آنکھ میں پھیلا کاجل بتلاتا جاتا ہے آدمی غم سے بھی نبھاتا جاتا ہے تمہیں بھولنے کے لئے سگریٹ سلگایا تھا دھواں کمبخت تری تصویر بناتا جاتا ہے مرے آئنہ دل میں بھی اب چاہت کم ہے کچھ وہ بھی مجھ سے کتراتا جاتا ہے جسے دیکھ جاں میں جاں آ جاتی تھی اب وہ گلی میں کم کم آتا جاتا ہے انجام کی پرواہ کئے بغیر اک درویش سچائی کا ڈھول بجاتا جاتا ہے بچھڑ کر بھی شاہد جو دل کے قریں ہے اسی کا تو دکھ ہم کو رلاتا جاتا ہے شاہد راجپوت
اپنی باتوں میں میرے نام کے حوالے رکھنا، مجھ سے دور ہو تو خود کو سنبھالے رکھنا....!! لوگ پوچھیں گے کیوں پریشان ہو تم، کچھ نگاہوں سے کہنا، زبان پہ تالے رکھنا.....!! نہ کھونے دینا میرے بیتے لمحوں کو، میری یادوں کو بڑے پیار سے سنبھالے رکھنا......!! تم لوٹ آو گے اتنا یقین ہے مجھ کو، میرے لئے کچھ وقت نکالے رکھنا......!! دل نے بڑی شدت سے چاہا ہے تمہیں، میرے لئے اپنے انداز وہی پرانے رکھنا.....!!