برباد معاشروں میں لوگوں کو صرف سننا سکھایا جاتا ہے سوچنا نہیں ، کيونکہ سوچنے سے لوگ غلام نہیں رہتے ...
ڈھیر ساری نامکمل خواہشوں کے ہوتے خوشی کے کچھ پل چرا لینے کا نام زندگی ہے ...

ﮐﺒﮭﯽ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﮯ،
ﮐﯿﻔﯿﺖ ﮐﻮ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ،
ﭘﮭﺮ بھی ﺩﻝ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ،
ﮐﻮﺋﯽ ﺳﻦ ﻟﮯ، ﺳﻨﺒﮭﺎﻝ ﻟﮯ، ﺳﻤﯿﭧ ﻟﮯ.
پھر ہميں چھوڑ ديا جاتا ہے ڈھير سارے زہر بھرے جملوں کے ساتھ ...

زندگی در بدر لئے پھرتی ہے بوجھل بدن
روح تو گروی پڑی ہے آستانہء یار پر۔


دوستی جب کسی سے کی جائے...
دشمنوں کی بھی رائے لی جائے...
راحتؔ اندوری







.
عمر بھر لکھتے رہے پھر بھی ورق سادہ رہا...
جانے کیا لفظ تھے جو ہم سے نہ تحریر ہوئے...
صابر ظفر


submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain