یہ سوچ کر کہ غم کے خریدار آ گئے ہم خواب بیچنے سرِ بازار آ گئے یوسف نہ تھے مگر سرِ بازار آ گئے خوش فہمیاں یہ تھیں کہ خریدار آ گئے اب دل میں حوصلہ نہ سکت بازوؤں میں ہے اب کہ مقابلے پہ میرے یار آ گئے آواز د کے چھپ گئی ہر بار زندگی ہم ایسے سادہ دل تھے کہ ہر بار آ گئے ہم کج ادا چراغ کہ جب بھی ہوا چلی تاکوں کو چھوڑ کر سرِ دیوار آ گئے سورج کی روشنی پہ جنہیں ناز تھا فراز وہ بھی تو زیرِ سایہ دیوار آ گئے احمد فراز
کسی کا عشق، کسی کا خیال تھے ہم بھی گئے دنوں میں بہت با کمال تھے ہم بھی . ہماری کھوج میں رہتی تھیں تِتلیاں اکثر کہ اپنے شہر کا حسن و جمال تھے ہم بھی . زمیں کی گود میں سر رکھ کر سو گئے آخر تمہارے عشق میں کتنے نِڈھال تھے ہم بھی . ضرورتوں نے ہمارا ضمیر چاٹ لیا وگرنہ قائلِ رزقِ حلال تھے ہم بھی . ہم عکس عکس بکھرتے رہے اسی دُھن میں کہ زندگی میں کبھی لازوال تھے ہم بھی پروین شاکر
کوئی پتھر کوئی گہر کیوں ہے فرق لوگوں میں اس قدر کیوں ہے تو ملا ہے تو یہ خیال آیا زندگی اتنی مختصر کیوں ہے جب تجھے لوٹ کر نہیں آنا منتظر میری چشم تر کیوں ہے اس کی آنکھیں کہیں صدف تو نہیں اس کا ہر اشک ہی گہر کیوں ہے رات پہلے ہی کیوں نہیں ڈھلتی تیرگی شب کی تا سحر کیوں ہے یہ بھی کیسا عذاب دے ڈالا ہے محبت تو اس قدر کیوں ہے تو نہیں ہے تو روز و شب کیسے شام کیوں آ گئی سحر کیوں ہے کیوں روانہ ہے ہر گھڑی دنیا زندگی مستقل سفر کیوں ہے میں تو اک مستقل مسافر ہوں تو بھلا میرا ہم سفر کیوں ہے تجھے ملنا نہیں کسی سے عدیمؔ پھر بچھڑنے کا تجھ کو ڈر کیوں ہے...!
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں۔۔ یاد کیا تجھ کو دلائیں تیرا پیماں جاناں۔۔ یونہی موسم کی ادا دیکھ کر یاد آیا ہے، کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں۔۔ زندگی تیری عطا تھی سو ترے نام کی ہے، ہم نے جیسے بھی بسر کی ترا احساں جاناں۔۔ دل یہ کہتا ہے کہ شاید ہو افسردہ تو بھی، دل کی کیا بات کریں دل تو ہے ناداں جاناں۔۔ اول اول کی محبت کے نشے یاد تو کر، بے پئے بھی تیرا چہرہ تھا گلستاں جاناں۔۔ آخر آخر تو یہ عالم ہے کہ اب ہوش نہیں، رگِ مینا سلگ اٹھی کہ رگِ جاں جاناں۔۔ مدتوں سے یہ عالم نہ توقع نہ امید، دل پکارے ہی چلا جاتا ہے جاناں جاناں۔۔ ہم بھی کیا سادہ تھے ہم نے سمجھ رکھا تھا، غمِ دوراں سے جدا ہے غمِ جاناں ، جاناں۔۔