صبح اسکا کلاس ٹیسٹ تھا کیمسٹری کا پر اسے کچھ یاد نہیں رہا تھا۔۔۔۔
یاد تھا تو صرف یہ کہ اسے آج زرداد نے کہا تھا کہ تم بہت پیاری لگ رہی ہو۔۔۔۔۔ اس زرداد نے یہ کہا تھا جس پر ہزاروں خوبصورت لڑکیاں مر مر جاٸیں۔۔۔ وہ زرداد جو گھر سے باہر نکلتا تھا تو محلے کی لڑکیاں ۔۔
بہانے سے اپنے گھر کی کھڑکیوں کے باہر کو کھلنے والے پٹ کھول دیتی تھی۔۔۔ وہ زرداد ۔۔۔ جس سے بچپن سے لے کر اب تک اس کی لڑاٸی ہی ہوتی آٸی تھی۔۔۔۔ وہ زرداد جو محلے بھر میں بد دماغ۔۔۔ بد تمیز ۔۔۔ لڑاکا ۔۔۔ نکما۔۔۔۔ بے کار مشہور تھا۔۔۔۔
آخری خصوصیات ذہن میں آتے ہی اس کا دل برا سا ہو گیا۔۔۔ دل کو سرزش کیا اور آنکھوں کو زور سے بند کر لیا۔۔۔۔ اور کتنی ہی سورتیں پڑھ ڈالی۔۔۔
****************
دوپہر کے کھانے کے لیے بیٹھے سب خاموشی سے کھانا کھا رہے تھے۔۔۔
زرداد کے اس انداز پہ وہ اچانک نظریں جھکا بیٹھی تھی۔۔
پھر اس کے بازو کے نیچے سے گزرتی ہوٸی وہ بھاگی تھی۔۔۔۔ ھاتھوں کو ماتھے کو پسینہ آرہا تھا۔۔۔ اس کے ساتھ زندگی میں پہلی دفعہ ایسا ہوا تھا۔۔۔
اسے اپنی کیفیت خود سمجھ نہیں آ رہی تھی۔۔۔۔
پھر پورا فنگشن زرداد اپنے ہونٹوں پہ قاتل مسکراہٹ سجاۓ ۔۔۔ آنکھوں میں بھر پور پیار سجاۓ۔۔۔ اسے گھورتا رہا۔۔۔۔ ۔
وہ زرداد کے اس انوکھۓ سے انداز پہ بری طرح خجل تھی۔۔
تھوڑی دیر سب کے ساتھ گزارنے کے بعد وہ اپنے کمرے میں تھی۔۔۔۔
اس نے اپنے ماتھے پہ آیا ہوا پسینہ صاف کیا۔۔۔۔۔ دل بھی ہلکی سی ردھم سے دھڑکنے لگا تھا۔۔۔۔
وہ جلدی سے کپڑے بدل کے آٸی۔۔۔۔۔۔ اور لیٹ گٸی۔۔۔۔ وہ دیر تک پڑھتی تھی۔۔۔ لیکن آج تو پڑھنے کو بھی دل نہیں تھا۔۔۔ زرداد کی باتیں۔۔۔ اس کی انکھیں دماغ میں کہیں گڑ سی گٸ تھی۔۔۔۔
بڑے معنی خیز انداز میں کہا گیا۔۔۔۔وہ اس پر پوری طرح نظریں گاڑے کھڑا تھا۔۔۔
کہ۔۔کہ۔۔کیامطلب ۔۔۔ اس کی نظروں ۔۔ اس کے انداز اور اس کے منہ سے نکلے اپنی تعریف کے الفاظ نے اسے گڑبڑا سا دیا تھا۔۔۔
مطلب یہ کے تم بہت پیاری لگ رہی ہو۔۔۔۔ وہ تھوڑا سا اوپر ہوا اور اس کے کان میں سرگوشی کی۔۔۔۔۔
دانین کو عجیب سا احساس ہوا۔۔۔ ایسا احساس جس سے وہ انجان تھی۔۔۔
ہٹو ۔۔۔زری۔۔۔۔ اس نے الجھتے ہوۓ اسے کہا۔۔۔
مجھے پتہ ہے میں کتنی پیار ی ہوں۔۔۔اس نے ماتھے پہ بل ڈال کر کہا۔۔۔اور اس کے بازو پہ ہاتھ رکھ کے اس سے راستہ مانگا وہ ویسے بھی بہت دن سے اس کے عجیب طریقے سے دیکھنے سے الجھن کا شکار تھی۔۔۔ اب اس کی باتیں اور پریشان کر رہی تھی۔۔۔۔
میری نظر سے دیکھو تو پتا چلے تم کتنی خوبصورت ہو۔۔۔بہت سی فلموں میں بولے ہوے بول بھی زرداد کو اسے یوں بولنے مشکل ہو رہے تھے۔۔۔۔
پھر گاڑی آسکریم پارلر کے آگے روکی تھی۔۔۔۔ اور اس پر ایک مسکراہٹ ڈالتا ہوا باہر نکل گیا۔۔۔۔
وہ سارا راستہ اس کی نا سمجھ آنے والے انداز اور نا سمجھ آنے والی باتوں میں الجھی رہی۔۔۔۔
***************************************************
تم نہیں نیچے آو گی آج کے دن تو آجاٶ۔۔۔ منال اس کے سامنے کھڑی خفگی سے کہ رہی تھی۔۔۔
آج اشعال کی شادی کی تاریخ رکھی جا رہی تھی۔۔۔گھر میں بڑی ہلچل تھی۔۔۔ شازر اور زرداد صبح سے بازار کے چکر لگا رہے تھے۔۔۔اور ثمرہ اور سدرہ کچن میں گھسی ہوٸی تھیں۔۔۔ چند رشتہ دار بھی بلاۓ گۓتھے۔۔۔
منال نے اس کے بھی کپڑے استری کر دیے تھے ۔۔ اب وہ اسے بلانے آٸی تھی کہ وہ بھی آۓ اور تیار ہو جاۓ۔۔۔
دانین کتابوں میں گھسی پڑھنے میں مصروف تھی۔۔ جب منال اوپر آٸی۔۔۔۔
اچھا چلو میں آتی ہوں۔۔۔
جس کے ساتھ یہ دیوانہ وار چاہت کا ناٹک بھی اسے مشکل لگ رہا تھا۔۔۔
ہم۔م۔م۔۔م۔۔ آسکریم۔۔۔ کھاوگی۔۔۔سوالیہ نظروں سے دانین کی طرف دیکھا۔۔۔
ہیں۔۔۔ کیا کہا۔۔۔ وہ حیرت دیکھتے ہوۓ بولی۔
۔۔آسکریم کا پوچھ رہا ہوں۔۔۔۔ اس نے گلاسز اتارے۔۔۔ کھاٶگی کیا۔۔۔ بڑی معنی خیز نظروں سے دیکھا۔۔۔
مجھے ایک بات نہیں سمجھ آ رہی۔۔۔۔ دانین نے رخ زرداد کی طرف پوری طرح موڑ لیا تھا۔۔۔ اور خشک ہوتے ہونٹوں پہ زبان پھیری۔۔۔
تم ۔۔۔ یہ سب ۔۔۔ کس لیے ہاں۔۔۔ دانین نے انگلی کو داٸیں باٸیں لہراتے ہوۓ کہا۔۔۔
پتا نہیں ۔۔۔ خود بھی نہیں سمجھ پا رہا۔۔۔ زرداد نے بڑے معصوم انداز میں کان کھجایا۔۔۔
سمجھی نہیں میں۔۔۔ دانین کو واقعی اس کی بات بلکل سمجھ نہیں آٸی تھی۔۔۔
ابھی تو مجھے خود سمجھ نہیں آ رہی۔۔۔ تو تمہیں کیا سمجھا پاٶں گا اس نے گلاسز دوبارہ سے پہنتے ہوۓ کہا۔۔۔۔
وہ کالج سے باہر نکلی تو بڑے وقت پہ آج وہ باہر کھڑا تھا۔۔۔ گاڑی سے پیٹھ لگا کے وہ دونوں ٹانگوں کو کراس کی شکل دے کر کھڑا تھا۔۔۔
سیاہ سن گلاسز اس کی خوبصورتی کو اور چاند چار لگا رہے تھے۔۔۔
دانین کو دیکھ کر اس نے اپنی ھتھیلی کو اوپر اٹھا کر ہوا میں لہرایا۔۔۔ ہونٹوں پہ بڑی جازبِ نظر مسکراہٹ سجاۓ وہ اس کے لیے فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھول رہا تھا۔۔۔۔
تم ٹھیک ہو نا زری۔۔۔اس نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔۔۔۔
وہ بنا کوٸی جواب دیے اب گاڑی کی فرنٹ سیٹ پہ بیٹھ رہا تھا۔۔۔۔
زرداد نے چور نظروں سے اس کی طرف دیکھا تھا۔۔۔۔
سفید یونیفارم میں وہ اور زیادہ سانولی لگ رہی تھی ۔۔۔ واضح تھی تو چہرے پر بس اس کی کالی بڑی سی آنکھیں اور ان کے اوپر جھالر کی طرح گرتی۔۔۔ اس کی پلکیں ۔۔ وہ عام سی شکل کی لڑکی تھی۔۔
یہ زرداد کا تیسرا گٹار تھا۔۔۔ جو ابھی تک ھارون کی نظر سے بچا ہوا تھا۔۔۔
وہ سکول سے لے کر کالج تک۔۔ گانے کے مقابلے کے ہر بڑے لیول پر جیتا تھا۔۔۔ لیکن ہارون اس کے گاناگانے کےبہت خلاف تھے۔۔
آہ۔۔۔ تھنکیو۔۔۔۔ اس نے دانین کے ھاتھ سے چاۓ کا کپ لیا ۔۔۔
تم بازنہیں آٶ گے نا۔۔۔ دانین نے اس کے گٹار کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا۔۔۔
یہ تو جنون ہے میرا۔۔۔۔ وہ گٹار کو ایک ہاتھ سے اٹھا کر اپنے سینے سے لگا کر بولا۔۔۔
ویسے۔۔۔ ہم۔۔۔م۔۔م۔۔م۔ چاۓ بہت اچھی ہے۔۔۔ زرداد نےچاۓ کا کپ ہونٹوں سے ہٹاتے ہوۓ کہا۔۔۔۔
اچھا۔۔۔ شکریہ۔۔۔ ۔۔دانین کو حیرت ہو رہی تھی۔۔۔ پہلی دفعہ وہ اسکی تعریف کر رہا تھا۔۔۔
وہ حیرت زدہ سی اس کے کمرے سے باہر آ گٸی تھی۔۔۔
****;;*******************
دوسرا۔۔وہ سب سے زیادہ گھر میں ذہین تھی۔۔۔
جب کبھی کوٸی غلطی سے اسے کوٸی کام کہہ بھی دیتا تو ہارون اس کی کلاس لے ڈالتے۔۔۔ انھیں بڑا مان تھا اپنی بھتیجی پہ کہ وہ ڈاکٹر بنے گی۔۔۔
ہاں کبھی کبھار خود کےلیے چاۓ بنا لیتی تھی۔۔۔ رات گیے تک پڑھنا ہوتا تھا تو اکثر رات کو چاۓ بنا کے پیتی تھی وہ۔۔۔
آج بھی وہ خود کے لیے چاۓ ہی بنانے کھڑی تھی۔۔۔۔ جب زرداد کچن میں آیا۔۔۔
چہرے پہ تھوڑی دیر والی بحث کا کوٸی نام و نشان نہیں تھا۔۔۔۔
سنو میرے لیے بھی بنانا ایک کپ۔۔۔ پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے وہ بلکل اس کے پیچھے کھڑا تھا۔۔۔
کیوں۔۔۔ وجہ۔۔۔ میں صرف اپنے لیے ہی بناتی ہوں چاۓ۔۔۔ اور بات سنو۔۔۔ خیریت ہے نا۔۔۔ تم کب سے میرے ہاتھ کی بنی چاۓ پینے لگے۔۔۔۔ وہ چاۓ والے چمچ کو داٸیں ہاتھ میں گھوما رہی تھی۔۔۔۔
سوچ لو۔۔۔۔
زرداد کو سر چڑھانے والوں میں سے سکندر کے بعد دوسرا نام۔۔۔ اشعال کا تھا۔۔۔ زرادد کو وہ بہت لاڈ کرتی تھی۔۔۔
اچھا تو پہلے بھی دو دفعہ تم دے آۓ تھے۔۔۔ مجھے یہ بتاٶ کہ۔۔۔ بی۔ اۓ تمھاری جان چھوڑے گا اس دفعہ کے نہیں۔۔۔ ہارون نے سخت لہجے میں دوٹوک بات کی۔۔۔۔
منال اور دانین نے منہ پہ ہاتھ رکھ کے اپنی ہنسی کو روکا۔۔۔
اس نے غصے سے چمچ پٹخا اور وہاں سے اٹھ کر چلا گیا۔۔۔۔
دیکھا تم نے سکندر دیکھا۔۔۔۔ ہارون نے انگلی کا اشارہ کیا۔۔۔
تم کرو اس کے اور لاڈ۔۔۔۔ وہ ۔۔۔ وہ۔۔۔۔ لا کر دو اسے گٹار۔۔۔ میراثیوں کی طرح بجاۓ اس کو۔۔۔۔۔ہارون کے غصے کا رخ اب سکندر کی طرف تھا۔۔۔
بھاٸی جان نا پریشان ہوں۔۔۔ سدھر جاۓ گا۔۔۔ سکندر نے مسکراتے ہوۓکہا ۔۔۔
منال اور اشعال برتن سمیٹنے لگی تھی ۔۔۔۔ اسے کوٸی کچھ کام نا کہتا تھا کیونکہ ایک تو وہ سب سے چھوٹی تھی
دل غلطی کر بیٹھا ہے۔۔۔۔
قلم از ہماوقاص۔۔۔
قسط نمبر 2
دانین سے کھانا نگلنا مشکل ہو گیا تھا۔۔۔
وہ تھا کہ دیکھے ہی جا رہا تھا۔۔۔۔ کیا ہو گیا اسے۔۔۔ پاگل تو نہیں ہو گیا کہیں۔۔۔ پرسوچ انداز میں نوالہ منہ کے اندر رکھا۔۔۔۔
اس کی سمجھ سے تو یکسر باہر تھا وہ
وہ اسےبری طرح پریشان کرنے میں مصروف تھا۔۔۔ جب ہارون کی آواز نے اس کے حواس بحال کیے۔۔۔
زرداد کیسا ہوا تمھارا پیپر وہ اپنے مخصوص انداز میں۔۔۔ رعب دار آواز میں کہہ رہے تھے۔۔
اچھا ہوا ہے۔۔۔ چڑ کے جواب دیا۔۔۔ سب لوگ اب اپنی اپنی گفتگو چھوڑ کے اس طرف متوجہ ہو چکے تھے۔۔۔ اشعال زرداد کو بدتمیزی نا کرنے اور تحمل سے رہنے کے اشارے کر رہی تھی۔۔۔
کھانا کھاتے ہوۓ کچھ محسوس ہونے پہ دانین نے نظر اٹھا کے سامنے بیٹھے زرداد کو دیکھا تھا۔۔۔۔
نوالہ حلق میں اٹک سا گیا تھا۔۔۔ وہ دنیا بھر کا پیار نظروں میں سموۓ اسے تاڑنے میں مصروف تھا۔۔۔ عجیب سا محسوس ہوا۔۔۔ اسے کیا ہوا ہے۔۔۔۔ ایسے کیوں دیکھ رہا تھا۔۔۔ اسے الجھن سی ہو رہی تھی۔۔۔ طبیعت تو ٹھیک ہے نا ۔۔۔ اس کی۔۔۔
اب وہ اس کے دیکھنے پہ دھیرے سے مسکرایا تھا۔۔۔
جاری ہے
دانین اب حیرانی کے سمندر میں غوطے لگاتی چارپاٸی سے اتر کر نیچے کھڑی ہو گٸی تھی۔۔۔۔
اسے کیا ہوا ہے۔۔۔ دانین نے پرسوچ انداز میں زرداد کی شکل کو دیکھا۔۔۔ دنیابھر کی معصومیت چہرے پر سجاۓ وہ اس کے سامنے کھڑا اس سے معافی مانگ رہا تھا۔۔۔ اس بات کے لیے جس میں نناوے فیصد غلطی صرف اور صرف دانین کی۔۔۔تھی۔۔
ٹھ۔ٹھ۔ٹھیک ہے۔۔۔۔ کوٸی بات نہیں۔۔۔ اس نے حیران سے ہوتے ہوۓ زرداد کو جواب دیا۔۔۔۔
وہ چھت سے نیچے اتر گیا تھا۔۔۔ وہ ہونٹوں کے پاس گال پہ اپنی انگشت انگلی رکھے حیران سی کھڑی تھی۔۔۔۔ ۔۔
***************************************************
رات کا کھانا سب بیٹھے کھا رہے تھے۔۔۔ ہارون کے حکم کے مطابق جتنی بھی چاہے ہر فرد کی مصروفیت ہو وہ سب کے سب کھانا اکٹھے ہی کھاتے تھے۔۔۔
خیریت ہے۔۔۔ زری۔۔۔ طبیعت تو ٹھیک۔۔۔ ہے۔۔۔ تمھاری۔۔۔۔ اسے دال میں کچھ کالا لگا۔۔۔ وہ اور اس سے معافی مانگے۔۔۔۔۔
آج کہیں فرسٹ اپریل تو نہیں۔۔۔۔ اس نے دل میں سوچا۔۔۔۔
میں نے اس دن کچھ زیادہ ہی بدتمیزی کر دی۔۔۔ زرداد زمانے بھر کی معصومیت زبردستی چہرے پہ سجا کے بولا۔۔۔
ایک منٹ۔۔۔ ایک منٹ۔۔۔ دانین نے ھاتھ کے اشارے سے اسے روکا وہ کچھ بھی سمجھنے سے قاصر تھی۔۔۔۔
اس دن نہیں۔۔۔ صرف۔۔۔ زرداد ہارون ۔۔ آپ اکثر مجھ سے بدتمیزی کرتے ہیں۔۔۔۔ دانین نے دوہونٹ بھینچ کے اس کی بات کی نفی کی اور اپنی راۓ کا اظہار کیا۔۔۔
ہم۔مم۔م۔م۔م۔م۔ زرداد نے بڑی مشکل سے جبڑوں کو جکڑ کر مصنوعی ہنسی سجاتے ہوۓ۔۔۔ اس کی بات کی تاٸید میں سر ہلایا۔۔۔۔
غلط کرتا رہا میں۔۔۔۔ اب بڑا ہواہوں تواحساس ہو ا مجھے۔۔۔ ۔۔ کہہ کر ۔۔۔ اس نے اپنا کان کھجایا۔۔۔
اپنے آپ کو اس کی پہنچ میں لے آیا ۔۔۔ دیکھنا خود ہی دیوانی ہوٸی پھیرے گی۔۔۔ سارا غرور جاۓ گا گھاس چرنے۔۔۔ بدر نے ہوا میں ھاتھ لہراتے ہوۓ کہا۔۔۔
اوہ نہیں یار اس کا کیا پتہ ابا کو شکاٸت کر دے۔۔۔ پھر۔۔ زرداد نے جھنجلا کے کہا۔۔۔
مجھے نہیں لگتا ایسے۔۔۔ جب تمھاری دیوانی ہو جاۓ گی۔۔۔پھر دب کے رہے گی خود ہی۔۔۔ بدر نے داٸیں آنکھ ایسے دباٸی کہ ساتھ ہی اس کے چہرے کا زاویہ بھی بدل گیا۔۔۔۔
اب زرداد اپنے ہاتھ کو اپنی تھوڑی پہ آہستہ آہستہ ایسے چلا رہا تھا جیسے کسی گہری سوچ میں ہو۔۔۔
***************************************************
اف۔۔۔ اس نے اپنے بازو کے اوپر اس نیل کی طرف دیکھا۔۔۔۔
کیسا درندہ صفت انسان ہے۔۔۔۔ زرداد نے جہاں سے اس کے بازو کو دبوچا تھا ابھی آج تیسرے دن بھی وہ موجود تھا۔۔۔
ہاتھ رکھ کے معنی خیز انداز میں کہا۔۔۔۔
کیا مطلب۔۔۔ بات نا سمجھ آنے والے انداز میں بدر کی طرف دیکھا۔۔۔
مطلب یہ کے توڑ دے اس کی اکڑ اور غرور۔۔۔ بدر نے کان میں سرگوشی کی۔۔۔۔
دماغ ٹھیک تمھارا کیا کہہ رہا مجھے بات نہیں سمجھ آٸی۔۔۔ زرداد نے ناگواری سے بدر کے بازو کو کندھا ہلا کے ہٹایا۔۔۔۔
یار غلط مطلب ہر گز نہیں۔۔۔۔ میرا مطلب ۔۔ جہاں اتنی لڑکیاں تیری محبت میں گرفتار ہوٸی پھرتی ہیں۔۔۔ تیری ایک جھلک کے نظارے کی چاہ میں۔۔۔۔۔ چھتوں سے لٹک لٹک جاتی۔۔۔ تو وہ کیوں نا تیری اسیر ہو جاۓ۔۔۔۔
اوہ ۔۔۔ یار ۔۔ وہ نہیں ایسی ۔۔۔ وہ تو اتنا چڑتی مجھ سے۔۔۔ زرداد نے نہیں میں سر ہلاتے ہوۓ کہا۔۔۔
اوہ پاگل ۔۔ ایسا اس لیے ہے کہ وہ تجھے اپنی پہنچ سے دور سمجھتی۔۔۔ وہ ٹہری عام سی لڑکی ۔۔۔ اور تو شہزادہ۔۔۔۔ بدر نے تپھکی دی اس کی پیٹھ پے۔۔۔۔
۔۔۔۔ اور اب تیسری بار ۔۔۔بی۔ اے۔۔۔ کو پاس کرنے کی تیاری شروع کر دو۔۔۔۔ دانین نے اسے اور چڑانے کے لیے منہ بنا کر کہا۔۔۔
دیکھ لوں گا تمہیں بھی۔۔۔
وہ اپنا سرخ چہرہ لے کر سیڑھیاں اتر گیا تھا۔۔۔۔
***************************************************
پڑھاٸی میں زرا اچھی ہے تو پتا نہیں خود کو سمجھتی کیا ہے۔۔۔۔۔۔ گلی کی نکڑ پہ بنے چھوٹے سے چبوترے پہ بیٹھے بدر کو غصہ دکھاتے ہوۓ اس نےکہا۔۔۔
جو بھی بات ہو ابا کو بتانے پہنچ جاتی۔۔۔۔۔ میٹرک میں بورڈ میں پوزیشن کیا لے لی تھی۔۔۔ سب ایسے پوجتے اسے جیسے کہ وہ بہت ماہان ہستی ہو۔۔۔ اس نے دونوں ہاتھوں کو جوڑ کے پوجنے والا انداز بنایا۔۔۔
اکڑ پتہ نہیں کس چیز کی کلو میں۔۔۔۔ نا شکل ۔۔۔۔ دانت پیستے ہوۓ کہہ رہا تھا۔۔۔
اس کے پاس شکل نہیں۔۔۔۔ پر تیرے پاس تو ہے۔۔۔ بدر نے کھڑے ہوکر اس کےکندھے پہ ہاتھ رکھ کے
ایک وہی تو تھے جن سے وہ تھوڑا سا دب بھی جاتا تھا
۔۔۔ تم خود تو پڑھتے ہو نہیں آ جاتے ہو دوسروں کو بھی شیطان بن کے راہ راست سے ہٹانے کو۔۔۔۔ ۔۔۔ دانین نے غصہ دکھایا اسے۔۔۔۔
سمجھتی کیا ہو خود کو تم۔۔۔ زرداد نے اب اسکا بازو دبوچ ڈالا تھا۔۔۔
کیوں کیا ایسا تم نے میری ساری محنت پہ پانی پھیر دیا۔۔۔۔وہ اب دھاڑنے کے سے انداز میں اس پر چیخ رہا تھا۔۔۔
ارے چل ہٹ۔۔۔ محنت کا کچھ لگتا۔۔۔ تم نے بھی ہزاروں بار میری محنتوں پر پانی پھیرا ہے۔۔۔۔ دانین نے ناک سکیڑ کے اس دھکا سا دیا۔۔۔ اور بازو چھڑوانے کے لیے زور لگانا شروع کر دیا۔۔۔
تمہیں تو میں دیکھ لوں گا کلو کہیں کی۔۔۔ اب وہ اسے ایک جھٹکے کے سے انداز میں چھوڑ کے اپنے منہ پہ بدلے کے سے انداز میں ہاتھ پھیر رہا تھا۔۔۔
جاو جاو یہاں سے۔۔اۓ بڑے لیڈی ڈیانا کے کچھ لگتے
وہ تیزی سے سیڑھیاں پھلانگتا ہوا۔۔ ۔۔۔ اوپر جا رہا تھا۔۔۔ جبڑے سختی سے بند کیے ہوۓ تھے۔۔۔ ناک غصے سے پھولی ہوٸی تھی۔۔۔۔۔ اسے پتا تھا وہ پڑھاکو کیڑا قسم کی لڑکی۔۔۔ اکیلی بیٹھی چھت پر پڑھ رہی ہو گی۔۔۔
دانین نے میڈیکل میں ایڈمیشن لیا تھا۔۔۔وہ سارا دن تقریباََ پڑھتی ہی پاٸی جاتی تھی۔۔۔۔
دانین چھت پر پڑی چارپاٸی پہ بیٹھی ۔۔ تھی کتابوں کا ڈھیر اس ک آگے سجا تھا۔۔۔۔
کیا تکلیف تھی تمہیں ۔۔۔ وہ تیزی سے اس کے پاس آکر اب اس کے سر پر کھڑا تھا۔۔۔ غصے سے آنکھیں لال ہو رہی تھی۔۔۔
مجھے تنگ مت کرو۔۔۔ نہیں تو ابھی چیخ چیخ کے تایا ابا کو بلا لوں گی ۔۔بڑے ہی انداز میں کہا وہ پہلے سے ہی ذہنی طور پر خود کو تیار کیے ہوٸی تھی کہہ وہ آ کے ایسے ہی چیخے گا اس پر اس لیے ہی۔۔ فوراََ اسے دھمکا ڈالا تھا۔۔
دانین نے بڑی بڑی آنکھیں نکالتے ہوۓ ڈرایا۔۔۔
کچھ دن پہلے زرداد کو سکندر نے دانین کو کالج سے لانے کا کہا تھا۔۔۔ جبک زرداد اور بدر بھول گۓ تھے۔۔۔
دانین کو کالج میں بہت انتظار کرنا پڑا۔۔۔اور پھر بڑی مشکل سے وہ گھر پہنچی تھی۔۔۔۔
بجاۓ اپنی غلطی ماننے کے زرداد نے اسے کہنا شروع کر دیا وہ کالج سے بہت دیر سے نکلی۔۔۔ وہ انتظار کر کر کے چلا گیا تھا۔۔۔
اور اس نے صبح میز پر پڑی اس کی ساری رات لگا کے تیار کی ہوٸی پرچیاں اپنی فضول پرچیوں سے بدل ڈالی تھی۔۔۔
اسکی بی اے پاس کرنے کی دوسری کوشش تھی۔ ۔۔ لیکن آج کے پیپر میں تو اب وہ یقینََ لڑھک کے ہی رہے گا۔۔۔۔اور یہ صرف اور صرف دانین کی وجہ سے ہو گا۔۔۔۔
اب اسکو تھا کہہ وہ جلدی گھر پہنچے اور دانین کے بخیے ادھیڑ دے۔۔۔۔ دانت پیس پیس کے اس کےاپنے ہی منہ میں درد شروع ہو گیا تھا۔۔۔۔
***********
وہ پیپر کو کرسی پر الٹا رکھ کے اٹھا۔۔۔ اور اپنے پیچھے بیٹھے اس مسکین سے لڑکے کی طرف ایسے دیکھا جیسے کہ میں صرف تمھاری وجہ سے پپیپر الٹا رکھ کے جا رہا ہوں۔۔۔
اور بڑے انداز سے ھال سےباہر نکلتے نکلتے اس نے پھر سےاپنی طرف گھورتے ہوۓ نگران کو آنکھ مار دی تھی۔۔۔۔
اور باہر نکل کر اب اسکے ہونٹوں پہ گہری مسکراہٹ کا راج تھا۔۔۔۔
چل اب آجا نا۔۔۔ کہ میرا رنگ جلاۓ گا اس تیز دھوپ میں۔۔۔۔ کالج کے گیٹ کے باہر کھڑا وہ بدر کو فون کر رہا تھا۔۔۔۔
ارے تمھارا پیپر کیسےختم ہو گیا اتنی جلدی۔۔۔ بدر کی حیران سی آواز فون کے سپیکر سے ابھری۔۔۔۔
کلو نے بہت برا بدلہ لیا یار اس دن والی بات کا۔۔۔ جلدی آ نا بتاتا ہوں۔۔۔۔
بدر۔۔۔ زرداد کا بچپن کا دوست تھا اس کی ہر شرارت میں شریک اور اس کے ہر کام کا رازدار۔۔۔۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain