یہ کیسی پیر یہ مرشد ک بس کی بات نہیں اُداس لوگوں کے مسئلے خُدا سمجھتا ہے
بس ایک لاحاصل سی ہو گی ہے زندگی
سفر بھی روز کا ہے اور جانا بھی کہیں نہیں
ڈھونڈتے پھیرو گے وفا ک خزانوں میں
تم میرے بعد میرے ہم ناموں کا بھی اخترام کرو گے
کھو بیٹھے ہیں اک مسکراتا چہرہ
اب ہم اُداس آنکھوں سے مسکراتے ہیں
آؤ نہ خود کی آپ بیتی بانٹیں کبھی بیٹھ کر
دل میں بہت غم لیے پھرتی ہوں جوسونے نہیں دیتے۔۔۔