ﺩﻝ ﭘﮧ ﮐﯿﺎ ﮐﯿﺎ ﻧﮧ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﮨﻮﺉ ﺑﺮﭘﺎ ﻣﺖ ﭘﻮﭼﮫ ,
ﺑﮭﯿﮕﮯ ﺑﺎﻟﻮﮞ ﺳﮯ ﺟﻮ ﺍﮎ ﺷﺎﻡ ﻧﭽﻮﮌﯼ ﺍﺱ ﻧﮯ
ﺍﭨﮑﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ﯾﻮﮞ ﻣﺮﯼ ﺷﮧ ﺭﮒ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﮨﺠﺮ "
ﺁﺗﯽ ﮨﮯ ﺳﺎﻧﺲ ﺳﺎﻧﺲ ﺑﮭﯽ ﺍﺏ ﭼﮭﯿﻞ ﭼﮭﯿﻞ ﮐﺮ
ﻣﺪﺕ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺟﻮ
ﺁﻭﺍﺯ ﺩﯼ ﻣﺠﻬﮯ
ﻗﺪﻣﻮﮞ ﮐﯽ ﮐﯿﺎ ﺑﺴﺎﻁ ﺗﻬﯽ ،
ﺳﺎﻧﺴﯿﮟ ﺑﻬﯽ ﺭﮎ ﮔﺌﯿﮟ
ﮐﺒﮭﯽ ﮐﺒﮭﯽ ﻓﻘﻂ ﺍﯾﮏ ﭘﺮﻧﺪﮮ ﮐﯽ ﮨﺠﺮﺕ ﺟﮭﯿﻞ ﮐﺎ ﺳﺎﺭﺍ ﻣﻨﻈﺮ ﺑﺪﻝ ﺩﯾﺘﯽ
ﮨﮯ...
اُن صاحب کی بہت یاد آتی ہے جنہیں انگریزی ذرا مناسب ہی آتی تھی. انگلستان میں ایک ریستوران میں گئے اور مینیو پر یونہی انگلی چلا کر آرڈر دے دیا. خوراک آئی تو بہت مزیدار تھی. اس لیے کہنے لگے "اینڈ برنگ" یعنی "اور لاؤ". پھر کھانے سے فارغ ہو کر بولے."برنگ میتھے میٹک"یعنی "حساب لے آؤ"
اُس زمانے میں اسے لطیفہ سمجھا جاتا تھا جو اب حقیقت بن چکا ہے. کیونکہ ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر کچھ اسی نوعیت کی انگریزی کا چلن ہے.
"بے عزتی خراب" سے اقتباس
😄😛😜
میں پورے شہر کی ہمدردیوں______کا کیا کرتا!!!
مجھے کسی کی ضرورت تھی ہر کسی کی نہیں!!!
sad
بہت مضبوط تھے مگر
جی بھر کے توڑا گیا ھمیں
تمہیں روکا تو جا سکتا ہے لیکن
مرے اعصاب میں قوت نہیں ہے
تیرے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا
تیرے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا
ہر آرزو فریب ہے ہر____جستجو سراب!!!
مچلے جو دل بہت اُسے سمجھا دیا کرو!!!
میرے مذہب میں شراب پینا حرام ہے
اس لیے تیری جدائی میں لسی پی رہا ہوں
😊
فاصلہ رکھیں ورنہ
پیار ہو جائے گا
😊
اُسے میک اپ کی چیزیں پسند تھی اور مجھے سادگی پسند تھی . وہ گرین ٹی اور کافی پہ مرتی تھی اور میں سادہ چائے پہ . اُسے میوزک شور شرابا پسند تھا مجھے قوالیاں ، سنسان اور ویران راستے اُسے شاعری غزلیں سب بورنگ لگتی تھی ، وہ بڑے بڑے شہروں میں شاپنگ کے خواب دیکھتی تھی اسکی باتوں میں مہنگے شہر تھے اور میرا تو پورا شہر ہی وہ تھی نہ میں نے اُسے بدلا نہ اُس نے مجھے. ہم آگے بڑھ گئے. سال یاد ہیں اُس کی ہر بات یاد ہے کچھ دن پہلے اُس نے بتایا ٹھنڈی جگہ اکیلے گھوم آئی رات کو اب اُس کا دل بھی چاہے پینے کو کرتا ہے اب میں بھی اکثر کافی پی لیتا ہوں کسی مہنگی جگہ بیٹھ کر …
مجھے اشتہار سی لگتی ہیں یہ محبتوں کی کہانیاں
تو نے دیکھی ہے وہ پیشانی وہ رخسار وہ ہونٹ
زندگی جن کے تصور میں لٹا دی ہم نے
تجھ پہ اٹھی ہیں وہ کھوئی ہوئی ساحر آنکھیں
تجھ کو معلوم ہے کیوں عمر گنوا دی ہم نے
ترے گلاب سے ہونٹوں کی تازگی کی قسم
بہار کی کوئی آہٹ سنائی دیتی ہے
ترے گلاب سے ہونٹوں کی تازگی کی قسم
بہار کی کوئی آہٹ سنائی دیتی ہے,
زمینِ درد کی مٹی مہکتی رہتی ہے
کبھی رکتی ہی نہیں انتظار کی بارش
ہاتھ میں کاغذ کی لے کر چھتریاں
گھر سے نہ نکلا کرو برسات میں
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain