Damadam.pk
sanaasif's posts | Damadam

sanaasif's posts:

sanaasif
 

F is for the Faith that I have on you
A is for the Affection that you treat me with
T is for the Tender touch of yours
H is for the Happiness that you give me
E is for the Endless sacrifice that you make for me
R is for the Rapture that I get in your company.
Happy Fathers

sanaasif
 

کلیان دے نال مالکنس بولے اتے منگلا چا ر سُناوندا اے
بھیرو ں نال پلاسیاں بھیم بولے نٹ راگ دی زِیل وجاؤندا اے
بَروا نال پہاڑ جھنجھوٹیاں دے ہوری نال آسا کھڑا گاؤندا اے
بولے راگ بسنت ہنڈول گوپی منداونی دیاں سُراں لاؤندائے
پلاسی نال ترانیاں ٹھانس کے تے وارث شاہ نوں کھڑا سناوندا اے
وارث شاہ

sanaasif
 

شوق نال وجاء کے ونجھلی نوں پنجاں پیراں اگے کھڑا گاؤندا اے
کدی اودھوتے کاہن دے بِشن پدے کدے ماجھ پہاڑی دِی لاؤندا اے
کدی ڈھول تے مارون چھوہ دیندا کدی بوبنا چاء سُناؤندا اے
ملکی نال جلالی نوں خوب گاوے وِچ جھیوری دِی کلی لاؤندا اے
کدی سوہنی تے مہینوال والے نال شوق دِے سد سناؤندااے
کدی دھرپداں نال کَبِت چھوہے کدی سوہلے نال رلاؤندا اے
سارنگ نال تلنگ شہانیاں دے راگ سوہے دا بھوگ چاء پاؤندا اے
سورٹھ گجریاں پوربی للت بھیروں دِیپک راگ دی زیل وجاؤندا اے
ٹوڈی میگھ ملہار تے گونڈ دھنا سری جیت سری بھی نال رلاؤندا اے
مال سِری تے پرج بیہاگ بولے نال ماروا وِچ وجاؤندا اے
کیدا را تے بھاگڑا راگ مارو نالے کاہنڑے دے سُر لاؤندا اے

sanaasif
 

میرے دل دی پہلی کہانی پڑھ
کسے ہور نوں یار بناویں ناں
مینوں سوچ سمجھ کے دل دیویں
میرے نال مذاق بناویں ناں
اس پیار وچ رولے ہوندے نیں
دل قائم رکھیں گھبراویں ناں
جے توں منگیں تے میں جند دے ساں
پر کسے ہور نوں یار بناویں ناں
ویری جگ سارا اس پےار دا اے
بے قدرے نوں درد سناویں ناں
اے دنیا بڑی ای ظالم اے
ایہنوں کدی وی دکھ سناویں ناں
ہر اک نئی ہوندا پیار دے قابل
ایہہ گل میری توں بھلاویں ناں
وارث
جے مل جاوے تینوں دوست سچا
اس دوست نوں کدی گواویں ناں
وارث شاہ

sanaasif
 

بڑا عشق عشق تو کرنا آئیں
کڑی عشق دا گنجل کھول طے سائی
تینوں مٹی وچ نا رول دیوے
دو پیار دے بول
بول تے سائی
سکھ گھاٹ تے درد ہزار ملن
کڑی عشق نوں تکڑی تول تے سائی
تیری ہسدی اکھ وی پج جاوے
کڑی سانوں اندروں پھول تے سائی
تیرے پیار وچ جند رول دیواں
تو سمجھ مینو انمول تے سائی
وارث شاہ

sanaasif
 

ہیرے سستے میلدای وایخای
لال تاراکری وچ تولدای وایخای
پُھل پیران وچ رولدای وایخای
سیانے جالان توں بحولدای وایخای
کوئی کسے نال پیار نہیں کرداٍ
دِل دُنیا وچ رولدای وایخای
رنگ بارونجی دُنیا وایخی
کیے کیے رنگ بادالدای وایخای
سکھ طے ازل توں وایری میرے
دکھ ہی اخیان خولدایان وایخای
بس کر دلا ، چھاد ڈے خیرا
چھاد ڈے رام کہانی تو
تو رول گیا طے تان کی ہویا
شاہ وی گلیاں وچ رولدای وایخای
وارث شاہ

sanaasif
 

آتے آتے مرا نام سا رہ گیا
اس کے ہونٹوں پہ کچھ کانپتا رہ گیا
رات مجرم تھی دامن بچا لے گئی
دن گواہوں کی صف میں کھڑا رہ گیا
وہ مرے سامنے ہی گیا اور میں
راستے کی طرح دیکھتا رہ گیا
جھوٹ والے کہیں سے کہیں بڑھ گئے
اور میں تھا کہ سچ بولتا رہ گیا
آندھیوں کے ارادے تو اچھے نہ تھا
یہ دیا کیسے جلتا ہوا رہ گیا
اس کو کاندھوں پہ لے جا رہے ہیں وسیمؔ
اور وہ جینے کا حق مانگتا رہ گیا
وسیم بریلوی

sanaasif
 

اپنے ہر ہر لفظ کا خود آئینہ ہو جاؤں گا
اس کو چھوٹا کہہ کے میں کیسے بڑا ہو جاؤں گا
تم گرانے میں لگے تھے تم نے سوچا ہی نہیں
میں گرا تو مسئلہ بن کر کھڑا ہو جاؤں گا
مجھ کو چلنے دو اکیلا ہے ابھی میرا سفر
راستہ روکا گیا تو قافلہ ہو جاؤں گا
ساری دنیا کی نظر میں ہے مرا عہد وفا
اک ترے کہنے سے کیا میں بے وفا ہو جاؤں گا
وسیم بریلوی

sanaasif
 

اپنے انداز کا اکیلا تھا
اس لئے میں بڑا اکیلا تھا
پیار تو جنم کا اکیلا تھا
کیا مرا تجربہ اکیلا تھا
ساتھ تیرا نہ کچھ بدل پایا
میرا ہی راستہ اکیلا تھا
بخشش بے حساب کے آگے
میرا دست دعا اکیلا تھا
تیری سمجھوتے باز دنیا میں
کون میرے سوا اکیلا تھا
جو بھی ملتا گلے لگا لیتا
کس قدر آئنا اکیلا تھا
وسیم بریلوی

sanaasif
 

گنگناتے ہوئے جذبات کی آہٹ پا کر
رُوح میں جاگنے والی ہے کوئی سرگوشی
آکسی خوف میں اُتریں کسی غم کو اوڑھیں
کسی اُجڑے ہوئے لمحے میں سجائیں خود کو
تھام کر ریشمی ہاتھوں میں ہوا کی چادر
رُوح میں گھول لیں تاروں کا حسیں تاج محل
جی میں آتا ہے لپٹ جائیں کسی چاند کے ساتھ
بے یقینی کے سمندر کا کنارہ لے کر
ہم نکل جائیں کسی خدشے کی انگلی تھامے
تیری یادوں کے تلے درد کے سائے سائے
گنگناتے ہوئے جذبات کی آہٹ پا کر
رُوح میں جاگنے والی ہے کوئی سرگوشی
وصی شاہ

sanaasif
 

جمع تم ہو نہیں سکتے
ہمیں منفی سے نفرت ہے
تمہیں تقسیم کرتے ہیں
تو حاصل کچھ نہیں آتا
کوئی قائدہ کوئی کُلیہ
نہ لاگُو تجھ پے ہو پائے
ضرب تجھ کو اگر دوِ تو
حسابوں میں خلل آئے
اکائی کو دھائی پر
میں نسبت دوں تو کیسے دوں
نہ الجبرا سے لگتے ہو
نہ ہو ڈگری نکل آئے
عُمر یہ کٹ گئی میری
تجھے ہمدم سمجھنے میں
جو حل تیرا اگر نکلے
تو سب کچھ ہی اُلجھ جائے
صفر تھی ابتداء میری صفر ہی اب تلک تم ہو
صفر ضربِ صفر ہو تم نہ جس سے کچھ فرق آئے
وصی شاہ

sanaasif
 

ﭼﻠﻮ ﺍﭼﮭﺎ ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﻧﮯ
ﻣﺤﺒﺖ ﺗﺮﮎ ﮐﺮ ﮈﺍﻟﯽ
ﻣﺤﺒﺖ ﻭﯾﺴﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﺗﻨﺎ ﺑﮍﺍ ﺭﺷﺘﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ
ﺟﺴﮯ ﮨﺮ ﺣﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﻮ
ﻣﺤﺒﺖ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﺒﻮﺭﯼ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﻮﮌﺍ ﻓﺮﻕ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ
ﺧﻮﺷﯽ ﮨﮯ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺭﺷﺘﮯ ﮐﻮ ﻣﺠﺒﻮﺭﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻤﺠﮭﺎ
ﭼﻠﻮ ﺍﭼﮭﺎ ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺭﯾﺎ ﮐﺎﺭﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯽ ﮨﮯ
ﺍﺩﺍﮐﺎﺭﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯽ ﮨﮯ
ﮐﻮﺋﯽ ﭘﺮﺩﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﮭﺎ
ﮐﻮﺋﯽ ﺩﮬﻮﮐﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﮭﺎ
ﻣﺤﺒﺖ ﺟﮭﻮﭦ ﮐﺎ ﻣﻠﺒﻮﺱ ﭘﮩﻨﮯ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺗﮭﯽ
ﮔﺮﯾﺒﺎﮞ ﭼﺎﮎ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﯾﮧ ﺩﮐﮫ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﮕﮧ ﻟﯿﮑﻦ
ﺧﻮﺷﯽ ﮨﮯ ﺟﮭﻮﭦ ﮐﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺳﭽﺎ ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﻧﮯ
ﺑﮩﺖ ﺍﭼﮭﺎ ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﻧﮯ
وصی شاہ

sanaasif
 

کتنی زلفیں کتنے آنچل اڑے چاند کو کیا خبر
کتنا ماتم ہوا کتنے آنسو بہے چاند کو کیا خبر
مدتوں اس کی خواہش سے چلتے رہے ہاتھ آتا نہیں
چاہ میں اس کی پیروں میں ہیں آبلے چاند کو کیا خبر
وہ جو نکلا نہیں تو بھٹکتے رہے ہیں مسافر کئی
اور لٹتے رہے ہیں کئی قافلے چاند کو کیا خبر
اس کو دعویٰ بہت میٹھے پن کا وصیؔ چاندنی سے کہو
اس کی کرنوں سے کتنے ہی گھر جل گئے چاند کو کیا خبر
وصی شاہ

sanaasif
 

آج یوں موسم نے دی جشن محبت کی خبر
پھوٹ کر رونے لگے ہیں ، میں محبت اور تم
ہم نے جونہی کر لیا محسوس منزل ہے قریب
راستے کھونے لگے ہیں میں ، محبت اور تم
چاند کی کرنوں نے ہم کو اس طرح بوسہ دیا
دیوتا ہونے لگے ہیں میں ، محبت اور تم
آج پھر محرومیوں کی داستانیں اوڑھ کر
خاک میں سونے لگے ہیں میں ،محبت اور تم
کھو گئے انداز بھی ، آواز بھی، الفاظ بھی
خامشی ڈھونے لگے ہیں میں ، محبت اور تم
وصی شاہ

sanaasif
 

کل ہمیشہ کی طرح اس نے کہا یہ فون پر
میں بہت مصروف ہوں مجھ کو بہت سے کام ہیں
اس لیے تم آؤ ملنے میں تو آ سکتی نہیں
ہر روایت توڑ کر اس بار میں نے کہہ دیا
تم جو ہو مصروف میں بھی بہت مصروف ہوں
تم جو ہو مشہور تو میں بھی بہت معروف ہوں
تم اگر غمگین ہو میں بھی بہت رنجور ہوں
تم تھکن سے چور تو میں بھی تھکن سے چور ہوں
جان من ہے وقت میرا بھی بہت ہی قیمتی
کچھ پُرانے دوستوں نے ملنے آنا ہے ابھی
میں بھی اب فارغ نہیں مجھ کو بھی لاکھوں کام ہیں
ورنہ کہنے کو تو سب لمحے تمھارے نام ہیں
میری آنکھیں بھی بہت بوجھل ہیں سونا ہے مجھے
رتجگوں کے بعد اب نیندوں میں کھونا ہے مجھے
میں لہو اپنی اناؤں کا بہا سکتا نہیں
تم نہیں آتی تو ملنے میں بھی آ سکتا نہیں
اس کو یہ کہہ کر وصی میں نے ریسیور رکھ دیا
اور پھر اپنی انا کے پاؤں پے سر رکھ دیا
وصی شاہ

sanaasif
 

دکھ درد میں ہمیشہ نکالے تمہارے خط
اور مل گئی خوشی تو اچھالے تمہارے خط
سب چوڑیاں تمہاری سمندر کو سونپ دیں
اور کر دیے ہوا کے حوالے تمہارے خط
میرے لہو میں گونج رہا ہے ہر ایک لفظ
میں نے رگوں کے دشت میں پالے تمہارے خط
یوں تو ہیں بے شمار وفا کی نشانیاں
لیکن ہر ایک شے سے نرالے تمہارے خط
جیسے ہو عمر بھر کا اثاثہ غریب کا
کچھ اس طرح سے میں نے سنبھالے تمہارے خط
اہل ہنر کو مجھ پہ وصیؔ اعتراض ہے
میں نے جو اپنے شعر میں ڈھالے تمہارے خط
پروا مجھے نہیں ہے کسی چاند کی وصیؔ
ظلمت کے دشت میں ہیں اجالے تمہارے خط
وصی شاہ

sanaasif
 

آنکھوں میں چبھ گئیں تری یادوں کی کرچیاں
کاندھوں پہ غم کی شال ہے اور چاند رات ہے
دل توڑ کے خموش نظاروں کا کیا ملا
شبنم کا یہ سوال ہے اور چاند رات ہے
کیمپس کی نہر پر ہے ترا ہاتھ ہاتھ میں
موسم بھی لا زوال ہے اور چاند رات ہے
ہر اک کلی نے اوڑھ لیا ماتمی لباس
ہر پھول پر ملال ہے اور چاند رات ہے
چھلکا سا پڑ رہا ہے وصیؔ وحشتوں کا رنگ
ہر چیز پہ زوال ہے اور چاند رات ہے
وصی شاہ

sanaasif
 

تو میں بھی خوش ہوں کوئی اس سے جا کے کہہ دینا
اگر وہ خوش ہے مجھے بے قرار کرتے ہوئے
تمہیں خبر ہی نہیں ہے کہ کوئی ٹوٹ گیا
محبتوں کو بہت پائیدار کرتے ہوئے
میں مسکراتا ہوا آئینے میں ابھروں گا
وہ رو پڑے گی اچانک سنگھار کرتے ہوئے
مجھے خبر تھی کہ اب لوٹ کر نہ آؤں گا
سو تجھ کو یاد کیا دل پہ وار کرتے ہوئے
یہ کہہ رہی تھی سمندر نہیں یہ آنکھیں ہیں
میں ان میں ڈوب گیا اعتبار کرتے ہوئے
بھنور جو مجھ میں پڑے ہیں وہ میں ہی جانتا ہوں
تمہارے ہجر کے دریا کو پار کرتے ہوئے
وصی شاہ

sanaasif
 

خاموشی رات کی دیکتھا ہوں اور تجھے سوچتا ہوں
مد ہوش اکثر ہوجاتا ہوں اور تجھے سوچتا ہوں
ہوش والوں میں جاتا ہوں تو الجھتی ہے طبعیت
سو با ہوش پڑا رہتا ہوں اور تجھے سوچتا ہوں
تو من میں میرے آ جا میں تجھ میں سما جاؤں
ادھورے خواب سمجھتا ہوں اورتجھے سوچتا ہوں
جمانے لگتی ہیں جب لہو میرا فر خت کی ہوائیں
تو شال قر بت کی اوڑھتا اور تجھے سوچتا ہو
وصی شاہ

sanaasif
 

تُو فیصلۂ ترکِ ملاقات میں گُم ہے
بندہ تری دیرینہ عنایات میں گُم ہے
ہم منزلِ بے نام کے راہی ہیں ازل سے
تُو تذکرہِ حسنِ مقامات میں گُم ہے
شادابئ گلشن کو بیاباں نہ بنا دے
وہ شعلۂ بے تاب، جو برسات میں گُم ہے
"ہے گردشِ دوراں کا عناں گیر قلندر"
گُم کردہ روایات، مگر زات میں گُم ہے
منزل ہے بہت دور مگر حسنِ تقرب
واصفؒ ترے قدموں کے نشانات میں گُم ہے
واصف علی واصف