جس کو دیکھو کال یا تصویر کے چکر میں ھے عشق بھی تعویذ والے پیر کے چکر میں ھے ہوش میں مجنوں ملے گا جھنگ کے بازار میں ۔ چھوڑ کر لیلیٰ کو اب وہ ہیر کے چکر میں ھے ۔ اتنا بھی آساں نہیں ھے دل کسی کا جیتنا پوچھ لے انڈیا سے جو کشمیر کے چکر میں ہے۔ کل تلک شاعر تھا جو گوشہ نشیں ، خاموش سا دامادم پر آج کل تشہیر کے چکر میں ھے ۔۔ حال وہ سنتا نہیں ھے مختصر الفاظ میں ۔ اور دل معصوم یہ تفسیر کے چکر میں ھے ۔ رات پھر روتا ہوا وہ آنکھ میں ہی سو گیا ۔ اک ادھورا خواب جو تعبیر کے چکر میں ھے ۔ وقت سے پہلے ملیں جو تلخیاں مقدور تھیں ۔ زندگی کی ہر خوشی تاخیر کے چکر میں ھے ۔۔