ہوا میں خنکی ہے، کمرے میں گہما گہمی، گلی، کوچے، بازار رنگا رنگ برقی قمقموں سے سجے ہیں، میلاد کا سما ہے، پتہ ہے آج کیا ہوا؟ میں نے چاند کے ساتھ دو ستارے دیکھے، میں یہ پہچاننے سے عاجز رہی کہ ان میں میرا ستارہ کونسا ہے، عجیب ہے ناں! پھر مجھے آپ بہت یاد آئے۔ ۔ پر میں آپ کو بھولی نہیں۔ قلب مضطرب نے کہا تھا، مجھے قدر دانوں کی ضرورت نہیں، قلب مطمئن نے کہا، قابل کو قدر خوب ملتی ہے اور خود ہی۔ ۔ قلب مومن پاس کھڑا مسکراتا رہا؛ اطمینان، قدر دان اور قابلیت سب میرے پاس ہی تو ہے۔ ۔ لیکن یہ لڑکی ہاتھ نہیں بڑھاتی کہ مجھے تھام سکے۔ ۔ میں کیا کروں؟ میں ہاتھ بڑھاتی ہوں۔ ۔ بہت ہمّت سے مگر میرا ہاتھ ایمان کو تھام نہیں پاتا، جیسے۔۔۔۔ جیسے روشن دان سے آنے والی روشنی مٹھی میں بھر کر مقدر میں حل نہیں کی جا سکتی! بھلا نور بھی کسی ہاتھ کی گرفت میں آیا ہے؟
And with the passage of time she realized that she doesn't love anyone, neither children nor elders... not even her own self. Because love is an illusion, it-always-been.
رات زخم بھرتی ہے خوابوں کے ملاقاتی انتظار کرتے ہیں ریلوے سٹیشن اور لوگوں کا بہنگم ہجوم سفید جوڑے میں ملبوس وہ اک شخص، کتنا شناسا لگتا تھا میں اس ہی کے ہم قدم تو جچتی تھی اندرون شہر میں کھوجتی میری بے صبر آنکھ مہربان وجود کو ڈھونڈ ہی لیتی تھی رات واقعی ادھڑے زخموں کو ٹانکا ٹانکا سیتی ہے خواب واقعی منتظر روح کی ملاقات کرواتے ہیں