تصور ان کو ہر دم نزد جاں موجود رکھتا ہے
وہ رہتے ہیں جدا پھر بھی نہیں رہتے جدا مجھ سے
دوستی وہ نہیں ہوتی جو جان دیتی ہے
دوستی وہ ہے جو مسکان دیتی ہے
بے دلی سے ہی سہی مگر کبھی کبھی تو
وہ جو حال پوچھتے ہیں احسان کرتے ہیں
جھکتا وہ ہی ہے جس میں جان ہوتی ہے اکڑنا تو مردے کی پہچان ہوتی ہے
میرے اعمال پہ ملتا تو بھوکا مرتا
وہ خدا میری اوقات سے بڑھ کہ دیتا ہے
میں چاہتی ہوں تمہیں میرے علاوہ محبت ہو
جس سے ہو وہ تم سے بھی بڑا اداکار نکلے