جو شخص شور کی بجائے موسیقی ، خوشی کی بجائے اطمینان ، سونے کی بجائے روح کاروبار کے بجائے تخلیقی کام ، بے وقوفی کی بجائے جذبہ چاہتا ہے ، اسے ہماری اس معمولی دنیا میں کوئی گھر نہیں مل سکتا ہے۔
چاہتوں کے سلسلے اور__بے خودی ذرا ذرا وہ مختصر سی خواہشیں_اور عاشقی ذرا ذرا یہ دوریاں نزدیکیاں__سب کہنے سننے کی بات ہے ھیں لفظوں میں بھی__فاصلے اور بندگی ذرا ذرا کس ادا سے مانگ لوں کہ مل جاۓ__تو مجھے اک دعا،منتظر ،لب اور__عاجزی ذرا ذرا کبھی ہجر میں بھی قرار ہے کبھی دھڑکنوں سے بھی الجھن نہ ہوش ہے نہ خود کی_خبر اور دیوانگی ذرا ذرا اے دل کانچ کے یہ خواب ھیں پلکیں کھلی تو کچھ نہیں بڑی حسرتیں ھیں جینے__کی اور زندگی ذرا ذرا
اپنی ہی صدا سنوں کہاں تک جنگل کی ہوا رہوں کہاں تک ہر بار ہوا نہ ہوگی در پر ہر بار مگر اٹھوں کہاں تک دم گھٹتا ہے گھر میں حبس وہ ہے خوشبو کے لئے رکوں کہاں تک پھر آ کے ہوائیں کھول دیں گی زخم اپنے رفو کروں کہاں تک ساحل پہ سمندروں سے بچ کر میں نام ترا لکھوں کہاں تک تنہائی کا ایک ایک لمحہ ہنگاموں سے قرض لوں کہاں تک گر لمس نہیں تو لفظ ہی بھیج میں تجھ سے جدا رہوں کہاں تک سکھ سے بھی تو دوستی کبھی ہو دکھ سے ہی گلے ملوں کہاں تک منسوب ہو ہر کرن کسی سے اپنے ہی لیے جلوں کہاں تک آنچل مرے بھر کے پھٹ رہے ہیں پھول اس کے لئے چنوں کہاں تک
اب بھلا چھوڑ کے گھر کیا کرتے شام کے وقت سفر کیا کرتے تیری مصروفیتیں جانتے ہیں اپنے آنے کی خبر کیا کرتے جب ستارے ہی نہیں مل پائے لے کے ہم شمس و قمر کیا کرتے وہ مسافر ہی کھلی دھوپ کا تھا سائے پھیلا کے شجر کیا کرتے خاک ہی اول و آخر ٹھہری کر کے ذرے کو گہر کیا کرتے رائے پہلے سے بنا لی تو نے دل میں اب ہم ترے گھر کیا کرتے عشق نے سارے سلیقے بخشے حسن سے کسب ہنر کیا کرتے
بہت رویا وہ ہم کو یاد کر کے ہماری زندگی برباد کر کے پلٹ کر پھر یہیں آ جائیں گے ہم وہ دیکھے تو ہمیں آزاد کر کے رہائی کی کوئی صورت نہیں ہے مگر ہاں منت صیاد کر کے بدن میرا چھوا تھا اس نے لیکن گیا ہے روح کو آباد کر کے ہر آمر طول دینا چاہتا ہے مقرر ظلم کی میعاد کر کے
یہ پیران کلیسا و حرم اے وائے مجبوری صلہ ان کی کد و کاوش کا ہے سینوں کی بے نوری یقیں پیدا کر اے ناداں یقیں سے ہاتھ آتی ہے وہ درویشی کہ جس کے سامنے جھکتی ہے فغفوری کبھی حیرت کبھی مستی کبھی آہ سحرگاہی بدلتا ہے ہزاروں رنگ میرا درد مہجوری حد ادراک سے باہر ہیں باتیں عشق و مستی کی سمجھ میں اس قدر آیا کہ دل کی موت ہے دوری وہ اپنے حسن کی مستی سے ہیں مجبور پیدائی مری آنکھوں کی بینائی میں ہیں اسباب مستوری کوئی تقدیر کی منطق سمجھ سکتا نہیں ورنہ نہ تھے ترکان عثمانی سے کم ترکان تیموری فقیران حرم کے ہاتھ اقبالؔ آ گیا کیونکر میسر میر و سلطاں کو نہیں شاہین کافوری
ذکرِ آقا اور دیدہ تر ہے یہ لمحہ کتنا معتبر ہے عشق یوں جکڑ لیتا ہے دل کا عالم کہ محشر ہے مجھ سیاہ کار پہ یہ کرم تا آسماں نور کی راہگزر ہے آنکھیں چھلک رہی ہیں دل کا صحرا تر بہ تر ہے بہار کا عالم ہے ہر طرف جذب کا خضرا تک سفر ہے اس نوکری میں رخصت نہیں اجرت عنایت کی اک نظر ہے عمر بھر درود و سلام پڑھوں کار_ زندگی کتنا مختصر