لباس ہے پھٹا ہوا غبار میں اٹا ہوا تمام جسم نازنین چھدا ہوا کٹا ہوا یہ کون ذی وقار ہے ؟ بلا کا شاہ سوار ہے کہ ہزاروں قاتلوں کے سامنے ڈٹا ہوا یہ بلیقین حسین ہے نبی (ص)کا نور عین ہے
رفتہ رفتہ زندگی کو سمجھنا شروع کیا تو پتہ چلا زندگی صبر کے سوا کچھ نہیں کوئی بچھڑ گیا تو صبر ۔۔۔۔۔ کوئی روٹھ گیا تو صبر ۔۔۔۔۔ کسی نے کردار پر انگلی اٹھائی تو صبر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو مانگا وہ نہ ملا تو صبر۔
اٹھا رہا ہے جو لاش اکبر حسین بوڑھا نہیں جوان ہے حسین ایماں کی جستجو ہے حسین یزداں کی آبرو ہے حسین تنہا تھا کربلا میں حسین کا ذکر چہارسو ہے فرات کی نبض رک گئی ہے حسین مصروف گفتگو ہے جہاں گلابوں سے بھر گیا ہے حسین شاید لہو لہو ہے حسین کا حوصلہ نہ پوچھو حسین کٹ کر بھی سرخ رو ہے حیات کے ارتقاء سے پوچھو صحابہ کی انجمن سے پوچھو حسین پیغمبر کا ہو بہو ہے۔
*دنیا کا طرزِ منافقت عورت کو اس بات کا یقین دلاتا ہے کہ۔۔۔* تم صنفِ نازک ہو، تم پر رونا، کمزور پڑنا، خاموش ہو جانا، خود کو شہزادی سمجھ کر کسی شہزادے کا انتظار کرنا، جچتا ہے۔ عورت کو نزاکت کے تمام تر اسباق ازبر کروا کے، نزاکت کا مجسمہ بنا کے یہ دنیا ہاتھوں میں پتھر اٹھا لیتی ہے۔ سنو....!! خود کو شہزادی سمجھنا چھوڑ دو، کیونکہ آج کے دور میں نہ شہزادے ہوتے ہیں اور نہ ہی آتے ہیں، حقیقت پسند بنو، خود کو مضبوط بناؤ، اپنی نزاکت ختم کیے بغیر۔ مخصوص لوگ تمہاری نزاکت اور معصومیت کے مستحق ہوں، جن کے سامنے تم شہزادیوں کی طرح پیش آسکو۔ باقی دنیا کیلئے ملکہ بن جاؤ، *ایسی ملکہ جو فیصلے لینا جانتی ہو، جو بات کرنا جانتی ہو، جس کو اپنی سلطنت کی وسعت معلوم ہو۔ جو اگر سامنے ہو تو بات کرنے والے کو اپنی بات تولنی پڑے۔* *دلائل سے بات کرو، یوں کہ تم بولو