کیا ہوا؟ آسمان سے دل بیزار ہوگیا۔ لیکن سر چھپانے کو اس سے وسیع کوئی چھت بھی نہیں۔ ۔ ۔ پھر آسمان سے کہہ دو کہ ان سورج، چاند ستاروں کو اپنے ماتھے سے نوچ ڈالے، مجھے ان سے وحشت ہوتی ہے تم اندھیرے سے ڈر جاؤ گی۔ بھلا سیاہی بھی سیاہی سے کبھی چھپتی ہے؟
عاشق پر الزام لگایا گیا کہ تمہارا تو دل ہی بکاؤ ہے، جب چاہا دل لگی میں لگا لیا۔ تو جہان بھر کے حقائق سے آشنا بہتی ہوا متبسم ہوئی اور طعنہ زن، غافل کی لاعلمی پر افسوس کرتی کہنے لگی جو مقامِ اول سے ناواقف ہیں وه مقامِ آخر پر قياس آرائی کرنے کا حق اس ہی دن کھو چکے تھے جس دن سمندر کی لہریں پہلی مرتبہ بپھریں، جس دن زمین سورج کے گرد چکر لگانے لگی، جس دن نبات نے اپنا ننها سر دھرتی کی گود سے اٹھایا! عشق کا اولین درجہ تو سینے میں رکھے دل کا کھو دینا ہے، جو چیز ہے ہی گمشدہ وه بھلا بکاؤ کیونکر ہوئی؟ یہاں محبت کا تخم دل کا بوسہ لینے کو جھکا اور وہاں عشق کا معجزاتی نخل پروان چڑھا پھر کون جانے، کب سے یہ کراماتی شجر، دل کو اپنے دامن میں چھپائے کیفیات کے اثمار سے لدها رہا۔
انسان کا اپنا قصور کہاں ہوتا ہے؟ یہ تو وه باتیں اور جملے ہوتے ہیں جو ہمارے لاشعور میں گردش کرتے ہیں، ہم اپنے آپ سے ہی ناواقف رہتے ہیں۔ آہستہ آہستہ ان کی بازگشت ہونے لگتی ہے اور پھر یہی نکتے ہمارے شعور کا حصہ بن جاتے ہیں۔
آپ کو پتا ہے، میں نے اپنے بالوں کی طرح اپنے ہاتھ پھیلاۓ اور خوشبو سے سجا دامن بھی، لیکن میرے ہاتھ کسی نے نہیں تھامے۔ ۔ جیسے اس لمس سے میری بدقسمتی رنج کی صورت منتقل ہو جاۓ گی یاجیسے دامن سے اٹھتی مہک، تعفن میں تبدیل ہو کر وبا پھیلاۓ گی۔