میں ویسی ہی۔ تم زرا تبدیل لگ رہے ہو" شاید وہ اسے جتا رہی تھی اور وہ اب پھر مسکرا دیا۔۔۔
"تو تمہارا سنگاپور ٹرپ کیسا جا رہا۔۔۔۔۔ مہر نے بتایا تھا" وہ بھی مسکرائی تھی۔
"ارے ہاں یار۔۔۔ مت پوچھو۔ اتنا مصروف ہو گیا ہوں کہ خود تک کہ لیے وقت نہیں ملتا۔" وہ بھی اپنی مصروفیت بتاتا ہنسا
"مصروفیت بے حد اچھی چیز ہے۔ مجھ سے پوچھو۔۔۔ دو دن میں ہی فارغ رہ کر بور ہو گئی ہوں" اب کی بار وہ منہ بنائے بتا رہئ تھی۔
"کیوں۔۔۔۔ تم تو اپنے کزنز کے ساتھ ہو نا۔ تمہاری فیملی ہے وہاں۔ کیا وہ تمہیں بور کر رہے ہیں" اب کی بار وہ فکر مندی لیے پوچھ رہا تھا۔
"وہ سب تو مجھے بور نہیں کرتے۔ لیکن یو نو مجھے بور ہونا پسند ہے۔ کچھ وقت خاموشی سے خود کے ساتھ گزارنا بہت ضروری ہے" وہ جیسے سنجیدہ ہوئی۔ وہ بھی ہوا۔
"ہممم۔۔۔ آئی نو۔۔۔" وہ بھی جیسے تلخی سے ہنسا تھا۔
اور اگلے ہی لمحے مینال اس سے لپٹ سئ گئئ۔۔۔
"آپ ہمیشہ یونہی ہنستی رہیں۔میں آپکے لیے بہت خوش ہوں دانیہ" وہ اس کے ساتھ لگے ہی بولی۔ چہرے پر ایک انتشار پھیلائے پھر یک دم وہ مسکرا سی دی۔
"صرف میرے لیے؟ اور حانی کے لیے؟" دانیہ نے شرارت لیے کہا تو مینو اس سے الگ ہوئی اور مسکرا دی۔
"آپ دونوں کے لیے" اب کی بار وہ دونوں مسکرائی تھیں۔
◇◇◇
"تم نے تو دوبارہ زحمت ہی نہ کی کہ مینو کو کال ہی کر لوں۔ سوچا یہ فرض خود ہی ادا کر دوں" عادل دوسری طرف خوشگوار سی مسکراہٹ لیے تھا۔اسے امید نہیں تھی کہ وہ دوبارہ کبھی مینو کو دیکھ پائے گا۔وہ وڈیو کال پر تھے اور وہ بستر میں دبکی بیٹھی تھی۔ ابھی کچھ دیر پہلے دانیہ اسے چائے دے کر گئی تھی۔
"بس تمہیں تنگ نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔ کیسی ہو؟" یک دم جیسے عادل سنجیدہ اور اجنبی سا ہوا۔ اب کی بار مینال اداس سی ہوئی۔
سچ پوچھو تو کبھی اظہار کی نوبت ہی نہیں آئی۔۔۔ بچپن کا ساتھ کب دوستی سے محبت تک پہنچا احساس ہی نہیں ہوا۔۔۔ اور پھر ہم ایک دوسرے کا ہونے کو راضی ہو گئے۔۔۔۔۔ جہاں تک زبان سے کہنے کی بات ہے تو نہ کبھی حانی نے کہا اور نہ میں نے۔۔۔۔۔ محبت تو ہماری یونہی دیکھائی دیتی ہے۔ شاید تبھی ہم دونوں نے ایک دوسرے کو کچھ کہنے کی کوشش تک نہیں کی" دانیہ کسی خوبصورت سے خواب میں کھو کر بتاتی ہوئی مسکرائی تھی۔۔۔
"واووووو۔۔۔ سچ آ بیوٹی فل ریلیشن" بے حد مسکراہٹ لیے مینو بولی تھی۔
"وہ میرے لیے بہت اہم ہے۔ شاید میں اسکے بنا ادھوری رہتی۔ یوں سمجھ لو کہ وہ لازمی حصہ ہے" دانیہ کی مسکراہٹ، سنجیدگی میں بدلی تھی۔ مینال بڑی توجہ سے اسے سن اور دیکھ رہی تھی۔
"اسکا مطلب آپ حانی سے بہت پیار کرتی ہیں" مینو نے مسکراتے پوچھا۔۔۔
"یس۔۔۔۔ بہت۔" دانیہ بھی مسکرائی۔
۔ وہ جب انکو لینے گئے تھے تو اچانک ہی انکی نظر اس پر پڑی اور آرڈر دے آئے۔۔ آج بھی انکی پسند لاجواب ہے" مینال آخری بات پر دانیہ کا کھلا چہرہ دیکھتے مسکرائی تھی۔
"اسکی پسند کا ثبوت، مجھ سے بڑھ کر کیا ہوگا" اب تو دانیہ بھی شرارت لیے ڈریس دیکھتے ہنسی۔۔
"بلکل۔۔۔۔ یہ تو ہے۔۔۔۔ آپ سے ایک بات پوچھوں دانیہ؟" اب تو مینال کے سوالیہ انداز پر دانیہ حیران ہوئی تھی۔
"مینو۔۔۔۔ تم کچھ بھی بلا اجازت پوچھ سکتی ہو۔ پلیز فارمل مت ہوا کرو مجھ سے" اب کی بار دانیہ شفیق انداز میں اسکا چہرہ تھامے بولی تھی۔
"ٹھیک ہے" وہ بھی ہنس دی
"گڈ۔۔۔ پوچھو اب" دانیہ ہمہ تن گوش ہوئی۔
"کیا حانی نے کبھی کہا کہ وہ آپ سے پیار کرتے ہیں۔ میرا مطلب کہ اظہار میں بہت کنجوس جو ٹھہرے " یک دم سے مینو نے لہجہ بدلا۔۔۔ دانیہ اسکی بات پر دلکش سا مسکرا دی۔
"یہ تو کبھی خیال ہی نہیں آیا۔۔۔
کدھر رہ گئی تھیں آپ"دانیہ کافی دیر بعد کمرے میں آئئ تو مینو کی بے چینی دیکھ کر مسکرائے بنا نہ رہ سکی۔۔۔
"ارے آج تو میری جان یہاں ہے۔۔۔۔ وہ دراصل میں تایاجان کا بی پی چیک کر رہی تھی۔۔۔ ہلکا سا آگے پیچھے تھا تو میڈیسن دے کر آئی ہوں" دانیہ نے تکیہ گود میں رکھا اور بیٹھتے بتایا۔
"اوہ۔۔۔ ٹھیک ہو گیا۔۔۔۔ دانیہ یہ دیکھیں آپکی منگنی کا ڈریس۔ ابھئ پھوپھو دے کر گئی ہیں۔ وہ آج آرڈر دے آئے تھے تو شاپ والوں نے ابھی کچھ دیر پہلے بھجوا دیا" وہ پیچ کلر کا نہایت خوبصورت گلابی اور گولڈن کام والا جوڑا تھا۔۔۔۔
"ارے واہ۔۔۔۔۔ کافی اچھی چوائز ہے پھوپھو کی۔ " مینال نے ڈریس نکال کر دیکھایا تو دانیہ نے ستائشی نظروں سے دیکھتے کہا۔ وہ بھی مسکرا دی تھی۔
"ھاھا۔۔۔۔ یہ پھوپھو کی نہیں۔۔۔ حانی محترم کی چوائز ہے جناب۔
بھئی میں اور نادیہ تو کل باقی کی شاپنگ پر نکلنے کا سوچ رہے ہیں۔۔۔۔" ماہین نے بڑے مصروف انداز میں کہا تو دانیہ بھی مسکرا دی۔۔۔
"یہ تو اور گڈ ہے۔۔۔ بائے دا وے آپ کو کس نے کہا آپ بوڑھی ہیں۔۔ بوڑھے ہوں آپکے دشمن۔۔۔۔ ویسے آپس کی بات ہے ماہین پھپھو۔ آپ تو دانیہ سے بھی چھوٹی لگتیں" حانی نے آخری بات رازدارنہ انداز میں کہی تو ساتھ بیٹھی دانیہ سمیت ماہین بھی ہنس دی۔۔
"چل ہٹ۔۔۔ لگتا ہے تو نے مار کھانی ہے دانیہ سے۔۔۔ اور مجھے بھی پروائے گا" ماہین بھی ہنسی دبائے تھیں۔۔
"ھائےےے اب تو انکی مار بھی سر آنکھوں پر" حانی کے کہنے کی دیر تھی کہ ماہین دوبارہ ہنس دیں۔۔۔
"جورو کا غلام بننے کی پوری تیاری ہے یعنی" اب کی بار حانی بھی ہنسا تھا۔۔۔
"ٹھہر جاو آپ دونوں۔۔۔ میرے خلاف کونسی سازش ہو رہی یہاں"
وہ رضوان صاحب کے ساتھ بیٹھی تو انہوں نے مسکراتے ہوئے اسے خود سے لگا لیا۔۔۔ وہ بھی ہنس دی۔
"بچو۔۔۔کل سے آفس بند تم لوگوں کا۔بھئی مینو کو گھماو پھراو۔۔ خبردار جو کسی نے اسے بور کیا۔۔۔ ویسے بھی پرسوں منگنی ہے۔ کل تم بچے گھوم پھر آو۔۔۔۔۔ حانی دیکھ لو ساری ذمہ داری تمہاری ہوگی"اگلے ہی لمحے سب کے چہرے روشن ہو چکے تھے۔ مینال بھی اب خوشی سے مسکرا دی تھی۔۔
"بلکل ٹھیک کہا رضوان نے۔۔۔ جاو اور گھومو پھرو۔ یہی دن ہیں" مہران بھی لاونچ میں آچکے تھے۔ رضوان کی تجویز اور اس پر سب کے مسکراتے چہرے دیکھ کر وہ بھی مسکرا سے دیے۔
"جو حکم۔۔۔ اب تو بڑی سفارش آگئی ہے" حانی فرمابرداری سے ہنستا بولا تھا۔
"مما، پھپو آپ بھی چلیں ناں" اب دانیہ رخ پھیرے خواتین سے مخاطب تھی جنکے منہ پر صاف ناں تھئ۔۔۔
"ارے دانیہ ہم بوڑھیاں کیا کریں گی جا کر۔۔۔
رضوان مرتضی بھی ویسے ہی تھے۔۔۔۔ نیلم بلکل حانی کی ہم شکل لگتی تھی۔۔۔ جبکہ دانیہ کے چہرے پر ہمیشہ ہی دلکش سی شفقت اور مسکراہٹ تھی۔۔۔ سب ہی ایک دوسرے سے بڑھ کر تھے۔۔۔۔۔۔ لیکن مینال مرتضی کا مقابلہ پھر بھی کوئی نہیں کر سکتا تھا۔۔۔۔ اسکی ماں ایک بریٹش تھی جو بعد میں مسلمان ہوئی تھی۔ مینال کے گولڈن شیڈ دیتے بال اسے سب سے الگ بنا دیتے تھے۔۔۔ اور پھر اسکی حمدان مرتضی یعنی اسکے مرحوم ڈیڈ جیسی نیلی آنکھیں تھیں۔۔۔۔
"دائم۔۔۔ ایک کپ کافی بنا دے یار" دائم کچن میں اپنے لیے کافی بنا رہا تھا۔ لگے ہاتھوں حنوط نے بھی حکم صادر کر دیا۔۔
"جو حکم سرکاراں" وہ آگے سے پھیلتے ہوئے بولا تو باہر تو سب ہنسے ہی تھے۔۔۔ حانئ کے بھی دانت نمایاں ہوئے۔۔۔
"گدھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" حانی باہر آیا تو جیسے ایک مینال کی کمی سی محسوس ہوئی۔۔
"یہ مینو کہاں ہے بھئی
مینال نے پورا دن شام گزرے لمحوں کو ایک بار پھر جینے میں لگا دیا تھا۔۔۔
"وہ اوٹنگ کے لیے نکل گئی تھی۔۔۔ کرتی بھی کیا؟ تم بتتمیزوں نے اسے گھر بور ہونے کے لیے اکیلا جو چھوڑ دیا تھا" ماہین شام کی چائے سرو کرتے ہوئے ان کی کٹ بھی لگاتے بولیں۔
"اکیلی ہی چلی گئی۔۔۔۔ آلے زرا" دائم نے چہرے پر دوسو والٹ کی افسردگی لائے کچن سے جھانکے کہا تو سب ہنس دیے۔ حانی بھی فریش ہو کر نیچے ہی آ رہا تھا۔۔۔ ہاف بازو والی سفید ٹی شرٹ اور بلیک ٹراوزر پہنے آج وہ بلکل دائم جیسا جنٹل مین لگ رہا تھا۔۔۔۔ خوبصورتی اور دلکشی تو تھی ہی اس پر ختم۔۔۔۔ اپنی گریس فل سی ادا اس نے مہران سے لی تھی۔۔۔۔۔ مہران مرتضی اس فیملی کے سب سے گریس فل ممبر تھے۔ حنوط مرتضی بھی ان جیسا ہی تھا۔۔۔۔ دائم بھی ہنڈسم تھا اور اسکے چہرے پر ہمیشہ ہی ہنسی اور شرارت اسے مزید پیارا بنا دیتی تھی۔
"تم کیا آنکھیں پھاڑ کر دیکھ رہی ہو" حانی نے منہ سجائے کھڑی مینال کو دیکھ کر کہا۔
"سوچ رہی ہوں میں کونسی ٹوکری اٹھا کر آپکے سر پے ماروں" دانیہ اور نیلم دونوں کی ہی بتیسی باہر آچکی تھی۔۔۔
"ارے اتنا آسان سوال۔۔۔ میں بتاتا ہوں" اگلے ہی لمحے دائم نے دوڑ لگا دی جبکہ حانی اسکے پیچھے بھاگ کر اسے دبوچ چکا تھا۔ اب تو مینال بھی ہنس رہی تھی۔
"یہ ابھی تو میری سائیڈ پے نہیں تھا؟" سب کے قہقہے بلند ہوئے۔۔۔ اور پھر اچانک سے مینال واپس لوٹی۔۔۔۔۔۔ وہ سب آوازیں خاموش ہو گئی تھیں۔ مگر جاتے جاتے مینال کے چہرے پر ایک دھیمی مسکراہٹ ضرور چھوڑ گئی تھیں۔۔۔
◇◇◇
"یہ مینو کہاں ہے؟" نیلم اور دائم نے تو آتے ہی اسکا پوچھا تھا۔ آج وہ لوگ جلدی آنے کے بجائے زیادہ لیٹ ہو گئے تھے۔ کیونکہ عین وقت پر انکی ایکسڑا کلاسز آگئی تھیں۔۔
لو۔۔۔ سب نے پارٹی بدل لی۔۔۔ تم سے تو میں ہوں ہی ناراض مینو۔۔ کبھی تو بندہ تعریف کر دیتا ہے"حانی نے خفا ہوتے کہا۔۔ وہ منہ بنائے بہت پیارا لگتا تھا۔۔۔ اسکے چہرے کی خوبصورتی دگنی ہو جاتی تھی۔۔۔۔۔
"ھائے میں صدقے جاوں۔ارے میں ہوں نا یار" دائم نے حانی کے گرد بازو پھیلائے کافی سارا مکھن لگاتے کہا۔
"لو جی اس سال کا سب سے بڑا ڈرامہ" نیلم نے بمشکل ہنسی دبائی۔
"پتا نہیں یہ لڑکیاں جلنا کب چھوڑیں گی۔۔۔۔ جل کوکڑیاں" دائم کے کہنے کی دیر تھی کہ نیلم نے تقریبا ٹوکری اٹھا کر اسے مار ہی ڈالی تھی مگر وہ ڈھیٹ بچ چکا تھا۔۔۔ دانیہ تو مسلسل ان پر ہنس رہی تھی۔ جبکہ مینو کا منہ ویسا ہی سڑا ہوا تھا۔۔۔
"اوئے ظالمو۔۔۔ کوئی تو بچائے ان جلادوں سے" اب کی بار دائم نے رونی شکل بنائے کہا تو خود حانی بھی ہنس دیا۔ پھر نظر مینال پر گئی۔
مجھے پہلے جیسا ظاہر کرنا ہوگا۔۔۔۔۔۔ مینال تمہیں سنبھلنا ہوگا" وہ جیسے خود سے عہد لیتی ہوئی بولی اور پھر اسے وہ پکنک کا دن اور اس سے جڑی آوازیں سنائی دینے لگیں۔۔۔
"یہ کیا فالتو جگہ ہے۔ مجھے آپ سے اسکی امید نہیں تھی حانی" سب ہی اس خوبصورت جگہ کو ستائشی نظروں سے دیکھ رہے تھے سوائے منہ پھلائے کھڑی مینال کے۔۔ دانیہ نے دور دور تک نظریں گما کر دیکھیں۔۔۔۔
"کیا جگہ ہے حانی۔۔۔۔ کتنا سکون ہے یہاں" دانیہ نے مسکراتے ہوئے کہا تو مینو کا منہ مزید پھول چکا تھا۔۔۔
"اس بے ذوق لڑکی کو کبھی کچھ پسند بھی آیا ہے کیا۔۔۔ اسے تو حنوط مرتضی کی پسند پر بھی اعتراض ہے" حانی تو یوں اترایا کہ اسکی پسند اس دنیا کی بہترین پسند ہو۔۔۔۔سب کے دانت نمائش کے لیے حاضر ہو چکے تھے۔۔۔
"ھاھا ویسے اتنی بھی خاص نہیں جگہ" اب تو نیلم اور دانیہ دونوں ہی مینو کی سائیڈ ہوتے ہنسیں۔۔
◇◇◇
دل کو بہلانے اور تازہ ہوا لینے کے لیے وہ باہر نکل آئی تھی۔۔ گھر سے وہ کار لے کر نکلی تھی۔ راستے میں اسے خوبصورت سی جگہ نظر آئی تو مینال وہیں جا کر ایک بینچ پر بیٹھ گئی۔۔دور دور تک ہر سمت چھائی خاموشی۔ چپٹا میدان اور پتھروں کے اس جانب درختوں کے جھنڈ۔۔۔ آسے یاد آیا کہ وہ پہلے بھی کئی بار یہاں آچکی ہے ۔ پہلی بار تو وہ سب کے ساتھ پکنک پر یہاں آئی تھی۔۔۔ ان سب نے یہی جگہ منتخب کی ہے۔۔۔
دوسری بار وہ دانیہ اور حانی کے ساتھ آئی تھی۔اور پھر کئی بار۔۔ کبھی اکیلی اور کبھی ذہن اور دل کے کئی خیالات لے کر۔۔۔
"سب ناجانے کیوں سمجھتے ہیں کہ میں بدل گئی ہوں۔میں تو بلکل ویسی ہوں۔۔۔ حانی بھی یہی سمجھتے ہیں" وہ اداسی لیے خودکلامی کر رہی تھی۔
"ہاں مینو۔۔۔۔ سب ہی تو بدل گیا ہے۔۔ تمہارے اندر بھی اور باہر بھی۔۔۔ مجھے یہ بدلاو ظاہر نہیں کرنا۔۔۔۔
حانی کے لہجے کی سچائی اسے کچھ پل کو ساکت کر گئی تھی۔۔کتنی ہی دیر وہ خاموشی سے اسے دیکھتی رہی۔ کیا بتاتی کہ مینال مرتضی کو اب خود اپنی مسکراہٹ سے ڈر لگتا ہے۔۔کہ وہ جتنا ہنستی ہے پھر قسمت اسکے حصے میں اتنی ہی مشکل درج کر دیتی ہے۔۔ حانی اسکے چہرے کے بدلتے رنگ باآسانی دیکھ چکا تھا۔ خاموشی تو کئی لمحے وہاں بھی پھیلی تھی۔۔۔ یوں جیسے دونوں طرف کہنے کو کچھ باقی نہ رہا ہو۔۔۔
"کیا ہوا مینو" مینال جیسے اپنے آپ میں واپس لوٹی۔
"کچھ نہیں ہوا۔۔۔ آئی تھنک اب آپکو آفس جانا چاہیے۔ اس سے پہلے کے دانیہ آپکو بلانے پوری ٹیم بھیج دے" وہ فورا سے دوبارہ خود کو نارمل کیے مسکرا دی۔۔حانی کے چہرے پر بھی کہنے کو کچھ اطمینان سا آیا۔
"ھاھا۔رائیٹ۔۔ چلو پھر انجوائے کرو۔ شام کو ملتے ہیں" وہ چائے ختم کیے اٹھ کھڑا ہوا اور مینال اسے جاتے ہوئے دیکھتی رہی۔
◇◇◇
اچھاااااا۔۔۔ میں دانیہ کو بتاتی ہوں۔زرا آپکی شامت آئے تاکہ فیلنگز والی عمر لوٹائی جا سکے"اب کی بار وہ بھی مینال کی بات پر ہنس دیا تھا۔
"تم اگر میری شامت پر یوں مسکرانے کا وعدہ کرو تو میں اس کے لیے بھی تیار ہوں۔ بلکے ہر چیز کے لیے" وہ مینال سے چائے لیتا ہوا اسے دیکھ کرسنجیدہ سا ہوا۔۔۔۔
"اچھا۔۔۔ ایسا ہے کیا؟" وہ بے یقینی سے بولی تھی۔
"بلکل۔۔۔ تمہیں حنوط مرتضی کی بات پر شک ہے؟" وہ بڑے مان اور فخر سے سوال کر رہا تھا۔۔۔ وہ مسکرا دی۔
"حنوط مرتضی کی بات پر تو کوئی شک نہیں۔ ہاں حانی صاحب کی اکثر باتیں ہوا میں فائر ہی ثابت ہوتی ہیں" اب کی بار وہ کھلکھلا کر ہنسی تھی۔
"الزام ہے مجھ غریب پر۔۔۔ لیکن چلو اسی بہانے تم ہنسی تو۔ ہنستی رہا کرو۔ جانتی ہو ناں کہ تمہاری سنجیدگی اور خاموشی سے مجھے ڈر لگتا ہے"
کچھ تو ہے وہ اب پہلے جیسا نہیں ہے۔ دیکھو میں نے جاتے ہوئے اسی شرط پر اپنی ناراضگی ختم کی تھی کہ تم بلکل نہیں بدلو گی۔۔۔ ہمیشہ ایسی ہی رہو گی" حانی سنجیدہ تھا اور اسکی آنکھوں میں شکوہ سا بھی تھا۔
"کب بدلی ہوں۔ ویسی ہی تو ہوں۔ ہاں شاید بڑی ہو گئی ہوں۔ اب ساری زندگی بچپن میں تو نہیں گزر سکتی" وہ بھی حنوط کی آنکھوں میں جھانکے سنجیدہ تھئ۔
"باتیں بھی عقل مندوں والی۔۔۔ ناٹ فئیر" حانی چہرے پر شرارت لیے بولا تو وہ بھی ہنس دی تھی۔
"ھاھا۔۔ آپ بھی ناں۔۔ اچھا یہ بتائیے کیسی فیلنگز ہیں۔ فائنلی آپکی شادی دانیہ سے ہو رہی ہے" اسی دوران ملازمہ چائے بھی رکھ گئی تھی جو اب مینو بناتے بناتے پوچھ رہی تھی۔
"ارے اب کہاں رہی وہ عمر فیلنگز والئ۔۔۔" حانی نے شرارتی انداز میں کہا تو مینال کے دانت خود ہی باہر آگئے۔
حانی اسکی یہی مسکراہٹ مس کر رہا تھا۔
بھئی میں تو اب آرام کروں گی۔۔۔ تم بچے باتیں کرو بیٹھ کے" ماہین تو زیادہ ہی تھکی لگ رہیں تھیں۔۔ وہ میز پر دھرا اپنا بیگ لیے مسکراتی ہوئی اندر چلی گئیں۔
"تم پیو گی مینو" نادیہ اب اپنا بیگ لیے مینال سے پوچھ رہی تھیں۔
"جی تائی جان۔۔۔ اب حانی کو کمپنی بھی تو دینی ہے ناں" مینال نے کہا تو حنوط بھی ہلکے سے مسکرا دیا اور نادیہ چائے بنوانے چلی گئیں۔
◇◇◇
"تو تم بور تو نہیں ہوئی ناں۔۔۔ سوری یار کیا کریں سب کے اپنے اپنے دھندے ہیں" حانی نے معذرت زدہ لہجے میں کہا تو مینال مسکرا دی۔
"جانتی ہوں۔۔۔ لیکن ڈونٹ وری۔۔ مینو اکیلے بور نہیں ہوتی اب" وہ بھی بدلے میں اس تبدیلی پر مسکرا دیا تھا۔
"دیٹس گڈ۔۔۔ چلو اگر بور ہوئی بھی تو بتانا۔۔۔ تمہاری بوریت بلکل غائب کر دیں گے" حانی کے لیے وہ آج بھی اتنی ہی اہم تھی۔
"ویسے مینال۔۔۔ تم بدل گئی ہو
کہ وہ انھیں گھر ڈراپ کر آئے۔۔۔
"اففففف یہ گاڑی کو بھی آج ہی خراب ہونا تھا" وہ دونوں حانی کے ساتھ وہیں آرہی تھیں۔ ماہین کے ہاتھ میں کافی شاپنگ بیگز تھے جسکا مطلب یہ تھا کہ خواتین کافی کام نمٹا کر لوٹی تھیں۔ مینال بھی مسکرا دی۔
" بھئی ایک تو رش اتنا تھا اور دوسرا ریٹس تو آسمان کو چھو رہے تھے۔ پر خیر اچھی چیزیں مل گئیں ہیں" نادیہ کے ہاتھ میں بھی شاپنگ بیگز تھے جو وہ پہلے ہی حانی کے سپرد کر چکی تھیں۔ جو اب منہ بنا چکا تھا۔۔۔۔
"ہر بار قربانی مجھ غریب کو ہی دینی پڑتی ہے" حنوط نے بھی شرارتی انداز میں بیگز ملازم کو دیتے کہا جو اب انکو لیے اندر کی طرف بڑھ گیا تھا۔
"بھئی دولہا تم ہو۔۔ اب بھگتو بھی" ماہین بھی شرارت لیے ہنسیں۔
"میں چائے بنواتی ہوں۔ حانی تم پیو گے" حانی اب وہیں کرسی پر نیم دراز ہو چکا تھا جب نادیہ کے پوچھنے پر سر ہلا کر مسکرا دیا۔
دعا کے علاوہ اسے تھوڑا سمجھا بھی دینا مینو۔ میری سنتا ہی کب ہے وہ۔۔۔۔۔۔ ہو سکتا ہے تمہاری سن لے" مہر نے اپنی مجبوری بتاتے کہا اور کچھ لمحے کو مینال کے چہرے پر سنجیدگی ابھری۔
"ٹھیک ہے۔ میں عادی سے بات کروں گی۔ فکر مت کرو" مینال نے کہہ تو دیا تھا پر وہ بے یقین سی تھی۔
"کر لینا یار۔۔۔۔ چلو پھر بات ہوگی ۔ اپنا خیال رکھنا اور ہاں اپنے دل کا بھی" آخری بات پر ناچاہتے ہوئے بھی مینال کا چہرہ تاریک ہو گیا۔
"اوکے کوشش کروں گی" تھکی آواز میں کہہ کر مینال نے فون بند کر دیا۔ وہ دوبارہ سے مالی بابا کو کام کرتا دیکھنے لگی۔
"لگتا ہے دائم اور نیلم آگئے" گاڑی کی آواز آئی تو مینال نے باہر دیکھتے اندازہ لگایا مگر وہ حنوط تھا جو واپسی پر ماہین اور نادیہ کو ساتھ لے آیا تھا کیونکہ انکی واپسی پر گاڑی خراب ہو گئی تھی۔ جس کے بعد انہوں نے حانی کو کال کی تھی
مہر نے جان بوجھ کر ہلکے پھلکے انداز میں کہا تو مینال مسکرا دی۔
"اب یہی کرنا پڑے گا۔۔۔ اور عادی کیسا ہے۔ رات سے ناجانے کہاں گم ہے۔" مینال کی کل اس سے بات ہوئی تھی۔ اسکے بعد سے عادی کا کوئی میسج تک نہیں آیا تھا۔
"ہاں اسے دراصل رات ہی سنگاہ پور بھیج دیا اسکے آفس والوں نے۔ بچارا ایک دم مصروف ہو گیا ہے۔ تم بس یہ دعا کرو کے وہ شادی کے لیے مان جائے" مہر کے لہجئے میں فکر مندی کا سمندر سا امڈ آیا۔۔۔۔
"ارے زبردست۔۔۔۔۔۔ ہاں اسے اب شادی کر لینی چاہیے" مینال کے چہرے پر ہلکا سا اطمینان ابھرا۔
"ہاں ناں۔۔ سوچ رہی ہوں یہیں کوئی اچھی سی پاکستانی لڑکی دیکھ کر اس کی شادی کر دوں۔۔۔ رضی کے بھی کچھ جاننے والے ہیں یہاں" رضی مہر کے شوہر تھے۔ جو ان دنوں پاکستان گئے ہوئے تھے۔
"ان شاء اللہ سب اچھا ہوگا۔۔۔۔میں دعا کروں گی" مینال مسکرا دی۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain