مذاق اب کس سے کریں صاحب "
پرانے یار اب احترام مانگتے ہیں🙁
میں چُپ رھا تو ، اور غلط فہمیاں بڑھیں
وہ بھی سُنا ھے اُس نے ، جو میں نے کہا نھیں۔
میں چُپ رھا تو ، اور غلط فہمیاں بڑھیں
وہ بھی سُنا ھے اُس نے ، جو میں نے کہا نھیں۔
ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺧﻮﺍﮬﺸﺎﺕ ﮐﮯ ﭘﺘﮭﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﭼﻨﻮﺍﺗﺎ ﮨﮯ - ﭘﮭﺮ
ﺟﺐ ﺳﺎﻧﺲ ﺭﮐﻨﮯ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺷﻮﺭ ﻣﭽﺎﺗﺎ ﮨﮯ....
ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺍﮔﺮ ﺗﻠﺦ ﻧﮧ ﮨﻮ ﺗﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﻗﻮﺕ ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﭘﺘﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﻠﺘﺎ۔
ﮐﺒﮭﯽ ﮐﺒﮭﯽ ﮨﻢ ﻓﺎﺻﻠﮯ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮﻧﮯﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺩﻭﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﮭﺎﮔﺘﮯ ﺑﻠﮑﮧ ﺍﺱ
ﻟﯿﮯ ﺑﮭﺎﮔﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﮐﻮﻥ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ !! ...
ﺍﮮ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﻭﺳﺖ , ﻣﯿﺮﮮ ﺍﺟﻨﺒﯽ !
ﺍﮎ ﻭﺍﺭ ﺍﭼﺎﻧﮏ , ﺗﻮﮞ ﺁﯾﺎ
ﺗﮯ ﻭﻗﺖ , ﺍﺻﻠﻮﮞ ﺣﯿﺮﺍﻥ
ﻣﯿﺮﮮ ﮐﻤﺮﮮ ﻭﭺ ﮐﮭﻠﻮﺗﺎ ﺭﮦ ﮔﯿﺎ۔
”ﺍﻣﺮﺗﺎ ﭘﺮﯾﺘﻢ
ﮨﺠﺮ ﺩﯼ ﺭﺍﺕ ﺩﺍ ﭘﭽﮭﻼ ﭘﮩﺮ,
ﭨﮭﻨﮉﯼ ﭨﮭﺎﺭ ﮨﻮﺍ ﺗﮯ ﻣﯿﮟ,
ﮐﺲ ﺑﮯ ﺩﯾﺪ ﺩﯼ ﺭﺍﮦ ﻭﭺ ﺭﻝ ﮔﮯ,
ﮨﻨﺠﻮ ، ﺧﻮﺍﺏ، ﻭﻓﺎ ﺗﮯ ﻣﯿﮟ..........
کسی بازار سے جو مل جاتا۔۔۔۔۔۔
اپنا بچپن خرید لاتے پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بعد میں یاد بہت آئیں گے ,
یُوں بچھڑنے کا تقاضا نہ کرو
ﺳﺐ ﮐﮯﺍﺧﺘﻼﻑ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﮕﮧ __ ﻣﮕﺮﻣﺠﮫ ﭘﺮﺟﭽﺘﺎﮬﮯ ﺍﺏ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﮬﻮﻧﺎ
بڑا مشکل سا ہوتا ہے کسی کو یوں بھلا دینا ,کہ جب وہ شخص شامل ہو
نسوں میں خون کی مانند
جاتی ہے کسی جھیل کی گہرائی کہاں تک
,دیکھیں گے کسی روز تیری آنکھوں میں اتر کے
جاتی ہے کسی جھیل کی گہرائی کہاں تک
,دیکھیں گے کسی روز تیری آنکھوں میں اتر کے
جاتی ہے کسی جھیل کی گہرائی کہاں تک
,دیکھیں گے کسی روز تیری آنکھوں میں اتر کے
ﺗﻌﻠﻖ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﺮﺍﻧﮯ ﺳﺎﺗﮭﯽ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺑﺪ ﮔﻤﺎﻧﯿﺎﮞ ﭘﮭﯿﻼﻧﺎ ﮐﮩﺎﮞ ﮐﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮨﮯ . . . . . ؟ ﺗﺮﮎ ﺗﻌﻠﻖ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﮐﯿﺎ ﻭﮦ ﻣﺤﺒﺖ ﺧﺘﻢ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺁﭖ ﮐﻮ ﭘﮩﻠﮯ ﺗﮭﯽ . . . ؟ ﺗﻌﻠﻖ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﺳﮑﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﯾﮩﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎﺗﮭﯽ ﮐﺎ ﮐﺮﺩﺍﺭ ﺑﯿﭻ ﭼﻮﺭﺍﮨﮯ ﭘﺮ ﻟﭩﮑﺎ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ . . . . . ؟
یہ بارشیں بھی کتنی عجیب ہوتی ہیں۔ کبھی کبھی باہر کچھ زیادہ بھگو نہ بھی پائیں پھر بھی ہمارے اندر جل تھل مچا دیتی ہیں یہ اور بات ہے کہ ہمارے اندر برستی وہ پھوار باہر کسی کو نظر نہیں آتی۔ لیکن کچھ بد نصیب ایسے بھی تو ہوتے ہیں جن کے اندر باہر پرستے ساون کا ایک چھینٹا بھی نہیں پڑتا۔ ان کا اندر سدا صحرا ہی رہتا ہے
ہم کریں بات دلیلوں سے تو رد ہوتی ہے
اس کے ہونٹوں کی خموشی بھی سند ہوتی ہے
سانس لیتے ہوئے انساں بھی ہے لاشوں کی طرح
اب دھڑکتے ہوئے دل کی بھی لحد ہوتی ہے
اپنی آواز کے پتھر بھی نہ اس تک پہنچے
اس کی آنکھوں کے اشارے میں بھی زد ہوتی ہے
جس کی گردن میں ہے پھندا وہی انسان بڑا
سولیوں سے یہاں پیمائش قد ہوتی ہے
ہم کریں بات دلیلوں سے تو رد ہوتی ہے
اس کے ہونٹوں کی خموشی بھی سند ہوتی ہے
سانس لیتے ہوئے انساں بھی ہے لاشوں کی طرح
اب دھڑکتے ہوئے دل کی بھی لحد ہوتی ہے
اپنی آواز کے پتھر بھی نہ اس تک پہنچے
اس کی آنکھوں کے اشارے میں بھی زد ہوتی ہے
جس کی گردن میں ہے پھندا وہی انسان بڑا
سولیوں سے یہاں پیمائش قد ہوتی ہے
ساتھ بارش میں لیے پھرتے ہو اس کو انجمؔ ,
تم نے اس شہر میں کیا آگ لگانی ہے کوئی
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain