ساقی کی بزم میں یہ نظامِ ادب رہا !
جس نے اُٹھائی آنکھ، وہی تشنہ لب رہا
حسرت سرد راتوں میں تجھے اوڑھنے کی
کتنی گرمی ھے تیرے احساس میں ۔۔!!۔

ہونٹوں کو چومنے سے فرصت ہوئی تو بولے
عالی جناب پہلے رخسار چومتے ہیں
نیند تو درد کے بستر پہ بھی آ سکتی ھے
اسکی آغوش میں سر ہو یہ ضروری تو نہیں



بس گئی ھے مرے احساس میں یہ کیسی مہک
کوئی خوشبو میں لگاؤں تری خوشبو آئے💞




زہر لہجوں میں آ گیا اب
سانپ جنگلوں میں جا بسے
🖤

