دسترس سے غائب دل میں مکیں سہی۔۔
مگر دیکھائی دے کبھی کبھی کہیں سہی۔۔
نہیں بخت کسی محل کی حکمرانی میرا۔۔
میں ترے در کی خاک ہوں اور وہی سہی۔
میں نے پرکھا نہیں تجھ کو کبھی۔
مگر سمجھا تجھے ہر لحاظ سے ۔
پہلے محبت میں مبتلا کر دیا مجھ کو۔
پھر نظر انداز کیا ہر ایک انداز سے۔
سننے والوں کو فقط فرضی بیان لگتا ہے۔
تیرا ہر بول دل پہ یہاں لگتا ہے۔۔۔
اک تیرے باد کوئی شخص کہیں پر بھی ہو۔۔
ہو بھلے ڈھیر حسیں دل کو کہاں لگتا ہے

کیل ہی کیل لگائے دل پر۔
کوئی تصویر لگانی تھی اسے
حوصلے کو بڑھا لیا آخر 💔۔💔
💔درد پہ اختیار تھا ہی نہیں 💔
بھاتے نہیں ہیں ہمیں یہ آجکل کے بےباک لہجے
ہم گفتگو میں بھی پاکیزگی کے قائل ہیں۔
مختصر اتنا کے دو حرفوں سے بن جاتا ہے "دل"۔
اور وسیع اتنا کے اس میں "دو جہاں" کے راز ہیں
وہ تصویر بنا لائے ہماری ۔۔
یعنی اب ہم "دیوار"پہ لگنے والے ہیں




