا تھا۔۔۔ وہ کل سے ایسا ہی سلوک کر رہا تھا اس سے۔۔۔
زرداد کیوں ایسے کر رہا ہے۔۔۔۔ مسٸلہ کیا ہے۔۔۔ اپنی سوچوں میں گم وہ واپس اشعال کے پاس براٸیڈل روم میں آ گٸی تھی۔۔۔

anusinha
 

زرداد نے مسکرا کے مرر میں منسا پرپھر سے نظر ڈالی تھی۔ جو دھیرے سے مسکرا رہی تھی۔۔۔
❤❤❤
ہلکے سے نارنگی کلر کا موتیوں کے کام والا کپری۔۔ ااور شارٹ شرٹ پہنے۔۔۔ سلیقے سے بالوں کو کرل ڈال کے آگے شانوں پہ ڈالے۔
ہلکا سا اپنی جلد کے ہی ہم رنگ میک اپ میں وہ بہت حد تک اچھی لگ رہی تھی۔۔۔ پر اس کی بڑھی ہوٸی بھنویں۔۔ جو کافی گھنی تھیں۔۔۔ اس کے رنگ کو اور دبا رہی تھیں۔۔۔
وہ اشعال کے ساتھ پارلر میں تھی۔۔
وہ لوگ اب ھال میں پہنچے تھے۔۔۔
۔ اب وہ اشعال کو لے کر ھال کی طرف جا رہی تھی۔۔۔ لیکن نظریں بار بار کہیں زرداد کی ایک جھلک کو دیکھنے کے لیے بے تاب تھیں۔۔۔
دانی۔۔۔ زری کو بلا کر لانا۔۔۔ اشعال نٕے دھیرے سے اس کے کان میں کہا تھا۔۔ جب وہ اسے براٸیڈل روم میں بیٹھا رہی تھی۔۔۔
ہم۔م۔م۔م۔ بلا کر لاتی ہوں۔۔۔ اس کی تو دل کی بات کر دی تھی اشعال نے۔۔

anusinha
 

ہاں ٹھیک ہے ۔۔ میں نیلم کو بلا کر لاتی ہوں۔۔
تھوڑی دیر بعد ثمرہ۔۔ نیلم اور منسا کے ساتھ چلتی ہوٸی گاڑی کی طرف آ رہی تھی۔۔ وہ نیلم اور ثمرہ سے تھوڑا سا پیچھے چل رہی تھی۔۔۔ زمین پہ بڑے ناز سے قدم رکھتی ہوٸی وہ آگے بڑھ رہی تھی۔۔۔
چہرے پہ مسکراہٹ تھی۔۔۔ چہرے پہ سلیقے سے کیا ہوا میک اپ تھا۔۔۔ جو اس کے دلکش چہرے کو چار چاند لگا رہا تھا۔۔۔
بڑے انداز میں زرداد نے گاڑی کا دروازہ کھولا تھا۔۔۔ منسا کے لیے ۔۔۔۔وہ اپنے بڑے سے فراک کو سنبھالتی۔۔ بڑی نازکت سے گاڑی میں بیٹھی تھی۔۔۔
زراد نے اپنی انگلیوں سےٹاٸی کی ناٹ کو پکڑ کر بڑی ادا سے داٸیں باٸیں گھمایا تھا۔۔۔ اور فرنٹ سیٹ پہ بڑی شان سے بیٹھا تھا۔۔۔
وہ درحقیقت۔۔۔ دل کو دھڑکا دھڑکا دینے والی شخصیت رکھتا تھا۔۔۔
ثمرہ زرداد کے ساتھ آگے بیٹھی تھی۔۔۔ اور نیلم اور منسا پیچھے۔۔۔

anusinha
 

بوجھل قدم اٹھاتی وہ وہاں سے بھاگ آٸی تھی۔۔۔
ساری رات۔۔ وہ تکیہ بھگوتی رہی تھی۔۔۔ منال اور کچھ اور لڑکیاں اس کے کمرے میں تھی آج۔۔۔ منال کے کمرے میں نیلم اور منسا کو ٹہرایا گیا تھا۔۔۔۔
روتے روتے جب اسکی آنکھ لگ رہی تھی۔۔۔ تو ہلکی ہلکی اذان کی آواز اس کے کان میں پڑ رہی تھی۔۔۔
❤❤❤❤
یہ نٸی والی گاڑی میں ۔۔ میں کچھ مہمان لے جاتا ہوں میرج ھال تک۔۔
سب لوگ گھر سے باہر تیار ہو کر نکل رہے تھے۔۔۔ زرداد نے آج تھری پیس سوٹ پہنا ہوا تھا۔۔۔ سرخ رنگ کی ٹاٸی۔۔۔ لگاٸی ہوٸی تھی۔۔۔
وہ گاڑی کے پاس آتی ہوٸی ثمرہ سے کہہ رہا تھا۔۔
آپ اور آنٹی نیلم بیٹھ جاٸیں نا ۔۔ وہ کان کھجاتے ہوۓ کہہ رہا تھا۔۔ اسے ثمرہ سے تھوڑی دیر پہلے بات کرتی ہوٸی نیلم اور اسکے پاس منسا کھڑی نظر آگٸی تھی۔۔۔ ۔۔ سر خ رنگ کا لمبا سا فراک تھا۔۔۔ اور وہ اس میں دمک رہی تھی۔۔۔