Damadam.pk
anusinha's posts | Damadam

anusinha's posts:

anusinha
 

ارے یار دل تو کرتا تھا تمہیں روز یاد کروں لیکن پھر مجھ سے سب کے نمبرز کھو گئے۔ بہت مشکل سے جا کر تمہارے گھر کا نمبر ملا ہے" بے حد پرکشش اور مسکراتی آواز میں جواب آیا تھا۔حانی اور اسکی کافی گہری دوستی معلوم ہو رہی تھی۔
"ھاں ھاں کر لو بہانے۔۔۔ یہ بتاو تم واپس کب آئے۔۔۔ اور مجھ سے ملنے کب آرہے ہو بے شرم۔۔۔ میں تو کہتا ہوں آج ہی یہ فریضہ سرانجام دو" اب تو حانی بھی ہنستے ہوئے صوفے پر نیم دراز ہوتے بولا۔۔۔ دوسری طرف بھی قہقہہ لیے مسکراہٹ ابھری۔
"ھاھا ایک ہفتہ ہو گیا۔۔۔ اور تین چار دن تو تمہارا نمبر ڈھونڈنے میں لگ گئے۔۔۔۔ پاکستان کہاں آنا تھا یار میں نے۔۔۔ یہ تو بی جی کی بے حد ضد پر ہتھیار ڈالنے پڑے۔۔۔ یو نو ایک ہی فکر ہوتی ماوں کی کہ بیٹے کی شادی ہو جائے" وہ مسکراتے ہوئے بتا رہا تھا۔۔۔
"ھاھا بلکل۔۔۔ چلو بھئی تم آج ہی آرہے ہو۔

anusinha
 

نیلم نے ہنسی دبائے کہا تو وہ بھی مسکراتی ہوئی نیلم کے ساتھ چلی گئی۔
◇◇◇
"یس۔۔۔ کون؟" حانی نے اندر آتے ہی فون کان سے لگائے پوچھا۔اور پھر جیسے اگلے ہی لمحے حانی کا چہرہ یک دم مسکراہٹ سے روشن ہو گیا۔
"اوہ مائی گارڈ۔۔۔۔۔ اٹس یو۔۔۔۔ مجھے یقین نہیں آرہا۔۔۔ کہاں تھے تم" حانی کی پرجوشی قابل دید سی بن کر اسکے چہرے پر آئی۔
"یس آٹس می" دوسری طرف تھری پیس میں ملبوس، ہلکی ہلکی داڑھی رکھے۔ بہترین ہیئر کٹ کے ساتھ چہرے پر دلکش سی مسکراہٹ لیے، کوئی بھاری سی آواز میں بولا تھا۔۔۔۔ پھر جیسے وہ چہرہ منظر عام پر تھا۔۔۔۔۔۔۔ اسکی نیلی آنکھیں بھی ہنستی دیکھائی دیں۔
"بس میرے دوست۔۔۔۔ کہیں کھو گیا تھا یہ بندہ" مقابل کی دلکشی کچھ اور مدھم اور پیاری ہوئی۔۔۔
"ویسے بہت برے ہو تم۔۔۔ یوں کوئی کرتا ہے" اب تو حانی کے چہرے پر خفگی اور شکایت وافع تھی۔

anusinha
 

کہیں آپکو اس بات کا غم تو نہیں کہ منگنی کی جگہ ڈائریکٹ شادی کیوں نہیں ہو رہی" شاید وہ بھی اسے اب ہنسانا چاہتی تھی۔ اور وہ ہنسا بھی تھا۔
" ٹھیک پہنچی ہو۔۔۔ ویسے شادی کونسا دور ہے۔۔ ایک ماہ بس۔۔۔۔۔" مینال کو ناجانے کیوں لگا کہ حانی نے یہ بات بتائی کم اور جتائی زیادہ تھی۔ وہ بھی لمحہ بھر کو ساکت ہوئی مگر پھر کسی آواز پر دونوں چونکے۔۔۔
"بھائی۔۔۔۔۔۔۔ اندر آئیں۔ آپکے لیے لینڈ لائن پر کوئی کال ہے" اندر کمرے سے نیلم کی آواز نے دونوں کو واپس لایا تھا۔
"میرے لیے۔۔۔ کون ہے؟" حانی حیرانگی لیے بولا تو نیلم فون ہاتھ میں ہی پکڑے آگئی۔
"دیکھ لیں نا۔ کوئی ضروری کال ہو سکتی۔۔۔"وہ حانی کو فون دیتے بولی تو حانی اس سے لیتا ہوا اندر چلا گیا۔۔
"مینو۔ چلو ۔۔ دائم کہہ رہا پارلر چھوڑ آوں۔۔ جلدی چلو یہ نہ ہو اسکی محدود مدت کی آفر غائب ہو جائے"

anusinha
 

ہلکے گلابی اور سفید ڈھیلی سی شارٹ شرٹ اور جینز کے ساتھ۔۔۔۔ بال ویسے ہی گولڈن شیڈ دیتے ہوئے۔۔ اور ہنستی ہوئی خاموش سی وہ نیلی آنکھیں۔۔۔
"ایسا ہی ہے۔۔۔ یہاں کی رونق ہی تم اور دائم تھے۔۔ہنسنے ہنسانے والے۔۔۔۔ اب تو تم بھی کھو سی گئی ہو" وہ نارمل سے لہجے میں بولا تو وہ مسکرا سی دی۔
"ہو جاوں گی پہلے جیسی جلد۔۔۔۔۔ ویسے قمیص شلوار میں بہت ہنڈسم لگ رہے ہیں آپ برتھ ڈے بوائے" اب وہ اسکی تعریف پر مسکرا سا دیا تھا۔ لگے ہاتھوں وہ اسے اسکی برتھ ڈے بھی وش کر گئی۔۔۔۔
"ہاں بس آج آفس ڈے کی چھٹی تو سوچا زرا انسانوں کے روپ میں آجاوں۔ اینڈ برتھ ڈے مین بولا کرو اب۔۔۔۔" حانی نے شرارت لیے کہا تو دونوں ہی ایک دوسرے کی سمت دیکھ کر مسکرائے تھے۔۔۔ پھر یک دم حانی کی آنکھیں بوجھل سی ہوئیں۔ وہ نظریں ہٹا گیا۔۔۔
"کیا ہوا۔۔۔۔ آپ اداس کیوں ہو گئے۔۔۔

anusinha
 

ویسے بھی کونسا ان تینوں نے پارلر جا کر مس والڈ بن جانا" دائم کی ڈھٹائی پر سب ہی ہنس دیے۔۔۔ جبکہ اب نادیہ ضرور کان پکڑنے اسکی سمت بڑھیں۔۔۔
"شرم کر۔۔۔۔۔ وہ دلہا ہے۔۔ آج کے دن بھی کام کرتا اچھا لگے گا کیا؟ چل میرا سوہنا شہزادہ۔۔۔ اور سن! آتے ہوئے ماہین کا سوٹ بھی لے آنا درزی سے" اب تو نادیہ اور ماہین بھی دانت نکالے اسکی مسکین شکل دیکھ رہی تھیں۔۔۔ اسکا تو منہ یوں تھا گویا کوئی پہاڑ ٹوٹ گرا ہو۔
"اللہ پوچھے آپ کو۔۔۔ اتنا ظلم مجھ معصوم اور غریب پر" مینال بھی مسکراتی ہوئی وہیں آگئی۔۔۔ دائم کی باتیں سب کو ہی ہنسا رہی تھی۔۔
"چل چل" اب آگے منہ بنائے دائم تھا اور پیچھے پیچھے ماہین اور نادیہ۔۔۔
"بلکل نہیں بدلا دائم" حانی ورکز کی سمت متوجہ تھا جو تقریبا اب سجاوٹ کا کام مکمل کر چکے تھے۔۔ حانی نے دیکھا وہ اسکے ساتھ آکر کھڑی تھی۔

anusinha
 

"ھاھا ارے تب آپ میری پھرتیاں چیک کرنا پھر۔۔۔۔۔ ہر پھول اپنے ان نازک ہاتھوں سے لگائے گا دائم" اب تو اسے موقع ملنا چاہیے تھا پھیلنے کا۔بے شرموں کئ طرح دانت نکالے ارشاد کیا گیا۔۔ حانی بھی مسکرا دیا۔
"ارے میرے شہزادو! یہ میٹھا چیک کر دو۔ کوئی میری مدد بھی کر دے۔ حلوائی کب کا آیا بیٹھا ہے" ماہین، میٹھائی اور سوئیٹ ڈش کی پلیٹ تھامے ان دونوں کی طرف ہی آگئیں۔۔
"ہمم۔۔۔ پرفیکٹ ہے" حانی نے ہی یہ فریضہ سرانجام دیا۔
"اوئے دائم۔۔۔ ادھر آ میرا بچہ۔۔ یہ دانیہ، مینو اور نیلم کو پارلر تو لے جا۔ ڈرائیور کو میں نے کسی کام سے بھیجا ہے۔ آجا شاباش" نادیہ کا حکم تو جیسے دائم کو بڑا ناگوار گزرا۔۔۔ کام کی ایک اور ڈوز نازل ہوئی تھی۔۔۔ منہ تو اسکا ایسا لٹکا کہ سب ہنس دیے۔
"لو جی۔۔۔۔ مما انکو بھیجیں ناں۔۔۔ منگنی انکی ہے نا۔

anusinha
 

ٹھیک ہے۔۔۔ اب تم آرام کرو۔۔۔میں چلتا ہوں" وہ اپنی بات مکمل کرتے ہی اٹھ گئے۔ حانی بھی فرش سے اٹھ کر کھڑا ہوا اور انھیں دروازے تک چھوڑنے کے بعد واپس بیڈ تک آیا۔ یک دم جیسے اس چہرے پر اندھیرا سا لہرایا۔
"میں خوش ہوں کیا؟ آپ نے آج ایسا سوال کر دیا بابا جس کی جرت میں نے کبھی خود بھی نہیں کی" حانی کا چمکتا چہرہ جیسے بلکل ویران ہو گیا تھا۔۔۔
"سب کچھ اپنے ہاتھ میں ہونے کہ باوجود تم ایک بندھے ہوئے ناکام شخص ہو۔۔۔۔ بزدل کہیں کے۔۔۔۔۔۔" حانی خود کو کہہ رہا تھا۔ اور اب کی بار اسکی آنکھوں میں خود کے لیے غصہ تھا۔ کچھ تو تھا جو حنوط مرتضی کے اندر ٹوٹا تھا۔۔۔۔۔۔ پر ناجانے کیا؟؟؟؟؟
◇◇◇

anusinha
 

کچھ عادتیں، محبت کا حصہ بن جاتی ہیں۔ اور جو چیز محبت کا حصہ ہو، وہ امر ہو جاتی۔ کبھی نہیں بدلتی۔۔۔ خیر کہیے آپ" مہران کو ہمیشہ سے حانی پر فخر اور غرور تھا۔ اس نے آج تک انکو اسقدر عزت اور مرتبہ دیا تھا کہ وہ کبھی کبھی حانی کی اتنی توجہ پر ہنس دیا کرتے تھے۔۔۔وہ بچپن سے ہی ایسا تھا۔۔۔ اپنی بات منوانے اور بتانے دونوں کے لیے وہ ان قدموں کی جگہ ہی چنتا تھا۔ اور یہ چیز مہران کو ہمیشہ ہی نہال کر جاتی تھی۔۔۔۔ وہ حانی کے اس انوکھے انداز پر فدا سے ہو جاتے۔
"ویسے تو مجھے امید کے ساتھ ساتھ یقین ہے کہ تم مطمئین ہو۔۔۔مگر دل نے کہا ایک بار تم سے پوچھوں۔ کیا تم خوش ہو حانی" مہران صاحب نے شفیق انداز میں پوچھا۔
"کس بارے میں؟" اب تو مہران صاحب نے حیرت سے اسکی غائب دماغی پر غور کیا۔
"بھئی تمہارے اور دانیہ کے رشتے کے بارے میں۔ تم اس سے خوش ہو نا؟"

anusinha
 

وہ اسکے ساتھ ہی صوفے پر براجمان ہوتے بولے تھے۔
"نہیں تو۔۔۔۔ آج تو مصروفیت کو چھٹی دے دی۔۔۔۔" وہ جیسے واقعی کل کا سوچ کر مسکرایا تھا۔
"یہ تو بہت اچھا ہے۔۔۔ خوب گمایا پھر تم سب نے مینال کو یا نہیں؟" اب وہ شفیق سے انداز میں مینو کا ذکر کرتے بولے۔
"ہم نے تو اپنی پوری کوشش کی ہے۔۔ میرا خیال ہے اس نے آج کافی مزہ کیا ہے" حانی بھی اندازا لگاتے مسکرا دیا۔
"زبردست۔۔۔۔ دراصل میں نے تم سے ایک بات کرنی تھی" مہران پھر جیسے یک دم سنجیدگی اوڑھ کر دھیمے اور شفیق لہجے میں آئے۔ حنوط بھی ہمہ تن گوش ہو چکا تھا۔
"ارے بابا آپ حکم کریں" حانی اٹھ کر انکے قدموں میں آکر بیٹھا تو وہ دلکش سی ہنسی لیے مسکرا دیے۔
"اتنے بڑے ہو گئے ہو۔ ابھی تک تمہاری یہ عادت نہیں بدلی۔" وہ حانی کے اسقدر توجہ اور اپنائیت سے بات سننے کی طرف اشارہ کرتے مسکرائے.

anusinha
 

وہ سب لوگ رات کو واپس آئے تھے۔ خوب گھومنے اور مستی کرنے کہ بعد اب تو سب ہی تھکے بھی لگ رہے تھے ۔ رات کا کھانا بھی انہوں نے ریسٹورنٹ میں کھا لیا تھا۔ آجکا دن ان سب نے کی بہت ٹائم بعد اتنا انجوائے کیا تھا۔ خاص کر مینال کے لیے یہ دن کسی عید جیسا ہی تھا۔ وہ اب ویسے بھی چھوٹی چھوٹی یادیں تک اپنے پاس قید کر لیا کرتی تھی۔۔۔۔ اسے یہئ تو آتا تھا۔۔۔۔ وہ اب ان چیزوں پر زیادہ خوش رہتی تھی جو خواب جیسی تھیں۔۔۔ بنا کوئی وجود رکھے وہ اسے خوشی دیتی تھیں۔۔۔۔ کیونکہ شاید حقیقی خوشیاں تو وہ خود پر کئی سال پہلے ہی بند کر چکی تھی۔۔۔۔۔ سب ہی اپنے اپنے کمروں کی طرف چلے گئے تھے۔ حانی بھی فریش ہو کر آیا تو مہران صاحب کو آتا دیکھ کر مسکرا سا دیا۔
"آئیے نا بابا" وہ ادب سے کھڑا ہوتے بولا تو وہ مسکرا سے دیے۔
"بیٹھو برخوردار۔۔۔۔مصروف تو نہیں تھے۔"

anusinha
 

بڑی ہو گئی ہوں۔۔۔ کچھ بھی کہتے ہو آپ" وہ ابھی تک منہ پر ہاتھ دھرے ہنس رہی تھی۔ اور اب حانی اسے دیکھ کر مسکرا دیا۔۔۔
"شکر ہے یہ منہ پر ہاتھ رکھ کے ہنسنے والی ہنسی تو دیکھی تمہاری۔پہلے کی طرح۔۔۔۔" وہ دل میں اسے دیکھ کر سوچ رہا تھا۔
"لگتا ہے ان دونوں میں لطیفوں کا تبادلہ ہو رہا ہے" دائم نے ہنستے ہوئے مینو اور حانی کو دیکھ کر کہا۔
"ھاھا نہیں۔ وہ تمہاری ان بندروں والی حرکتوں پر ہنس رہے ہیں" نیلم نے بمشکل ہنسی روکی۔
"جیلس ہی رہنا تم۔۔۔۔" دائم منہ بناتا ہوا کچھ دور ان دونوں کے پاس گیا اور انھیں بھی زبردستی جھیل میں لے آیا۔۔۔۔دانیہ بھی اب سبکو پانی میں دیکھ کر مسکرا دی۔ ان سب نے کافی دیر وہاں سٹے کیا۔۔۔
◇◇◇

anusinha
 

۔ ہنی مون پر کسی اور ملک جانے کے بجائے ایسی نئی اور خوبصورت جگہوں پر جایا جائے" حانی ان تینوں کو مسکراتا دیکھ کر اسے بتا رہا تھا۔
"ناٹ بیڈ۔۔۔اسطرح تو دانیہ بلکل بور بھی نہیں ہوں گی۔۔ اور پاکستان کی نئی نئی جگہیں بھی دیکھ لیں گے آپ دونوں۔ " مینال کو بھی تجویز بہت پسند آئی تھی۔
"یہ تو ہے۔۔۔۔ تم تو ساتھ ہی جاو گی ناں ہمارے" اب تو حانی شرارت لیے بولا تو وہ کھل کر ہنسی۔۔۔ بہت عرصہ پہلے جب وہ انکی ناز اٹھوانے والی مینال ہوا کرتی تھی۔ تب اس نے ایک دن حکم سنایا تھا کہ آپ دونوں جہاں جائیں گے۔۔ مینو ساتھ ساتھ جائے گی۔۔۔۔دونوں ہی مسکرا رہے تھے۔
"ھاھا کیوں حانی۔ کہیں آپ اور دانیہ نے مجھے آڈاپٹ کرنے کا تو نہیں سوچ لیا؟" اب کھل کر ہنسنے کی باری حنوط کی تھی۔
"ویسے خیال برا نہیں" آنکھوں میں شرارت لیے بولا گیا۔
"میں اب بچی نہیں رہی حانی۔

anusinha
 

تو وہ سب بھی اسکی خوشی پر مسکرا دیے۔
"ارے سچ میں۔۔۔ رکو ہم بھی آتے" اب تو نیلم اور دانیہ بھی اندر چلے گئے۔۔۔
"تم بھی جاو ناں" حانی نے مسکرا کر جھیل دیکھتی ہوئی مینال کو کہا۔
"حانی۔۔۔ کیا اس جھیل میں مچھلیاں بھی ہیں؟" اب تو حنوط اسکے پرسوچ سوال پر ہنس دیا۔
"ہاں ناں۔۔۔ یہاں وہیل مچھلی ہے۔۔۔ اور شارک بھی۔ جو تمہیں کھانے کو تیار بیٹھی ہے" اگلے ہی لمحے مینو کے بھی دانت باہر تھے۔ وہ بھی حانئ کے ساتھ والے بڑے سے پتھر پر بیٹھ گئی۔
"ویری فنی۔۔۔۔ ویسے آپکی پسند اب تھوڑی سی بہتر ہو گئی ہے" مینال نے 'تھوڑی" پر زور دیتے کہا تو حانی مسکرا دیا۔
"ھاھا۔۔۔ تمہاری یہی بات تو دل کو لگتی ہے۔ باقیوں کی طرح کھل کر تعریف بھی نہیں کرتی ہو" حانی کو مسکراتا دیکھ کر بے ساختہ وہ بھی مسکرائی۔
"ویسے یو نو۔۔۔ میں کیا سوچ رہا ہوں۔

anusinha
 

دوسرے کنارے پر بڑے بڑے بھاری پتھر رکھ کر جھیل کا کنارہ بنایا گیا تھا۔ وہ ایک چھوٹی چوڑائی جبکہ لمبائی میں کافی لمبی سبز جھیل تھی۔۔۔ سڑک سے گزرتی اکا دکا گاڑیوں کے شور کے علاوہ اس جگہ دوسرا اور کوئی شور نہ تھا۔۔۔۔۔بہت خاموشی اور پرسکون کی ایک لہر جو وہ پانچوں ہی محسوس کرتے باہر نکل چکے تھے۔
"واوووووو" ان چاروں نے بیک وقت ساکت ہوتے کہا تو حانی بھی سامنے دیکھتے مسکرا دیا۔
"سچ آ بیوٹی فل پلیس۔۔۔۔" دائم تو فٹ کنارہ پار کیے جھیل کے اندر چلا گیا تھا۔۔۔ پینٹ اسکی پہلے ہی گھٹنوں تک فولڈ تھی۔
"دھوپ میں یہاں کا منظر اور دلکش ہوتا ہے۔۔۔ جب سورج کی تیز کرنیں اس سبز پانی پر پڑتئ ہیں" حانی کنارے پر دھرے بڑے سے پتھر پر بیٹھتے ہوئے انھیں بتا رہا تھا۔
"ارے کیا مزے دار ٹھنڈا پانی ہے۔۔۔ یاہو" دائم نے پانی میں جاتے ہی فل پرجوشی لیے بتایا

anusinha
 

حانی نے باہر جاتے ہی ایک نظر سب کو دیکھ کر کہا۔۔۔پھر وہ مسکراتے ہوئے گاڑی میں بیٹھ گئے۔ آگے حانی اور دائم جبکہ پیچھے وہ تینوں یعنی مینو، دانیہ اور نیلم بیٹھ چکی تھیں۔
"میوزک ہو جائے" گاڑی چلتے ہی دائم نے میوزک پلیئر آن کیا اور اگلے ہی لمحے گاڑی مکمل میوزک خانہ بن گئی۔۔۔ پیچھے والیوں نے تو اس بے سرے گانے پر کانوں میں ہاتھ ٹھونس لیے۔۔۔۔
◇◇◇
"یہ وہ جگہ ہے جہاں میں تم لوگوں کو لے کے آنا چاہتا تھا" حانی نے کسی سڑک کنارے گاڑی روکتے ہوئے جیسے اطلاع دی تھی۔ موسم یک دم ہی بادل والا ہو گیا تھا۔ اور دھوپ نہ ہونے کے باعث وہ جگہ جیسے مزید خوبصورت ہو گئی تھی۔ ہر چیز مہکتی اور تروتازہ دیکھائی دے رہی تھی۔ حانی انھیں سبز پانی کی ایک خوبصورت سی جھیل دیکھانے لایا تھا۔ سڑک کے ساتھ ہئ ملحقہ راستے کی اوپری جانب کئی چھوٹے چھوٹے درخت تھے۔۔

anusinha
 

ہن لگ رہے ہو ناں جنٹل ینگ مین۔۔۔۔۔ بھئی پتا لگے ناں کہ جوانوں کی ٹیم جا رہی ہے" دائم نے نیلم کو منہ چڑھاتے کہا اور پھر مکھن لگا لگا کر حانی کی تعریف میں قصیدہ گوئی کی گئی۔۔۔۔مینو نے حانی کو دیکھا تو وہ بھی ہنس رہا تھا۔ آج نہایت ہلکی شیو میں وہ پہلے سے زیادہ ہی دلکش لگ رہا تھا۔
"ایک تو میرا بچہ۔۔۔ اور اسکی شوخیاں" نادیہ اب سر تھام چکی تھیں مگر اگلے ہی لمحے دائم نے انھیں اتنی زور سے دبو چ کر گمایا کہ بچاری ہل ہی گئیں۔۔۔۔
"افففف جوتا کھائے گا تو۔۔۔۔ کتنی بار کہا ہے یہ مت کیا کر۔۔پتا نہیں ایک دم کونسے لاڈ پھوٹتے ہیں تجھ میں۔۔" نادیہ کو دیکھ کر سب ہی لوٹ پوٹ ہو رہے تھے۔۔وہ بھی ہنسی دبائے شرارت لیے تھا۔
"ھائے میری نازک پرنسس۔۔۔۔ " دائم بھی دانت نکالے بولا تو اب کی بار وہ بھی ہنس دیں۔۔۔
"اوکے آ بھی جاو اب ۔۔ بیٹھو سب۔۔۔ پورے ہو ناں؟"

anusinha
 

اوکے مما۔ ڈونٹ وری۔۔۔ میں جا رہا ہوں ناں۔سب کو وقت پے لے آوں گا۔۔۔ تسی ٹنشن نی لینی" دائم نے کباب کھانے کے بعد اب اپنی پینٹ کے پائنچے فولڈ کرتے ہی جواب ارشاد فرمایا۔۔
"تم جا رہے ہو ساتھ۔۔ تبھی تو فکر ہے بچے" ماہین بھی ہنسی دبائے اسکی کٹ لگانا نہیں بھولیں تھیں۔ سب ہنس دیے۔
"بھئی کیا ہم کسی دریا کو عبور کرنے جا رہے ہیں؟" حانی نے بھی پائنچوں سے پینٹ فولڈ کر رکھی تھی۔مینال نے ہنستے ہوئے پوچھا ۔
"یہ اسٹائل ہے لڑکی" دائم نے کالر جھارے اطلاع دی۔
"ھاھا اور یہ تو دنیا کا پہلا سٹائیل آئیکن ہے۔ اسے ہر فیشن کا علم ہے" نیلم کی بات پر مینو سمیت باقی بھی ہنسے اور وہ منصوعی خفا آنکھیں نکال کر اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔ خود نیلم بھی ہنس دی۔
"ہممم۔۔۔ جلتی ہی رہے گی دنیا۔۔۔۔۔ویسے حانی بھائی یہ اچھا کیا کہ آپ نے لگے ہاتھوں یہ منہ کا جنگل کم کر دیا۔۔۔۔

anusinha
 

بھئی پانی رکھا ہے تم لوگوں نے؟" دائم نے گاڑی میں سامان رکھتے ہوئے کسی ذمہ دار بندے کا فرض نبھاتے آواز لگائی۔ انکا ارادہ گھومنے کے ساتھ پکنک کا بھی تھا۔
"یس۔ تم ٹنشن نہ لو۔۔ تم سے زیادہ سمجھدار ہیں ہم" نیلم نے سر پر پہنی ہیٹ کو کمال ادا سے گماتے اسے اطلاع دی جس پر وہ دانت نکال چکا تھا۔۔
"ھاھا ۔۔۔یہ بندر والی ٹوپیاں کیوں پہن رکھی ہیں ذمہ دار صاحبہ" دائم نے تینوں لڑکیوں کے سر پر پہنی کیپ کی جانب دیکھتے قہقہہ لگایا۔۔
"کیونکہ دو بندر بھی ساتھ جا رہے ہیں" اب تو دانیہ کی بات پر سب ہنس دیے سوائے بچارا منہ بنائے حانی اور دائم کے۔
"اووو نکل بھی جاو تم لوگ۔ ایک تو تیاریاں نہیں ختم ہو رہیں تم سب کی۔ اور ہاں، شام تک واپسی ہو جانی چاہیے۔" نادیہ ناشتے کے بعد سب کے لیے کباب بیک کر کے لائیں جن میں سے فورا دائم اٹھا کر منہ میں ڈال چکا تھا۔۔۔

anusinha
 

جس دن اپنی لڑائی ہار گیا اس دن مہر کے آگے ہتھیار بھی ڈال دوں گا" وہ بلا کا سنجیدہ پن لیے تھا۔
"تم یہ کہنا چاہ رہے ہو کہ اب میں تمہاری ہار کی دعا کروں۔۔۔۔۔" اسے وہ ظالم لگی۔
"کر لو۔۔۔ اگر کر سکو" وہی لہجہ۔۔۔ مینو لاجواب ہوئی۔
"ٹھیک ہے۔۔۔ رکھتی ہوں اب۔ " وہ نظریں چرائے تھی۔
"ٹھیک ہے۔ سی یو۔۔۔ ٹیک کئیر" عادی کے کہتے ہی اس نے لیپ ٹاپ بند کر دیا۔ اور ایک سرد آہ بھری۔۔۔ نو بج چکے تھے۔ دس بجے تک سب آج گھومنے نکلنے والے تھے لہذا اب اسکا ارادہ فریش ہو کر ریڈی ہونے کا تھا۔۔۔
◇◇◇

anusinha
 

اور سنو۔۔۔مہر بتا رہی تھی کہ تم پھر سے شادی کے لیے ٹال رہے ہو۔ کیوں عادی؟" اب تو مینو کی خفا نظریں عادل پر تھیں۔ اور یوں محسوس ہوا جیسے اس سمت خاموشی پھیل گئی ہو۔
"وہ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
زندگی بھر کی شناسائی چلی جائے گی۔
گھر بسا لوں گا تو تنہائی چلی جائے گی۔" وہ جیسے کوئی بڑا شاعر بنتے ہوئے بولا تھا۔۔۔۔۔ مینال مسکرا دی۔
"تم تو شاعر بھی بن گئے۔ کیا انداز اور انتہاب چنا ہے مجھے ٹالنے کو" گو بات گہری تھی پر مینو نے مسکرا کر کہی۔
"ابھی تو ناجانے کیا کیا بننا باقی ہے۔۔۔۔ دیکھتی تو جاو۔۔۔ آگے ہوتا ہے کیا" وہ بہت خوبصورتی سے بات ٹالنے کا ہنر رکھتا تھا۔
"عادی۔۔۔۔ باتوں کو کب تک ٹالتے رہو گے۔ ہو سکے تو مہر کی بات سمجھنے کی کوشش کرو۔ وہ تمہارے لیے بہت فکر مند رہتی ہے" مینال نے بھی اس پار اسکی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے ریکوسٹ کی۔۔۔