ہم جولیوں سے مل کے جو ہوں گی ہم خیال ماضی کے واقعات بھلایا کروں گی میں ہر دور ہی ہوتا ہے شرارت کے واسطے سب کو ہنسا ہنسا کے بتایا کروں گی میں فُرقت میں دورِ گوشہ نشینی ہی چاہیے خود اپنے ساتھ وقت بِتایا کروں گی میں نوکر تو کیا ، اُلجھوں گی میں ہر ایک شخص سے اب اپنی غلطیوں کو چھپایا کروں گی میں دل کو ترے خیال کی وحشت میں ڈال کر خود اپنی وحشتوں کو ڈرایا کروں گی میں حالات و واقعات تو بدلیں ہی گے جناب ! بے طور اپنے جی کو لگایا کروں گی میں ہاں سچ کہا ! اک دن ہے تغیر کے واسطے پر شوق سے ہر خلش کو پایا کروں گی میں " نقشِ کہن " کو دل سے مٹایا نہیں گیا گزرے ہوئے دنوں کو بھلایا نہیں گیا ! آیت فاطمہ
" جواب نقشِ کہن " اشکوں کو اپنے ضبط سکھایا کروں گی میں روٹھے جو کوئ اب نا منایا کروں گی میں جاتا رہے وہ صُبحِ محبت کا کارواں اب شام اپنے گھر میں منایا کروں گی میں چند خود پرستوں ، بے وفاؤں کی ہے کیا مجال خود اپنے دل کے ناز اٹھایا کروں گی میں جشنِ شبِ فراق منایا کروں گی میں تاروں کو دل کا حال سنایا کروں گی میں شکلیں بنا کے آپ کی کاغذ کے ورق پر پھر آپ کے ہی رنگ اڑایا کروں گی میں اب اُلجھنوں سے بیر نا پالا کروں گی میں سُلجھا کے ان کو جی سے لگایا کروں گی میں ملتی رہے تنہائی کو یونہی شکستِ فاش اونچے سُروں میں گیت ہی گایا کروں گی
زندگی میں ڈیلیٹ کا آپشن ضرور ہونا چاہیے، ایک ایسا آپشن جس سے آپ اپنے چہرے پر گاڑھے گئے ناخنوں کے بدصورت نشان مٹا سکیں کیونکہ دم تو ہم سب ہی کا گھٹتا ہے، جنس سے بالا تر ہو کر۔ ۔ میک اپ کی دبیز تہہ ہو یا پھر چہرے پر سجا مکھوٹا، بد صورتی چھپانے کی جدوجہد اور پھر آکسیجن کی کمی روح اور جسم کے ساتھ کی دشمن ہوئی چاہتی ہے لیکن ستم ظریفی تو دیکھیں کہ دم گھٹتا ہے پر روح پرواز نہیں کرتی، پھر ہم انسان، ہم ٹھہرے اگلے درجے کے ایکسٹریمسٹس۔
"اچھا میں ایک ارب لکھ دیتی تو کیا کرتے؟" "تو ایک ارب بھی دے دیتا" "کہاں سے دیتے؟ فراڈ کرتے؟" "کیوں کرتا کما کر دیتا" "ساری عمر کماتے ہی رہتے پھر" "اچھا ہوتا ساری عمر تمہارا مقروض رہتا" "کیوں دے رہے ہو اتنے پیسے؟" "بیوی ہو تم، اسی لیے میرا دل چاہتا ہے تمہیں دوں،اگر یہ پوری دنیا میری ہوتی، تو میں یہ ساری دنیا تمہیں دے دیتا" *آبِ حیات*