Damadam.pk
anusinha's posts | Damadam

anusinha's posts:

anusinha
 

بازو کو ایک جھٹکا دے کر چھڑوا ڈالا۔۔۔ چوڑیوں کی کھنک پھر سے گونجی۔۔۔ ایسے جیسے چیخ اٹھی ہوں۔۔۔
اب کیسے جان چھڑواٶں اس سے۔۔۔ خود ہی پھنس کے رہ گیا ہوں زرداد نے بیزار سی شکل بنا کر سوچا۔۔۔
رخ موڑ کر دانین کی طرف پیٹھ کر ڈالی۔۔۔ پر وہ کچی عمر میں۔۔۔ اس سفر پہ نکلی ہوٸی مسافر کیا جانے کہ وہ موا۔۔۔ اس کے جزبات نہیں سمجھتا بس اس کو زیر ہی کرنا چاہتا تھا۔۔
بتاو تو اچھا ۔۔۔۔ سوری۔۔۔ وہ کانوں کو ہاتھ لگاۓ کھڑی تھی۔۔۔
ددونوں ہاتھوں کی چوڑیوں نے بہت شور کیا پر وہ نا سمجھی۔۔۔
دانین یار جاٶ نا پلیز میں بہت تھکا ہوا ہوں۔۔۔ زرداد نے تھوڑی سختی سے کہا۔۔۔
وہ ایک دم گھبرا سی گٸی۔۔۔ پر وہیں کھڑی تھی ابھی۔۔۔
جاٶ نا یار بہت رات ہو گٸی ہے۔۔۔ اور بیزاری دکھاٸی۔۔
اور بازو لمبا کرکے دروازے کی طرف اشارہ کر ڈالا۔۔۔
ایک دم آنکھیں اور دل دونوں بھر آۓ تھے۔۔۔

anusinha
 

زری۔۔۔ ناراض ہو مجھ سے گھٹی سی آنسوٶں میں ڈوبی آواز تھی۔۔۔
نہیں تو۔۔۔
وہ ہی بے رخی۔۔۔۔ کے انداز میں جواب دیا۔۔۔
دانین تھوڑا سا مسکرا کرآگے آٸی تھی۔۔۔ زرداد کے بازو پہ ہاتھ رکھا۔۔
چوڑیوں کی کھنک ایک دم سے کمرے کی خاموشی میں مدھر ساز بجا گٸی تھی
۔ زری۔۔۔ اتنی چاشنی میں گھلی آواز میں اس نے کہا تھا۔
لیکن اس سنگدل پہ کیا اثر۔۔۔جوں کا توں بس خاموش ہی رہا۔۔۔
بولو کیا کوتاہی کر بیٹھی میں اب۔۔۔ پیار بھری آواز۔۔۔
زرداد ان دو ماہ میں اس سے اتنی بار ناراض ہو گیا تھا کہ اسے اب عادت سی ہو گٸی تھی اس کی ناراضگی۔۔۔ کی۔۔۔
دانین کیوں دماغ کھا رہی ہو یار۔۔۔زرداد کو چڑ سی ہورہی تھی۔۔۔

anusinha
 

چاۓ کے کپ کو دھیرے سے تھامے وہ زرداد کے کمرے میں آٸی تھی۔۔۔ رات کے تین بج رہے تھے۔۔۔ کچھ لوگ سو چکے تھے تو کچھ ابھی بھی جاگ رہے تھے۔۔۔ ہلکی ہلکی باتوں کی آواز۔۔۔ لڑکیوں کی کھنکتی ہنسی۔۔۔ اور تایا ابا کی بار بار سونے کی تاکید کی آوازیں۔۔۔ آ رہی تھیں۔۔
ہلکی سی دستک کے بعد وہ بلاتکلف کمرے میں داخل ہوٸی تھی۔۔۔ وہ ہونٹوں پہ گہری مسکراہٹ سجاۓ چھت کو گھور رہا تھا۔۔۔ قمیض اتار کرسی کی پشت پہ ڈال رکھی تھی۔۔۔ شلوار کے اوپر بنیان زیب تن تھی۔۔۔
دانین کو دیکھ کے اس نے عجیب سے طریقے سے بھنویں اچکاٸی تھیں۔۔۔
چاۓ۔۔۔ دانین نے چاۓ کے کپ والا ہاتھ آگے بڑھایا۔۔۔
مجھے نہیں پینی لے جاٶ۔۔۔ روکھا سا انداز۔۔ تھا۔۔۔ وہ اب الماری سے ٹی شرٹ نکال کے پہن رہا تھا۔۔۔۔ چہرے پر عجیب سی بے زاری اور ناگواری کے تاثرات تھے۔۔۔

anusinha
 

وہ ایسے ہی بجلی گرا دینے والی تھی۔۔۔ اسے اچھا لگتا تھا ۔۔ خود پہ یوں۔۔ لڑکوں کا لٹو ہو جانا۔۔۔ یہ سب اسکے غرور میں اضافہ کرنے کی وجہ بنتا تھا۔۔۔
وہ کبھی کبھی چور سی نظروں سے اسے دیکھ لیتی تھی۔۔ جو بھی ہو زرداد کے خوبرو چہرے نے چھکے تو اس کے بھی چھڑوا دیے تھے۔۔۔
دانین کی اور منال کی بھاگ دوڑ لگی ہوٸی تھی مہمانوں کو سنبھالنے میں۔۔۔ پھر بھی وہ آتے جاتے۔۔۔ زرداد کو دیکھ کر اپنی بے چین روح کو سکون دے رہی تھی۔۔۔ ان دو مہینوں کے اندر اندر وہ بری طرح۔۔۔ زرداد کی محبت میں جکڑی جا چکی تھی۔۔۔۔
زردادکیوں ناراض ہے۔۔۔ دانتوں سے ہونٹوں کو کچلتے ہوۓ اس نے سوچا۔۔۔ غلطی تو نہیں ہوگٸی کوٸی مجھ سے۔۔۔بار بار ذہن اپنی کسی ایسی کوتاہی کو تلاش رہا تھا جو اس سے انجانے میں ہو گی ہو۔۔۔ اور زرداد ناراض ہو گیا ہو۔۔۔
❤❤❤❤

anusinha
 

کیوں تم کیوں پوچھ رہے ہو۔۔۔ منال نے شرارت سے اپنا کندھا زرداد کے کندھے کو مارا۔۔۔
کچھ نہیں۔۔۔ ویسے ہی پوچھ رہا تھا۔۔۔ زرداد نے خجل سا ہو کر اپنے ہونٹوں پہ زبان پھیری۔۔۔
اوہ ۔۔ اچھا۔۔ یہی بات ہے نا۔۔۔ میرے ہیرو۔۔ منال نے شوخی کے سے انداز میں پوچھا۔۔۔
بلکل زیادہ شوخی مت ہو۔۔ زرداد نے اپنی قمیض کو جھٹکا دیا۔۔۔
اچھا بات سن نام کیا ہے اس کا۔۔ منال اس کے روکھےرویے کو دیکھ کے کندھےاچکا کےجانے لگی تو پیچھے سے زرداد نے آواز دی تھی ۔۔۔
منسا۔۔۔ منسا نام ہے ۔۔۔ منال کی شوخی پھر سے لوٹ آٸی تھی۔۔۔
پر وہ تو اس کے نام کو زیرِلب دھرا رہا تھا۔۔ واہ کیا نام ہے۔۔۔ منسا۔۔۔ منسا۔۔۔
کیا ہوا ہے تجھےکیا بڑابڑا رہا۔۔۔ بدرنے ایک دم سے پیچھے زور کی تھپکی دی تھی۔۔۔
کچھ نہیں۔۔۔ زرداد کی نظر بار بار منسا پہ پھسل پھسل جا رہی تھی۔۔

anusinha
 

پتہ ہی نا چلا کب وہ چلتا ہوا منال کے بلکل پاس کھڑا تھا۔۔۔ نظریں۔۔۔ اس اپسرا کے دلکش چہرے پہ ٹکی تھی۔۔۔
کیا ہوا زری۔ منال نے اس کویوں پاس کھڑادیکھ کر پوچھا۔۔۔
بات سننا ذرا میری منال کے کان میں سرگوشی کی۔۔۔
منال اس کے ساتھ چلتی۔۔۔ برآمدے کے دروازے کے پاس آ گٸی تھی۔۔۔
کون ہے یہ۔۔۔ کان کھجاتے ہوۓ اپنے دل کے تاثرات چھپاتے ہوۓ۔۔ وہ منال سے سرگوشی کے انداز میں پوچھ رہا تھا۔۔۔
نیلم آنٹی کی بھتیجی لگتی سسرال کی طرف سے۔باہر سے آٸی ہے۔ منال نے کن اکھیوں سے اس کے انداز کو جانچا اور اپنی ہنسی چھپاتے ہوۓ کہا۔۔۔
نیلم ثمرہ کی خالہ زاد تھی۔۔ ویسے توآنا جانا کم ہی تھا۔۔۔ یہ لوگ حیدر آباد کے رہنے والے تھے اور وہ۔۔ لاہور رہتی تھیں ۔
نیلم کی شادی اچھے کھاتے پیتے گھرانے میں ہوٸی تھی۔۔۔ اس لیے جب کبھی شادیوں میں آتی تو اچھی آٶ بھگت کی جاتی تھی اسکی۔۔۔

anusinha
 

دانین نے پیار بھری نظروں سے زرداد کو دیکھا۔۔۔۔۔
ہم۔م۔م۔م۔ وہ خود پہ سینٹ کا چھڑکاٶ کر رہا تھا۔۔۔۔
وہ تھوڑا اکھڑا اکھڑا سا لگا تھا۔۔۔
۔چلیں نیچے۔۔ وہ یہ کہہ کر تیزی سے نیچے کی طرف چلا گیا تھا۔۔۔
اور اسکا ہاتھ ہوا میں تھوڑا سا اوپر اٹھا تھا۔۔۔ کانچ کی چوڑیاں کھنک سی گٸی تھیں۔۔۔ اس کے زبان کے الفاظ کے ساتھ۔۔ جو یہ کہنے جا رہے تھے۔۔۔ کہ ”کیا ہوا زرداد تم ناراض ہو مجھ سے۔ “ ہا تھ اسکا ہوا میں ہی رہ گیا تھا اور بات اس کی دل میں ہی رہ گٸی تھی۔۔۔
اب وہ اسے سیڑھیاں پھلانگتے ہوۓ نیچے جاتا دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
پھر ایک پھیکی سی مسکراہٹ اس کے چہرے پہ آٸی تھی۔۔۔ وہ آج اتنے دل سے تیار ہوٸی تھی۔۔
بوجھل قدم اٹھاتی۔۔۔۔ وہ واپس جا کر خود کو زرداد کے کمرے کے آٸینے میں دیکھ رہی تھی۔۔۔

anusinha
 

اوپر سٕے اس کے بناٶ سنگھار نے اسے اور دلکش بنا دیا تھا۔۔۔
جب وہ کمرے میں داخل ہوا تو وہ اک دم سے مڑی تھی۔۔۔
پہلے کچھ حیران سی ہوٸی۔۔۔ پھر کچھ پریشان سی ہوٸی۔۔۔ پھر کچھ گھبرا سی گٸی تھی۔۔۔ وہ دروازے کو بازو کھول کے بند کرنے کے سے انداز میں کھڑا۔۔اسے مسلسل تاڑے جا رہا تھا۔۔۔۔
م۔م۔مجھے۔۔۔ آنٹی نے بھیجاتھا اوپرکہ فری ہے ڈریسنگ ۔۔۔ وہ زرداد کو یوں اپنے سامنے دیکھ کر گھبرا سی گٸی تھی۔۔۔
اٹس اوکے۔۔۔ زرداد نے بڑی خوش دلی سے کہا۔۔۔۔
وہ زرداد کے دیکھنے سے پریشان سی ہو کر تیزی سے وہاں سے نکلنے کے لیے بلکل اس کے سامنے آ گٸی تھی۔۔۔
اف۔۔۔ آج گٹار کی طرح اس کے دل کے تار بجنے لگے تھے۔۔
راستہ دے دیں پلیز۔۔۔ لڑکی نے بڑے انداز سے کہا تھا۔۔۔
اداٸیں ۔۔۔ بھی۔۔۔ ہیں۔۔۔۔ میرے۔۔۔ محبوب ۔۔۔ میں۔۔۔
گانے کے بول زرداد کے ذہن میں گونجنے لگے تھے۔۔۔

anusinha
 

تو نا کر اب بس وہ تو ساری ڈوب چکی نا اب چھوڑ دے اس کا ہاتھ اور نکل آ اس سمندر سے باہر اکیلا۔۔۔۔ بدر نے آنکھ دباتے ہوۓ کہا۔۔۔۔
ہمم۔م۔م۔م۔ کہ تو ٹھیک رہا ہے۔۔۔ اس نے تھوڑی پریشانی میں سوچا۔۔۔
❤❤❤❤❤
اشعال کی مہندی تھی آج۔۔۔ گھر مہمانوں سے بھرا پڑا تھا ۔۔ آج توسب رشتہ دار گھر پہنچ چکے تھے۔۔۔
زرداد اور شازر کی تو پھرکی گھومی پڑی تھی آج کام کر کر کے۔۔۔ اب جا کہ وہ فارغ ہواتھا تو سوچا کہ اپنے بھی کپڑے تبدیل کر آتا ہوں ۔۔۔ یہ سوچ ذہن میں آتے ہی وہ اوپرلمبے لمبے ڈگ سے سیڑھیاں پھلانگتا اپنے کمرے میں آیا تھا۔۔۔۔
جیسے ہی کمرے میں داخل ہوا تو ایک دم سے رکنے پہ مجبور ہوگیا۔۔۔۔
کوٸی۔۔۔ لڑکی۔۔۔ اپنے پورے جلوے لیے۔۔۔ اس کے ڈریسنگ میز کے سامنے کھڑی تھی۔۔۔
دمکتی رنگت۔۔۔ چمکتی آنکھیں۔۔ گلابی ہونٹ۔۔سرو قد
۔ ایک تو وہ خوبصورت بہت تھی۔۔۔

anusinha
 

دل غلطی کر بیٹھا ہے۔۔۔۔
قلم از ہماوقاص۔۔۔
قسط نمبر 3
میں نا تمہیں کہتا تھا۔۔۔کہ بس یہ چلا تمھارا جادو۔۔۔ اور وہ گٸی اس کی اکڑ۔۔۔ بدر نے ھاتھ کا اشارہ آسمان کی طرف کیا۔۔۔
یار لیکن کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا اب مجھے۔۔۔ زرداد نے سگریٹ کا کش لگایا اور پھر منہ کو تھوڑا سا اوپر کر کے دھواں منہ سی نکالا۔۔۔دھواں اب ہوا میں گھلنے لگا۔۔۔
کیا مطلب کیا ٹھیک نہیں لگ رہا پاگل سارا دن تیرے ناک میں دم کر رکھتی تھی۔۔۔۔ اور اب دیکھنا تو اس دفعہ وہ بھی فیل نہ ہوٸی میڈیکل میں تو نام بدل دینا اپنے اس جگر کا۔۔۔ اپنے سینے پہ ہاتھ رکھ کے بڑے فخر سے کہہ رہا تھا وہ۔۔۔
یار وہ بہت ہی زیادہ سنجیدہ ہے۔۔۔ مجھے اب کوفت ہوتی ۔۔۔ اور ایکٹنگ کر کر کے۔۔۔۔ زرداد نے بے زاری سے سگریٹ کو ہوا میں اچھال دیا۔۔۔

anusinha
 

کچی عمر میں۔۔۔ محبت کے سمندر میں بنا تیراکی سیکھے ہی غوطہ لگا چکی تھی۔۔۔ اب ڈوبنا تو طے پایا تھا۔۔۔
❤❤❤

anusinha
 

وہ تیزی سے اپنی بے ترتیب دھڑکنیں سنبھالتی نیچے کو بھاگی۔۔۔۔۔
پیچھے سے اسے زرداد کا ایک جان دار قہقہ سناٸی دے رہا تھا۔۔۔جسے وہ کسی اور انداز میں لے گٸی۔۔۔
جبکہ زرداد نے قہقہ کسی اور وجہ سے لگایا تھا۔۔۔۔۔
❤❤
سب سے چھپ کے اب زرداد کو دیکھنا۔۔۔۔ اس کے لیے دل سے چاۓ بنانا۔۔۔۔جب وہ گٹار بجاتا اس کے پاس گھنٹوں بیٹھے رہنا۔۔۔یہ سب اب دانین کو بہت اچھا لگنے لگا تھا۔۔۔
پڑھنے کو کتاب کھولتی تو زرداد کی کچھ باتیں ذہن میں گھومنے لگتیں۔۔۔ وہ کھو سی جاتی۔۔۔۔لب مسکرانے لگتے ۔۔۔ انجانے احساسات دل پہ گدگدی کرنے لگتے۔۔۔۔گھنٹوں ۔۔۔ دم سادھے۔۔۔ بستر پر اس کی اپنے اوپر گڑی ان آنکھوں کے بارے سوچتی رہتی۔۔۔ پاس پڑی کتاب کے صحفے۔۔۔ پنکھے کی ہوا کے ساتھ اتھل پتھل ہو ہو کر پاگل ہوۓ جاتے۔۔۔۔۔پر وہ تو پگلی ہو چکی تھی۔۔

anusinha
 

کوٸی ضرورت نہیں تھی۔۔۔ وہ ابھی تک خفا تھا۔۔۔۔
دانین کا دل بیٹھا جا رہا تھا۔۔۔ مجھے ضرورت ہے۔۔۔ اس نے ہلکی سی آواز میں کہا۔۔۔
کیوں۔۔۔ اس دن تو ایسے اپنے کمرے سے نکالا تھا مجھے جیسے میں تمھیں کھانے لگا ہوں۔۔۔۔ بڑی خفگی کےانداز میں زرداد نے کہا۔۔۔
دانین اپنے دونوں ہاتھوں کو مسلنے لگی۔۔۔ مجھے معاف کردو پلیز۔۔۔ روہانسی سی آواز میں کہا۔۔۔۔
ہم۔م۔م۔م۔ وہ گٹار ایک طرف رکھ کے سیدھا ہوا۔۔۔ تو بس ہو ہی گٸی میرے آگے اس کی اکڑ کی۔۔۔ زرداد نے کیمنگی سے سوچا۔۔۔
زہر لگ رہی تھی اس وقت اسے وہ اپنے سامنے بیٹھی۔۔۔۔
چاۓ کا کپ ا ٹھا کر اپنے منہ کو لگایا اور پیار بھری نظروں سے اسے دیکھا۔۔۔۔ وہ جو اسے پہلے ہی محبت سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔ ایک دم سے سٹ پٹا سی گٸی۔۔۔
زرداد کو اس کی بے چینی پہ ہنسی آ گٸی۔۔۔

anusinha
 

پھر چاۓ کپ میں انڈیلتے انڈیلتے۔۔۔ اس کے ہاتھ دھیرے سے کانپ رہے تھے۔۔۔۔
چاۓ کا کپ لے کر وہ زرداد کے کمرے کے آگے بند دروازے کو گھور رہی تھی۔۔۔۔
پھر اپنے من بھاری ہاتھ کو دل کی بے تابی کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس نے اٹھایا تھا اور دروازے پہ دستک دے ڈالی۔۔۔
وہ گٹار پہ کسی دھن کو بجا رہا تھا۔۔۔۔ جو اسے باہر بھی سناٸی دے رہی تھی۔۔۔۔ اس کا کمرہ چھت پر بھی اس ہی لیے تھا کہ گٹار کی اور اس کے گانے کی آواز نیچے نا جاۓ۔۔۔
دستک کے بعد اس نے دروازہ کھولا تھا ۔
وہ سامنے اپنے پورے جلوے لیے بیٹھا تھا۔۔۔ اس کا چین تک چرا لینے والا۔۔۔
زرداد نے چہرہ اٹھا کے اوپر دیکھا۔۔۔۔۔ اور پھر ایسے بے نیازی دکھاٸی کہ جیسے وہ ہے ہی نہیں۔۔۔
وہ دھیرے سے چاۓلے کر اس ک پاس آٸی تھی۔۔۔
اور کپ زرداد کے پاس رکھ دیا۔۔۔
چاۓ۔۔۔ تمہارے لیے۔۔۔ مدھم سی آواز گونجی تھی۔۔۔

anusinha
 

ابھی دانین میز کے پاس ہی آٸی تھی۔۔کہ وہ ناک پھلا کر اس کے پاس آیا۔۔۔ اکیلی بنیان پہن رکھی تھی۔۔۔ اس کے مظبوط۔۔۔ بازو اور چوڑا سینا۔ اسے ایک پل میں ڈھیر کر دینے کی حد تک دلکش بنا رہے تھے۔۔۔۔
چھوڑو ۔۔۔ کوٸی ضرورت نہیں۔۔۔ میری شرٹ کو ہاتھ مت لگانا۔۔۔اس نے جھٹکے سے اپنی شرٹ وہاں سے اٹھاٸی تھی۔۔۔۔
ہٹو یہاں سے۔۔۔ وہ اسے استری کے پاس سے ہٹنے کا کہ رہا تھا۔۔۔
ایک دم سے آنسوٶں کا گولا سا تھاجو اس کے گلے میں اٹک گیا تھا۔۔۔۔
وہ تیزی سےوہاں سے بھاگی تھی۔۔۔ اس سے پہلے کےزرداد اس کے گالوں پہ بہتے اس کے آنسو دیکھ لیتا۔۔۔۔
*************
چاۓ کا پانی کیتلی میں بار بار ابال کھا رہا تھا اور وہ۔۔۔پاس خاموش کھڑی تھی۔۔۔۔ ناخن بار بار دانتوں میں ڈالے وہ اپنے دل کو قابو کرنے کی ناکام کوشش میں لگی رہی۔۔

anusinha
 

نہیں ملازمہ نہیں۔۔۔ کچھ اور تو ہو میرے لیے۔۔۔ اپنے جھوٹے جزبات دکھاتے ہوۓ وہ آگے آیا تھا۔۔۔۔
کہ۔۔۔کہ۔۔۔۔کیا مطلب سمجھی نہیں میں۔۔۔ اس نے زرداد کو اس سے پہلے کبھی ایسے نہیں دیکھا تھا۔۔۔
پتہ نہیں خود بھی سمجھ نہیں پاتا ہوں میں کہ کیا ہو تم میرے لیے۔۔۔۔ زرداد نے دھیرے سے اس کے ہاتھ کو تھا ما تھا۔۔۔
دانین بدک کے پیچھے ہوٸی تھی۔۔۔۔
زرداد پلیز۔۔۔۔ میرے کمرے سے نکل جاو اسی وقت۔۔۔ دانین کی دھڑکنیں بے ترتیب ہو کر ایسے شور کرنے لگی تھیں۔۔ کہ وہ گھبرا گٸی تھی۔۔۔ کہ ایسے کیوں ہوا۔۔۔۔
پلیز زرداد چلے جاٶ ۔۔۔۔اس نے دھکے کے سے انداز میں زرداد کے سینے پہ ہاتھ رکھ کے اسے باہر کو دھکیلا۔۔۔۔
وہ ناک اور منہ دونوں پھلا کے تیزی سے باہر نکل گیا۔۔۔
اور وہ اپنے دھڑکتے دل کو لے کر فرش پہ بیٹھتی ہی چلی گٸی۔۔۔۔
***********

anusinha
 

مار دیں پھر مجھے۔۔۔۔ وہ ہارون کی انکھوں میں انکھیں ڈال کے کھڑا تھا۔۔۔
ہارون کا زناٹے دار تھپڑ اس کا گال جلا گیا تھا۔۔۔۔
وہ تیزی سے ناک پھولا کے کمرے سے دروازہ مارتے ہوۓ نکل گیا تھا۔۔۔
***************************************************
دانین یہ۔۔۔ دانین وہ۔۔۔ میں دکھاتا ہوں سب کو دانین بھی کیا ہے ۔۔۔
وہ رات کو غصے کی حالت میں دانین کےکمرے کے دروازے کے سامنے کھڑا تھا۔۔۔۔
تھوڑی سی دروازے پہ دستک دے کراب وہ کمرے میں داخل ہو گیا تھا۔۔
زری۔۔۔۔ کیسے چلےآۓ ایسے کمرے میں۔۔۔۔ دانین نے خفگی کے سےانداز میں جلدی سے ایک طرف پڑا اپنا دوپٹہ اٹھا کر گلے میں لیا۔۔۔
چاۓ بنا دو مجھے۔۔۔ خود پہ بہت کنٹرول کر کے کھڑا تھا وہ۔۔۔۔
کیوں ۔۔۔ میں تمھاری ملازمہ ہوں کیا۔۔۔ اسے اس کی بے تکلفی۔۔ کھٹک رہی تھی۔۔۔

anusinha
 

وہ تو مجھے بھی ہے تمھارے۔۔۔۔۔ پہ تم بھی پیتے ہو۔۔۔ زرداد نے دانت پیستے ہوۓ شازر کو کہا۔۔۔ اس کو تو ویسے بھی وہ کسی کھاتے میں نہیں لاتا تھا۔۔۔
میں۔۔۔ میں کب پیتا ہوں۔۔۔ شازر جزبز سا ہو گیا تھا۔۔۔۔ پر اس کے بعد وہ بولا کچھ نہیں۔۔۔
تمہیں اتنے مہنگے سکولوں میں پڑھایا۔۔۔ اتنی محنت کی تم پر ۔۔ اتنی میں شازر پر کرتا تو وہ آج کچھ کا کچھ ہوتا۔۔۔۔ ہارون اس پر کھڑے چیخ رہے تھے۔۔۔
تو نا کرتے نا احسان مجھ پر۔۔۔ وہ اب بدتمیزی سے اٹھا تھا۔۔۔
دیکھا۔۔۔ دیکھا ۔۔ اس کو۔۔۔ ہارون نے سکندر کو دیکھتے ہوۓ کہا۔۔۔
تم سے اچھی تو وہ دانین ہے۔۔۔ اس کی وجہ سے سر فخر سے اٹھا کے نکلتا میں گھر سے۔۔۔۔ کوٸی پوچھتا یہ آپ کی بچی ہے سینا چوڑا ہو جاتا میرا۔۔۔ ہارون کے لہجے میں تلخلی تھی۔۔۔
دانین ۔۔دانین۔۔۔ ۔۔ اس نے غصے سے دانت پیسے۔۔۔
ہاں پیتا ہوں میں سگریٹ۔۔۔

anusinha
 

ہارون نے زرداد کی طرف ناگواری سے ہا تھ کااشارہ کرتے ہوۓ کہا۔۔۔
وہ چار لوگ۔۔ ہارون کے کمرے میں تھے۔۔۔ زرداد۔۔ شازر۔۔۔ اور سکندر۔۔۔
سکندر نے سوالیہ انداز میں پہلے زرداد کی طرف دیکھا پھر ہارون کی طرف۔۔۔
سگریٹ بھی پینا شروع کر دی ہے۔۔ تمھارے لاڈلے نے۔۔۔ ہارون نے دانت پیستے ہوۓ سکندر کو کہا۔۔۔
وہ بدر لفنگے کے ساتھ دوستی ہے اسکی۔۔۔ جو الٹےکام وہ کرتا ہے وہی یہ کرتا ہے۔۔۔زرداد نے سر تھوڑا سا اور نیچے کیا۔۔۔
پوچھو اس سے کتنا اور زلیل کرنا مجھے ۔۔۔ پڑھتا وہ نہیں یہ مار کٹاٸی کرتا رہتا۔۔۔ ہارون کا بس نہیں چل رہا تھا وہ اس ناہنجار پر تپھڑوں کی بارش کر دیں۔۔۔
زری۔۔۔ بابا سچ کہ رہے ہیں کیا۔۔۔ سکندر لہجے میں نرمی لاتے ہوۓ بولے۔۔۔
چاچو سگریٹ کا مجھے بھی شک تھا اس پر۔۔۔ شازر نے اسے جھاڑ پلانے میں اپنا حصہ ڈالہ۔۔۔

anusinha
 

ایک وہ تھی جس کو زرداد کی آنکھوں کی مسلسل تپش پگھلا رہی تھی۔۔۔۔ کھانا بھی نہیں کھایا جا رہا تھا۔۔۔
وہ تھوڑا سا کھاکر اٹھنے لگی۔۔۔
دانی۔۔۔ کھانا کیوں اتنا کم کھایا بیٹا۔۔۔۔ ہارون نے فوراََ اسے کہا۔۔۔
تایا ابا بس آج دل نہیں کر رہا۔۔اس نے اپنی گھبراہٹ کو چھپایا۔۔۔ جب کے زرداد کے ہونٹوں پر گہری مسکراہٹ تھی۔۔۔
دانی یہ اچھی بات نہیں ہے۔۔۔ اتنا پڑھتی ہو بیٹے۔۔۔وہ خفگی سے کہ رہے تھے۔۔۔
وہ معضرت کرتی وہاں سے چلی گٸی۔۔۔۔
چل گیا نا میرا۔۔جادو۔۔۔۔۔ زرداد کو سکون سا ملا اس کی ایسی حالت دیکھ کے۔۔۔ وہ دل ہی دل میں ہنس رہا تھا۔۔۔
شازر ،سکندر، اور زرداد تم تینوں کھانے کے بعد کمرے میں میری بات سنو آکر۔۔۔ ہارون پریشان سی شکل بنا کر پاس پڑے ہوۓ رومال کے ساتھ ہاتھ صاف کر کے اٹھ گیے۔۔۔
پوچھو اس سے یہ باہر کیا کرتا پھرتا آج کل۔۔۔