🌹🌹Nomi🌹🌹 علاوہ میرے ہر اک شخص نور نکلے گا میں جانتا ہوں مرا ہی قصور نکلے گا🥀 یہ خوب ہم سے زمانے نے ضد لگائی ہے ہوا نہ میرا جو اس کا ضرور نکلے گا🥀 خبر مجھے تھی یہ رستہ نہیں ہے منزل کا گمان کب تھا کہ خود سے ہی دور نکلے گا🥀 ہی رہزنوں سے رعایت یہ خاص منصف کی کہ قافلوں کا ہی لٹ کر قصور نکلے گا🥀 اسی امید پہ اب اور کتنی عمریں جیوں کہ میرا جینا بھی اک دن سرور نکلے گا🥀 علاج ڈھونڈا تو ڈھونڈا عجب طبیبوں نے یہ جان نکلے تو دل کا فتور نکلے گا🥀 ہزار بدلو مگر آئینوں کے بس میں نہیں یہ عکس میرا یونہی چور چور نکلے گا🥀 نشۂ ہی عارضی ابرک یہ چاہے جانے تمھارے دل سے بھی جلدی غرور نکلے گا🌹🌹
🌹Nomi🌹 اشک ناداں سے کہو بعد میں پچھتائیں گے آپ گر کر میری آنکھوں سے کدھر جائیں گے🌹 اپنے لفظوں کو تکلم سے گرا کر جانا اپنے لہجے کی تھکاوٹ میں بکھر جائیں گے🌹 تم سے لے جائیں گے چھین کر ہم وعدے اپنے اب تو قسموں کی صداقت سے بھی ڈر جائینگے🌹 اک تیرا گھر تھا میری حد مسافت لیکن اب یہ سوچا ہے کہ ہم حد سے گزر جائینگے🌹 اپنے افکار جلا ڈالیں گے کاغذ کاغذ سوچ مر جائے گی تو ہم آپ ہی مر جائینگے🌹 اس سے پہلے کہ جدائی کی خبر تم سے ملے ہم نے سوچا ہے کہ ہم تم سے بچھڑ جائینگے🌹
🌹Nomi🌹 کتنا مشکل ہے اذیت یہ گنوارا کرنا دل سے اترے ہوئے لوگوں میں گزارا کرنا🥀 زندگی ہم پے آسان بھی ہوسکتی تھی سیکھ لیتے جو کسی درد کا چارہ کرنا🥀 زندگی ہم تو چلو مان گئے سہہ بھی گئے ایسا برتاؤ کسی سے نہ دوبارہ کرنا🥀
Nomi Mughal فرض کرو ہم اہل وفا ہوں فرض کرو دیوانے ہوں فرض کرو یہ دونوں باتیں جھوٹی ہوں افسانے ہوں۔🌹 فرض کرو یہ جی کی بپتا جی سے جوڑ سنائی ہو فرض کرو ابھی اور ہو اتنی آدھی ہم نے چھپائی ہو۔🌹 فرض کرو تمھیں خوش کرنے کے ڈھونڈے ہم نے بہانے ہوں فرض کرو یہ نین تمھارے سچ مچ کے مے خانے ہوں🌹 فرض کرو یہ روگ ہو جھوٹا جھوٹی پیت ہماری ہو فرض کرو اس پیت کے روگ میں سانس بھی ہم پر بھاری ہو🌹 فرض کرو یہ جوگ بجوگ کا ہم نے ڈھونگ رچایا ہو فرض کرو بس یہی حقیقت باقی سب کچھ مایا ہو🌹 فرض کرو🌹🌹🌹🌹🥀🥀🥀
انا پہ چوٹ پڑے بھی تو کون دیکھتا ہے دھواں سا دل سے اٹھے بھی تو کون دیکھتا ہے🌷 میرے لیے کبھی مٹی پہ سردیوں کی ہوا! تمھارا نام لکھے بھی تو کون دیکھتا ہے 🌷 اجاڑ گھر کے کسی بے صدا دریچے میں کوئی چراغ جلے بھی تو کون دیکھتا ہے 🌷 ہجوم شہر سے ہٹ کر،حدود شہر کے بعد! وہ مسکرا کے ملے بھی تو کون دیکھتا ہے 🌷 جس آنکھ میں کوئی چہرہ نہ کوئی عکس طلب! وہ آنکھ جل کے بجھے بھی تو کون دیکھتا ہے 🌷 ہجوم درد میں کیا مسکرائیے کہ یہاں! خزاں میں پھول کھلے بھی تو کون دیکھتا ہے 🌷 ملے بغیر جو مجھ سے بچھڑ گیا محسن وہ راستے میں رکے بھی تو کون دیکھتا ہے 🌷🌷🌹🌹🌹🌺🌺🥀🥀🌺🌺🌺🌻🌻🌻
ہاتھ خالی ہیں تیرے شہر جاتے جاتے جان ہوتی تو میری جان لٹاتے جاتے، اب تو ہر ہاتھ کا پتھر ہمیں پہچانتا ہے عمر گزری ہے تیرے شہر میں آتے جاتے، اب کے مایوس ہوا یاروں کو رخصت کرکے جا رہے تھے تو کوئی زخم لگاتے جاتے، رینگنے کی بھی اجازت نہیں ہم کو ورنہ ہم جدھر جاتے نئے پھول کھلاتے جاتے، میں تو جلتے ہوئے صحراؤں کا اک پتھر تھا تم تو دریا تھے مری پیاس بجھاتے جاتے، مجھ کو رونے کا سلیقہ بھی نہیں ہے شاید لوگ ہنستے ہیں مجھے دیکھ کے آتے جاتے، ہم سے پہلے بھی مسافر کئی گزرے ہونگے کم سے کم راہ کے پتھر تو ہٹاتے جاتے 🌹🌹🌹🌹🥀🥀🥀🌷🌷🌷🏵️🏵️🏵️🌺🌻
ایک مدت کی ریاضت سے کمائے ہوئے لوگ کیسے بچھڑے ہیں مرے دل میں سمائے ہوئے لوگ، تلخ گوئی سے ہماری تو پریشان نہ ہو ہم ہیں دنیا کے مصائب کے ستائے ہوئے لوگ اس زمانے میں مرے یار کہاں ملتے ہیں اپنے دامن میں محبت کو بسائے ہوئے لوگ، تجھ کو اے شخص کبھی زیست کی تنہائی میں یاد آئیںنگے عجلت میں گنوائے ہوئے لوگ، ان کے رستے میں بچھا دیتے ہیں پلکیں اپنی جب بھی ملتے ہیں ترے شہر سے آئے ہوئے لوگ، یہ غنیمت ہیں جو آزاد نظر آتے ہیں خواب پلکوں کے دریچوں میں سجائے ہوئے لوگ، ایک مدت کی ریاضت سے کمائے ہوئے لوگ کیسے بچھڑے ہیں مرے دل میں سمائے ہوئے لوگ 💮💮💮🏵️🏵️🏵️🌹🌹🏵️🌷🌷🌷🌺🌸🥀
وہ درجن بھر مہینوں میں سدا ممتاز لگتا ہے دسمبر کس لیے آخر ہمیشہ خاص لگتا ہے، بہت سہمی ہوئی صبحیں اداسی سے بھری شامیں دوپہریں روئی روئی سی وہ راتیں کھوئی کھوئی سی، گرم دبیز شالوں کا وہ کم روشن اجالوں کا، کبھی گزرے حوالوں کا کبھی کشکل سوالوں کا، بچھڑ جانے کی مایوسی ملن کی آس لگتا ہے دسمبر کس لیے آخر ہمیشہ خاص لگتا ہے،،، 💭💭💭💭💭🗯️🗯️🗯️💥💥💥💥💥👵👵
خدا کرے کہ میرے ہاتھ کی لکیروں سے خیال یار کے قصے جلا دئیے جائیں میں سوچتا ہوں جہاں پہ جدائی لکھی ہے بس اتنے ہاتھ کے حصے جلا دئیے جائیں۔, 🌺🌺🌺🌺🌸🌸🌸🌸🌷🌷🌷🌷🥀🥀🥀
لوگ ہر موڑ پہ رک رک کے سنبھلتے کیوں ہیں اتنا ڈرتے ہیں تو پھر گھر سے نکلتے کیوں ہیں مے کدہ ظرف کے معیار کا پیمانہ ہے خالی شیشوں کی طرح لوگ اچھلتے کیوں ہیں موڑ ہوتا ہے جوانی کا سنبھلنے کے لیے اور سب لوگ یہیں آ کے پھسلتے کیوں ہیں نیند سے مرا تعلق ہی نہیں برسوں سے خواب آ آ کے مری چھت پہ ٹہلتے کیوں ہیں میں نہ جگنو ہوں دیا ہوں نہ کوئی تارا ہوں روشنی والے مرے نام سے جلتے کیوں ہیں۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain