کبھی کہا نہ کسی سے ترے فسانے کو نہ جانے کیسے خبر ہو گئی زمانے کو دعا بہار کی مانگی تو اتنے پھول کھلے کہیں جگہ نہ رہی میرے آشیانے کو مری لحد پہ پتنگوں کا خون ہوتا ہے حضور شمع نہ لایا کریں جلانے کو سنا ہے غیر کی محفل میں تم نہ جاؤ گے کہو تو آج سجا لوں غریب خانے کو دبا کے قبر میں سب چل دیئے دعا نہ سلام ذرا سی دیر میں کیا ہو گیا زمانے کو اب آگے اس میں تمہارا بھی نام آئے گا جو حکم ہو تو یہیں چھوڑ دوں فسانے کو قمرؔ ذرا بھی نہیں تم کو خوف رسوائی چلے ہو چاندنی شب میں انہیں بلانے کو استاد قمر جلالوی
میں لوگوں سے محبت میں انائیں چھوڑ دیتا ہوں وفائیں یاد رکھتا ہوں جفائیں چھوڑ دیتا ہوں کھلے رکھتا ہوں دل کے راستے ناراض لوگوں میں میں واپس آنے والوں کی خطائیں چھوڑ دیتا ہوں میں سب لوگوں سے ملتا ہوں ادب سے بات کرتا ہوں یہ شہرت اور بلندی کی ہوائیں چھوڑ دیتا ہوں تكبر شور کرتا ہے کرو تذلیل لوگوں کی میں اپنے نفس کی ساری سدائیں چھوڑ دیتا ہوں