دوست نہیں دوست سے بھی زیادہ کہا تھا مجھ کو
پھر بھی مجھے وہ بھول گئی اس بات کا غم ہے
آتی نہیں نیند اس کی یاد میں رات بھر
وہ سو گئی سکوں سے اس بات کا غم ہے
سالوں کیے کوشش جسے نہ بھول سکے ہم
ایک پل میں بھول گئی اس بات کا غم ہے
رابطے منقطع نہ کیے سوال نہ دیے جواب
کیوں چھوڑا مجھے اس طرح اس بات کا غم ہے
جس نے نہ پوچھا حال بھی وہی پوچھتا ہے عاقِب
کیوں آنکھیں ہیں نم تمہاری کس بات کا غم ہے
اگر نہ کھلے تیرے دروزے بند
تو در بہ در کہاں جائے گے ہم
تم نے جو کیا انکارِ عشق ۔۔۔
یونہی بے وجہ مر جائے گے ہم
کچھ پیڑوں کے پتے کیے جائے گے اکٹھے
اور سر سے پاؤں تک نہلا دیے جائے گے ہم
کفن پہنا کر خوشبو لگا کر
چارپائی پر سجا دیے جائے گے ہم
تو میرا منہ بھی دیکھنے کو ترسے گا عاقِب
تیرے آنے سے پہلے دفنا دیے جائے گے ہم
آ کے دیکھے جو کسی صبح وہ تکیہ میرا جو سمجھتا ہے مجھے رونا نہیں آتا
آ کے دیکھے جو کسی صبح وہ تکیہ میرا جو سمجھتا ہے مجھے رونا نہیں آتا
آ کے دیکھے جو کسی صبح وہ تکیہ میرا جو سمجھتا ہے مجھے رونا نہیں آتا
جو تجھ بن نہ جینے کو کہتے تھے ہم
سو اس عہد کو اب وفا کر چلے
جو تجھ بن نہ جینے کو کہتے تھے ہم
سو اس عہد کو اب وفا کر چلے
کالی رات کے صحراؤں میں نور سپارا لکھا تھا
جس نے شہر کی دیواروں پر پہلا نعرہ لکھا تھا
لاش کے ننھے ہاتھ میں بستہ اور اک کھٹی گولی تھی
خون میں ڈوبی اک تختی پر غین غبارہ لکھا تھا
آخر ہم ہی مجرم ٹھہرے جانے کن کن جرموں کے
فرد عمل تھی جانے کس کی نام ہمارا لکھا تھا
سب نے مانا مرنے والا دہشت گرد اور قاتل تھا
لیکن پھر بھی ماں نے قبر پہ راج دلارا لکھا تھا.
کوئی بھی آدمی پورا نہیں ہے
کہیں آنکھیں، کہیں چہرا نہیں ہے
یہاں سے کیوں کوئی بیگانہ گزرے
یہ میرے خواب ہیں رستہ نہیں ہے
جہاں پر تھے تری پلکوں کے سائے
وہاں اب کوئی بھی سایا نہیں ہے
زمانہ دیکھتا ہے ہر تماشہ
یہ لڑکا کھیل سے تھکتا نہیں ہے
ہزاروں شہر ہیں ہمراہ اس کے
مسافر دشت میں تنہا نہیں ہے
یہ کیسے خواب سے جاگی ہیں آنکھیں
کسی منظر پہ دل جمتا نہیں ہے
جو دیکھو تو ہر اک جانب سمندر
مگر پینے کو اک قطرہ نہیں ہے
مثالِ چوبِ نم خوردہ، یہ سینہ
سلگتا ہے، مگر جلتا نہیں ہے
خدا کی ہے یہی پہچان شاید
کہ کوئی اور اس جیسا نہیں ہے
ﺁﯾﺖِ ﮨِﺠﺮ ﭘﮍﮬﯽ ﺍﻭﺭ ﺭِﮬﺎﺋﯽ ﭘﺎﺋﯽ
ﮬَﻢ ﻧﮯ ﺩﺍﻧِﺴﺘﮧ ﻣُﺤﺒﺖ ﻣﯿﮟ ﺟُﺪﺍﺋﯽ ﭘﺎﺋﯽ
ﺟِﺴﻢ ﻭﻩ ﺍﺳَﻢ ﺗﮭﺎ، ﺟﻮ ﮬَﻢ ﭘﮧ ﮐِﺴﯽ ﺷَﺐ ﻧﮧ ﮐُﮭﻼ
ﻋِﺸﻖ ﻭﻩ ﺯَﺭ ﺗﮭﺎ، ﮐﮧ ﻟﮕﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﺧﺪﺍﺋﯽ ﭘﺎﺋﯽ
ﯾَﺎﺭ ﺗﺎ ﻋﻤﺮ ﺗﯿﺮﺍ ﮨِﺠﺮ ﺳﻨﺒﮭﺎﻟﮯ ﺭَﮐﮭﺎ
ﺗﻮ ﻧﮯ ﮐﯿﺎ ﭼِﯿﺰ ﺑَﮭﻼ ﻣﺠﮫ ﻣﯿﮟ ﭘﺮﺍﺋﯽ ﭘﺎﺋﯽ
ﻋِﺸﻖ ﻭﻩ ﻗﺮﺽ ﮐﮧ ﺟﻮ ﺭﻭﺡ ﮐﮯ ﺣﺼﮯ ﺁﯾﺎ
ﻋُﻤﺮ ﺑﮭﺮ ﮐﭩﺘﯽ ﺭﮬﯽ ﺳﺎﻧﺲ ﮐﯽ ﭘﺎﺋﯽ ﭘﺎﺋﯽ
ﺟِﻦ ﺩﻧﻮﮞ ﺧَﺎﮎ ﺍُﮌﺍﺗﯽ ﺗِﮭﯿﮟ ﮨَﻮﺍﺋﯿﮟ ﺑَﻦ ﻣﯿﮟ
ﺍُﻥ ﺩِﻧﻮﮞ ﮬﻢ ﻧﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﻣﯿﮟ ﮐﻤﺎﺋﯽ ﭘﺎﺋﯽ
جائے ہے جی نجات کے غم میں
ایسی جنت گئی جہنم میں
تم کو خبر ہوئی نہ زمانہ سمجھ سکا
ہم چپکے چپکے تم پہ کئی بار مر گئے
مہینے وصل کے گھڑیوں کی صورت اڑتے جاتے ہیں
مگر گھڑیاں جدائی کی گزرتی ہیں مہینوں میں
سمجھ کرمال غنیمت مجھ کو
اس کی یادوں نے بے پناہ لوٹا
عمر بھررہے تیری جستجو میں ہم
تو نہ ملا کسی کافر کو جنت کی طرح
وہ ایک پل کو دکھائی تو دے
میں جان گنوا کے بھی اُس پل کو مختصر نہ کروں
وہ جسے سمجھا تھا زندگی ، میری دھڑکنوں کا فریب تھا
مجھے مسکرانا سکھا کے وہ میری روح تک کو رلا گیا
عمر بھررہے تیری جستجو میں ہم
تو نہ ملا کسی کافر کو جنت کی طرح
وہ جسے سمجھا تھا زندگی ، میری دھڑکنوں کا فریب تھا
مجھے مسکرانا سکھا کے وہ میری روح تک کو رلا گیا
اک وہ ظالم جو دل میں رہ کر بھی میرا نہ بن سکا
اور دل وہ کافر جو مجھ میں رہ کر بھی اس کا ہو گیا
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain