کیسی وحشت سی ہے۔ میری ذہنی کیفیت ایسی ہے کہ میں زور زور سے چلاؤں، کسی پہاڑ پر تنہا جا کھڑی ہوں اور درخت کی چھال اپنے ناخنوں سے چھیل ڈالوں۔ ایسا لگتا ہے جیسے کسی زندان میں ہوں، جو دکھائی نہیں دیتا۔ ۔ زنجیروں میں لپٹی ہوئی، وحشت زدہ سی اپنے بال نوچ رہی ہوں جیسے، جیسے بے بس سی اکیلی صحرا میں بھٹک رہی ہوں، جسکی دھوپ سے، جسکی تپش سے۔ ۔ میرا بدن نہیں، میری جلد نہیں بلکہ میرا دل جلتا ہے، میری روح کسی سوکھے، لاچار اور زرد پتے کی سی ہے۔ مانو اسے کسی روشنی کی پیاس ہے۔ اسے کسی کی توجہ کی بھوک ہے۔ ماضی کے جھروکوں سے ۷ جنوری ۲۰۲۱ بروز جمعرات ۰۷:۵۰
It feels like in the process of finding preciousness i have lost myself. It should be the day of my happiness, right? Then why this thirsty soul? Why this sadness oh Almighty? This state of hollowness. I'm dying... Not physically but mentally.
سال بھی بیت گیا، دسمبر بھی بیت گیا، دھند میں لپٹی شامیں بھی بیت گئیں اور پورا چاند بھی وقت گزر جاتا ہے نئے دن، ہفتے اور سال بھی آ جاتے ہیں اگر کچھ نہیں گزرتا تو خیال ہوتا ہے۔ ۔ ۔ خود ساختہ سا، بے قابو سا۔ ۔ ۔ ہر درز بھر جاتی ہے۔ ۔۔ اگر کچھ نہیں بھرتا تو وه خلا کہ جو اپنے آپ میں ہی کسی پاتال سے کم نہیں ہے اور پھر آخر میں یہ کہوں گی کہ ہم اپنے خول سے باہر ہمیشہ کسی پر یقین کر کے ہی نکلتے ہیں۔
کام، محنت اور لگن وہی ہے جو مسلسل ہو، پیاری اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ خواب کتنی دیر میں دیکھتی ہو، جو چیز معنی رکھتی ہے وه یہ کہ آپ اپنے خواب، اپنے قول اور اپنے فیصلے سے پیچھے نہ ہٹو۔