Damadam.pk
samzan's posts | Damadam

samzan's posts:

samzan
 

دوست نہیں دوست سے بھی زیادہ کہا تھا مجھ کو
پھر بھی مجھے وہ بھول گئی اس بات کا غم ہے
آتی نہیں نیند اس کی یاد میں رات بھر
وہ سو گئی سکوں سے اس بات کا غم ہے
سالوں کیے کوشش جسے نہ بھول سکے ہم
ایک پل میں بھول گئی اس بات کا غم ہے
رابطے منقطع نہ کیے سوال نہ دیے جواب
کیوں چھوڑا مجھے اس طرح اس بات کا غم ہے
جس نے نہ پوچھا حال بھی وہی پوچھتا ہے عاقِب
کیوں آنکھیں ہیں نم تمہاری کس بات کا غم ہے

samzan
 

اگر نہ کھلے تیرے دروزے بند
تو در بہ در کہاں جائے گے ہم
تم نے جو کیا انکارِ عشق ۔۔۔
یونہی بے وجہ مر جائے گے ہم
کچھ پیڑوں کے پتے کیے جائے گے اکٹھے
اور سر سے پاؤں تک نہلا دیے جائے گے ہم
کفن پہنا کر خوشبو لگا کر
چارپائی پر سجا دیے جائے گے ہم
تو میرا منہ بھی دیکھنے کو ترسے گا عاقِب
تیرے آنے سے پہلے دفنا دیے جائے گے ہم

samzan
 

آ کے دیکھے جو کسی صبح وہ تکیہ میرا جو سمجھتا ہے مجھے رونا نہیں آتا

samzan
 

آ کے دیکھے جو کسی صبح وہ تکیہ میرا جو سمجھتا ہے مجھے رونا نہیں آتا

samzan
 

آ کے دیکھے جو کسی صبح وہ تکیہ میرا جو سمجھتا ہے مجھے رونا نہیں آتا

samzan
 

جو تجھ بن نہ جینے کو کہتے تھے ہم
سو اس عہد کو اب وفا کر چلے

samzan
 

جو تجھ بن نہ جینے کو کہتے تھے ہم
سو اس عہد کو اب وفا کر چلے

samzan
 

کالی رات کے صحراؤں میں نور سپارا لکھا تھا
جس نے شہر کی دیواروں پر پہلا نعرہ لکھا تھا
لاش کے ننھے ہاتھ میں بستہ اور اک کھٹی گولی تھی
خون میں ڈوبی اک تختی پر غین غبارہ لکھا تھا
آخر ہم ہی مجرم ٹھہرے جانے کن کن جرموں کے
فرد عمل تھی جانے کس کی نام ہمارا لکھا تھا
سب نے مانا مرنے والا دہشت گرد اور قاتل تھا
لیکن پھر بھی ماں نے قبر پہ راج دلارا لکھا تھا.

samzan
 

کوئی بھی آدمی پورا نہیں ہے
کہیں آنکھیں، کہیں چہرا نہیں ہے
یہاں سے کیوں کوئی بیگانہ گزرے
یہ میرے خواب ہیں رستہ نہیں ہے
جہاں پر تھے تری پلکوں کے سائے
وہاں اب کوئی بھی سایا نہیں ہے
زمانہ دیکھتا ہے ہر تماشہ
یہ لڑکا کھیل سے تھکتا نہیں ہے
ہزاروں شہر ہیں ہمراہ اس کے
مسافر دشت میں تنہا نہیں ہے
یہ کیسے خواب سے جاگی ہیں آنکھیں
کسی منظر پہ دل جمتا نہیں ہے
جو دیکھو تو ہر اک جانب سمندر
مگر پینے کو اک قطرہ نہیں ہے
مثالِ چوبِ نم خوردہ، یہ سینہ
سلگتا ہے، مگر جلتا نہیں ہے
خدا کی ہے یہی پہچان شاید
کہ کوئی اور اس جیسا نہیں ہے

samzan
 

ﺁﯾﺖِ ﮨِﺠﺮ ﭘﮍﮬﯽ ﺍﻭﺭ ﺭِﮬﺎﺋﯽ ﭘﺎﺋﯽ
ﮬَﻢ ﻧﮯ ﺩﺍﻧِﺴﺘﮧ ﻣُﺤﺒﺖ ﻣﯿﮟ ﺟُﺪﺍﺋﯽ ﭘﺎﺋﯽ
ﺟِﺴﻢ ﻭﻩ ﺍﺳَﻢ ﺗﮭﺎ، ﺟﻮ ﮬَﻢ ﭘﮧ ﮐِﺴﯽ ﺷَﺐ ﻧﮧ ﮐُﮭﻼ
ﻋِﺸﻖ ﻭﻩ ﺯَﺭ ﺗﮭﺎ، ﮐﮧ ﻟﮕﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﺧﺪﺍﺋﯽ ﭘﺎﺋﯽ
ﯾَﺎﺭ ﺗﺎ ﻋﻤﺮ ﺗﯿﺮﺍ ﮨِﺠﺮ ﺳﻨﺒﮭﺎﻟﮯ ﺭَﮐﮭﺎ
ﺗﻮ ﻧﮯ ﮐﯿﺎ ﭼِﯿﺰ ﺑَﮭﻼ ﻣﺠﮫ ﻣﯿﮟ ﭘﺮﺍﺋﯽ ﭘﺎﺋﯽ
ﻋِﺸﻖ ﻭﻩ ﻗﺮﺽ ﮐﮧ ﺟﻮ ﺭﻭﺡ ﮐﮯ ﺣﺼﮯ ﺁﯾﺎ
ﻋُﻤﺮ ﺑﮭﺮ ﮐﭩﺘﯽ ﺭﮬﯽ ﺳﺎﻧﺲ ﮐﯽ ﭘﺎﺋﯽ ﭘﺎﺋﯽ
ﺟِﻦ ﺩﻧﻮﮞ ﺧَﺎﮎ ﺍُﮌﺍﺗﯽ ﺗِﮭﯿﮟ ﮨَﻮﺍﺋﯿﮟ ﺑَﻦ ﻣﯿﮟ
ﺍُﻥ ﺩِﻧﻮﮞ ﮬﻢ ﻧﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﻣﯿﮟ ﮐﻤﺎﺋﯽ ﭘﺎﺋﯽ

samzan
 

جائے ہے جی نجات کے غم میں
ایسی جنت گئی جہنم میں

samzan
 

تم کو خبر ہوئی نہ زمانہ سمجھ سکا
ہم چپکے چپکے تم پہ کئی بار مر گئے

samzan
 

مہینے وصل کے گھڑیوں کی صورت اڑتے جاتے ہیں
مگر گھڑیاں جدائی کی گزرتی ہیں مہینوں میں

samzan
 

سمجھ کرمال غنیمت مجھ کو
اس کی یادوں نے بے پناہ لوٹا

samzan
 

عمر بھررہے تیری جستجو میں ہم
تو نہ ملا کسی کافر کو جنت کی طرح

samzan
 

وہ ایک پل کو دکھائی تو دے
میں جان گنوا کے بھی اُس پل کو مختصر نہ کروں

samzan
 

وہ جسے سمجھا تھا زندگی ، میری دھڑکنوں کا فریب تھا
مجھے مسکرانا سکھا کے وہ میری روح تک کو رلا گیا

samzan
 

عمر بھررہے تیری جستجو میں ہم
تو نہ ملا کسی کافر کو جنت کی طرح

samzan
 

وہ جسے سمجھا تھا زندگی ، میری دھڑکنوں کا فریب تھا
مجھے مسکرانا سکھا کے وہ میری روح تک کو رلا گیا

samzan
 

اک وہ ظالم جو دل میں رہ کر بھی میرا نہ بن سکا
اور دل وہ کافر جو مجھ میں رہ کر بھی اس کا ہو گیا