اگر مذہب محض جنت کی بشارت کا نام ہے، حب الوطنی ذاتی مفاد کےلئے ہے، اور علم کا مقصد دولت اور آسا ئش کا حصول ہے، تو میں کافر، غدار اور جاہل کہلانا پسند کروں گا۔
میں تو بعض اوقات ایسا محسوس کرتا ہوں کہ حکومت اور رعایا کا رشتہ روٹھے ہوئے خاوند اور بیوی کا رشتہ ہے۔ بظاہر ہے لیکن درحقیقت کچھ بھی نہیں۔
مختصر الفاظ میں زندگی کے متعلق صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک آہ ہے جو واہ میں لپیٹ کر پیش کی گئی ہے۔
میں نے کا نٹوں کو بھی چھو کر دیکھا ہے ایسا چبھتا ہے تیرا بدلا ہوا لہجہ مجھے۔
اک بار دیکھا تھا ان کو بس اب لو گ مجھے دیکھنے آ تے ہیں
بارش کا مو سم اور اس کی یا دیں اب کیا حال سناؤ ں اس نادان دل کا
دو ہی گواہ تھے میری محبت کے وقت ایک گزر گیا اور دوسرا مکر گیا۔
رو ز روز نہ سہی مگر کبھی کبھی وہ شخص بھی مجھے سو چتا ہو گا۔
دل میں رہنا سیکھیے جناب غرور میں تو سبھی رہتے ہیں۔
نہ میں اس کا ۔۔ نہ وہ میرا دنیا اس کی ۔۔۔۔۔ وہ دنیا کا
محبت نہیں رہی زمانے میں فرازؔ اب لو گ عشق نہیں مزاق کرتے ہیں۔
دو ہی گواہ تھے میری محبت کے وقت ایک گزر گیا اور دوسرا مکر گیا۔
میرے دُ شمن مجھے یہ کہہ کر چھو ڑ گئے جا تیرے اپنے ہی کا فی ہیں تجھے رُ لانے کے لئے