اندھیرا مٹتا نہیں ہے مٹانا پڑتا ہے بجھے چراغ کو پھر سے جلانا پڑتا ہے یہ اور بات ہے گھبرا رہا ہے دل ورنہ غموں کا بوجھ تو سب کو اٹھانا پڑتا ہے کبھی کبھی تو ان اشکوں کی آبرو کے لیے نہ چاہتے ہوئے بھی مسکرانا پڑتا ہے اب اپنی بات کو کہنا بہت ہی مشکل ہے ہر ایک بات کو کتنا گھمانا پڑتا ہے وگرنہ گفتگو کرتی نہیں یہ خاموشی ہر اک صدا کو ہمیں چپ کرانا پڑتا ہے اب اپنے پاس تو ہم خود کو بھی نہیں ملتے ہمیں بھی خود سے بہت دور جانا پڑتا ہے اک ایسا وقت بھی آتا ہے زندگی میں کبھی جب اپنے سائے سے پیچھا چھڑانا پڑتا ہے بس ایک جھوٹ کبھی آئنے سے بولا تھا اب اپنے آپ سے چہرہ چھپانا پڑتا ہے ہمارے حال پہ اب چھوڑ دے ہمیں دنیا یہ بار بار ہمیں کیوں بتانا پڑتا ہے
غزل تمھاری یاد میں کُل کائنات ہوتی ہے اسی میں زیست اسی میں ممات ہوتی ہے وہ ایک شخص مرے ساتھ جب نہیں ہوتا نہ ہو کے تنہا بھی تنہائی ساتھ ہوتی ہے ہمارا ربط ہے ایسا ہر ایک محفل میں تمھارے ساتھ ہماری بھی بات ہوتی ہے ہماری سمت کچھ ایسے چراغ روشن ہیں کہ جن کو دیکھ کے روشن حیات ہوتی ہے یہ عام کھیل نہیں ہے یہ کھیل الفت کا کہ جیت جیت نہیں اس میں مات ہوتی ہے ہمیں تو صبح ہمیشہ سکوں نہیں دیتی کبھی کبھی تو سہانی بھی رات ہوتی ہے میں اس کو پیار نہ بولوں تو اور کیا بولوں ہر ایک زاویے پر تم سے بات ہوتی ہے شبِ فراق کا ڈر ہے مگر حقیقت ہے محبتوں میں مکمل حیات ہوتی ہے اس ایک بات کی گہرائی کون سمجھے گا تمام باتوں میں اکبرؔ جو بات ہوتی ہے شاعر اکبر جلالؔ
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain