یہ ایک بات سمجھنے میں رات ہو گئی ہے
میں اس سے جیت گیا ہوں کہ مات ہو گئی ہے
میں اب کے سال پرندوں کا دن مناؤں گا
مری قریب کے جنگل سے بات ہو گئی ہے
بچھڑ کے تجھ سے نہ خوش رہ سکوں گا سوچا تھا
تری جدائی ہی وجہ نشاط ہو گئی ہے
بدن میں ایک طرف دن طلوع میں نے کیا
بدن کے دوسرے حصے میں رات ہو گئی ہے
میں جنگلوں کی طرف چل پڑا ہوں چھوڑ کے گھر
یہ کیا کہ گھر کی اداسی بھی ساتھ ہو گئی ہے
رہے گا یاد مدینے سے واپسی کا سفر
میں نظم لکھنے لگا تھا کہ نعت ہو گئی ہے
تہذیب حافی
یہ ایک بات سمجھنے میں رات ہو گئی ہے
میں اس سے جیت گیا ہوں کہ مات ہو گئی ہے
میں اب کے سال پرندوں کا دن مناؤں گا
مری قریب کے جنگل سے بات ہو گئی ہے
بچھڑ کے تجھ سے نہ خوش رہ سکوں گا سوچا تھا
تری جدائی ہی وجہ نشاط ہو گئی ہے
بدن میں ایک طرف دن طلوع میں نے کیا
بدن کے دوسرے حصے میں رات ہو گئی ہے
میں جنگلوں کی طرف چل پڑا ہوں چھوڑ کے گھر
یہ کیا کہ گھر کی اداسی بھی ساتھ ہو گئی ہے
رہے گا یاد مدینے سے واپسی کا سفر
میں نظم لکھنے لگا تھا کہ نعت ہو گئی ہے
تہذیب حافی
کسی سے اور تو کیا گفتگو کریں دل کی
کہ رات سن نہ سکے ہم بھی دھڑکنیں دل کی
مگر یہ بات خرد کی سمجھ میں آ نہ سکی
وصال و ہجر سے آگے ہیں منزلیں دل کی
جلو میں خواب نما رت جگے سجائے ہوئے
کہاں کہاں لیے پھرتی ہیں وحشتیں دل کی
نگاہ ملتے ہی رنگ حیا کی صورت ہیں
چھلک اٹھیں ترے رخ سے لطافتیں دل کی
نگاہ کم بھی اسے سنگ سے زیادہ ہے
کہ آئنہ سے سوا ہیں نزاکتیں دل کی
دیار حرف و نوا میں کوئی تو ایسا ہو
کبھی کسی سے تو ہم بات کر سکیں دل کی
سر جریدۂ ہستی ہمارے بعد امیدؔ
لہو سے کون لکھے گا عبارتیں دل کی
امید فاضلی
قسمیں وعدے رہ جاتے ہیں
انساں آدھے رہ جاتے ہیں
خط سے خوشبو اڑ جاتی ہے
کاغذ سارے رہ جاتے ہیں
رب کی مرضی ہی چلتی ہے
اور ارادے رہ جاتے ہیں
لب پر انگلی رکھ لیتی ہو
ہم چپ سادھے رہ جاتے ہیں
اس کے رعب حسن کے آگے
مارے باندھے رہ جاتے ہیں
وجیہ ثانی
تیرا چپ رہنا مرے ذہن میں کیا بیٹھ گیا
اتنی آوازیں تجھے دیں کہ گلا بیٹھ گیا
یوں نہیں ہے کہ فقط میں ہی اسے چاہتا ہوں
جو بھی اس پیڑ کی چھاؤں میں گیا بیٹھ گیا
اتنا میٹھا تھا وہ غصے بھرا لہجہ مت پوچھ
اس نے جس کو بھی جانے کا کہا بیٹھ گیا
اپنا لڑنا بھی محبت ہے تمہیں علم نہیں
چیختی تم رہی اور میرا گلا بیٹھ گیا
اس کی مرضی وہ جسے پاس بٹھا لے اپنے
اس پہ کیا لڑنا فلاں میری جگہ بیٹھ گیا
بات دریاؤں کی سورج کی نہ تیری ہے یہاں
دو قدم جو بھی مرے ساتھ چلا بیٹھ گیا
بزم جاناں میں نشستیں نہیں ہوتیں مخصوص
جو بھی اک بار جہاں بیٹھ گیا بیٹھ گیا
تہذیب حافی
جب اس کی تصویر بنایا کرتا تھا
کمرا رنگوں سے بھر جایا کرتا تھا
پیڑ مجھے حسرت سے دیکھا کرتے تھے
میں جنگل میں پانی لایا کرتا تھا
تھک جاتا تھا بادل سایہ کرتے کرتے
اور پھر میں بادل پہ سایہ کرتا تھا
بیٹھا رہتا تھا ساحل پہ سارا دن
دریا مجھ سے جان چھڑایا کرتا تھا
بنت صحرا روٹھا کرتی تھی مجھ سے
میں صحرا سے ریت چرایا کرتا تھا
تہذیب حافی
یہ ایک بات سمجھنے میں رات ہو گئی ہے
میں اس سے جیت گیا ہوں کہ مات ہو گئی ہے
میں اب کے سال پرندوں کا دن مناؤں گا
مری قریب کے جنگل سے بات ہو گئی ہے
بچھڑ کے تجھ سے نہ خوش رہ سکوں گا سوچا تھا
تری جدائی ہی وجہ نشاط ہو گئی ہے
بدن میں ایک طرف دن طلوع میں نے کیا
بدن کے دوسرے حصے میں رات ہو گئی ہے
میں جنگلوں کی طرف چل پڑا ہوں چھوڑ کے گھر
یہ کیا کہ گھر کی اداسی بھی ساتھ ہو گئی ہے
رہے گا یاد مدینے سے واپسی کا سفر
میں نظم لکھنے لگا تھا کہ نعت ہو گئی ہے
تہذیب حافی
کسے خبر ہے کہ عمر بس اس پہ غور کرنے میں کٹ رہی ہے
کہ یہ اداسی ہمارے جسموں سے کس خوشی میں لپٹ رہی ہے
عجیب دکھ ہے ہم اس کے ہو کر بھی اس کو چھونے سے ڈر رہے ہیں
عجیب دکھ ہے ہمارے حصے کی آگ اوروں میں بٹ رہی ہے
میں اس کو ہر روز بس یہی ایک جھوٹ سننے کو فون کرتا
سنو یہاں کوئی مسئلہ ہے تمہاری آواز کٹ رہی ہے
مجھ ایسے پیڑوں کے سوکھنے اور سبز ہونے سے کیا کسی کو
یہ بیل شاید کسی مصیبت میں ہے جو مجھ سے لپٹ رہی ہے
یہ وقت آنے پہ اپنی اولاد اپنے اجداد بیچ دے گی
جو فوج دشمن کو اپنا سالار گروی رکھ کر پلٹ رہی ہے
سو اس تعلق میں جو غلط فہمیاں تھیں اب دور ہو رہی ہیں
رکی ہوئی گاڑیوں کے چلنے کا وقت ہے دھندھ چھٹ رہی ہے
تہذیب حافی
کسی سے اور تو کیا گفتگو کریں دل کی
کہ رات سن نہ سکے ہم بھی دھڑکنیں دل کی
مگر یہ بات خرد کی سمجھ میں آ نہ سکی
وصال و ہجر سے آگے ہیں منزلیں دل کی
جلو میں خواب نما رت جگے سجائے ہوئے
کہاں کہاں لیے پھرتی ہیں وحشتیں دل کی
نگاہ ملتے ہی رنگ حیا کی صورت ہیں
چھلک اٹھیں ترے رخ سے لطافتیں دل کی
نگاہ کم بھی اسے سنگ سے زیادہ ہے
کہ آئنہ سے سوا ہیں نزاکتیں دل کی
دیار حرف و نوا میں کوئی تو ایسا ہو
کبھی کسی سے تو ہم بات کر سکیں دل کی
سر جریدۂ ہستی ہمارے بعد امیدؔ
لہو سے کون لکھے گا عبارتیں دل کی
امید فاضلی
حجاب اٹھے ہیں لیکن وہ رو بہ رو تو نہیں
شریک عشق کہیں کوئی آرزو تو نہیں
یہ خود فریبئ احساس آرزو تو نہیں
تری تلاش کہیں اپنی جستجو تو نہیں
سکوت وہ بھی مسلسل سکوت کیا معنی
کہیں یہی ترا انداز گفتگو تو نہیں
انہیں بھی کر دیا بیتاب آرزو کس نے
مری نگاہ محبت کہیں یہ تو تو نہیں
کہاں یہ عشق کا عالم کہاں وہ حسن تمام
یہ سوچتا ہوں کہ میں اپنے رو بہ رو تو نہیں
نگاہ شوق سے غافل سمجھ نہ جلووں کو
شراب کچھ بھی ہو بیگانۂ سبو تو نہیں
خوشی سے ترک محبت کا عہد لے اے دوست
مگر یہ دیکھ ترا دل لہو لہو تو نہیں
نہ گرد راہ ہے رخ پر نہ آنکھ میں آنسو
یہ جستجو بھی سہی اس کی جستجو تو نہیں
چمن میں رکھتے ہیں کانٹے بھی اک مقام اے دوست
فقط گلوں سے ہی گلشن کی آبرو تو نہیں
امید فاضلی
کیا مجھ عشق نے ظالم کوں آب آہستہ آہستہ
کہ آتش گل کوں کرتی ہے گلاب آہستہ آہستہ
وفاداری نے دل بر کی بجھایا آتش غم کوں
کہ گرمی دفع کرتا ہے گلاب آہستہ آہستہ
عجب کچھ لطف رکھتا ہے شب خلوت میں گل رو سوں
خطاب آہستہ آہستہ جواب آہستہ آہستہ
مرے دل کوں کیا بے خود تری انکھیاں نے آخر کوں
کہ جیوں بے ہوش کرتی ہے شراب آہستہ آہستہ
ہوا تجھ عشق سوں اے آتشیں رو دل مرا پانی
کہ جیوں گلتا ہے آتش سوں گلاب آہستہ آہستہ
ادا و ناز سوں آتا ہے وو روشن جبیں گھر سوں
کہ جیوں مشرق سوں نکلے آفتاب آہستہ آہستہ
ولیؔ مجھ دل میں آتا ہے خیال یار بے پروا
کہ جیوں انکھیاں منیں آتا ہے خواب آہستہ آہستہ
ولی دکنی
جسے عشق کا تیر کاری لگے
اسے زندگی کیوں نہ بھاری لگے
نہ چھوڑے محبت دم مرگ تک
جسے یار جانی سوں یاری لگے
نہ ہووے اسے جگ میں ہرگز قرار
جسے عشق کی بے قراری لگے
ہر اک وقت مجھ عاشق پاک کوں
پیارے تری بات پیاری لگے
ولیؔ کوں کہے تو اگر یک بچن
رقیباں کے دل میں کٹاری لگے
ولی دکنی
رہنا تم چاہے جہاں خبروں میں آتے رہنا
ہم کو احساس جدائی سے بچاتے رہنا
خود گزیدہ ہوں بڑا زہر ہے میرے اندر
اس کا تریاق ہے راتوں کو جگاتے رہنا
مدتوں بعد جو دیکھو گے تو ڈر جاؤ گے
اپنے کو آئنہ ہر روز دکھاتے رہنا
خود فریبی سے حسیں تر نہیں کوئی جذبہ
خود جو رہنا ہے تو یہ دھوکا بھی کھاتے رہنا
یہ تو معلوم ہے مرنے پہ ملے گی اجرت
کار فن کار ہے تصویر بناتے رہنا
اپنی نااہلی پہ قاتل کو نہ طیش آ جائے
اوچھے زخموں کو ذرا اس سے چھپاتے رہنا
ہارنے جیتنے سے کچھ نہیں ہوتا وامقؔ
کھیل ہر سانس پہ ہے داؤں لگاتے رہنا
وامق جونپوری
Today is a new day. Dont let your history interfere with your destiny! Let today be the day you stop being a victim of your circumstances and start taking actions towards the life you want. You have the power and the time to shape your life. Break free from the poisonous victim mentality and embrace the truth of your greatness. You were not meant for a mundane or mediocre life!🌞🌺🎊
دل توڑ کر وہ دل میں پشیماں ہوا تو کیا
اک بے نیاز ناز پہ احساں ہوا تو کیا
اپنا علاج تنگئ دل وہ نہ کر سکے
میرا علاج تنگی داماں ہوا تو کیا
جب بال و پر ہی نذر قفس ہو کے رہ گئے
صحن چمن میں شور بہاراں ہوا تو کیا
اک عمر رکھ کے روح مری تشنۂ نشاط
اب نغمۂ حیات پرافشاں ہوا تو کیا
جب میرے واسطے درمے خانہ بند ہے
صہبا میں غرق عالم امکاں ہوا تو کیا
ٹوٹے پڑے ہیں ساز محبت کے تار تار
اب شاہد خیال غزل خواں ہوا تو کیا
آدم نے ایک خوشۂ گندم کو کیا کیا
مجرم کبھی جو بھوک سے انساں ہوا تو کیا
وامقؔ کی تیرہ بختی کا عالم وہی رہا
ظلمت کدہ میں چشمۂ حیواں ہوا تو کیا
وامق جونپوری
کیدو آکھدا ملکیے بھیڑئیے نی تیر ی دِھیو وڈا چنچرچایا ای
جا نئیں تے چاک دے نال گُھلدی اِیس ملک دا رتھ گوایا ای
ماں باپ قاضی سبھے ہار تھکے ایس اِک نہ جیو تے لایا ای
منہ گھٹ رہے وال پُٹ رہے لِنگ کُٹ رہے مینوں تایاای
جنگھ جُٹ رہے جھاٹا پُٹ رہے انت ہُٹ رہے غیب چایاای
لُٹ پُٹ رہے تے نکھٹ رہے لتیں جُٹ رہے لٹکایاای
متیں دے رہے پیر سیوں رہے پیریں پئے رہے لوڑھا آیاای
وارثؔ شاہ میاں سُتے معاملے نوں لنگے رِچھ نے موڑ جگایا ای
وارث شاہ
ختم رب دے کرم دے نال ہوئی فرمایش پیارڑ ے یار دی سی
ایسا شعر کیتا پُر مغز موزوں جیہا موتیاں لڑ ی شہوار دی سی
طُول کھول کے ذکر میان کیتا رنگت رنگ دی خُوب بہار دی سی
تمثیل دے نال بناء کہیا جیہی زینت لعل دے ہار دی سی
جو کو پڑ ھے سو بہت خور سند ہو وے واہ واہ سبھ خلق پُکار دی سی
وارثؔ شاہ نُوں سِک دیدار دی ہے جیہی ہیر نُوں بھٹکنا یار دی سی
وارث شاہ
سلطان بھائی آیا ہیر سندا آکھے ماؤں نوں دِھیو نُوں تاڑ اماں
اساں پھیر جے باہر ایہہ ڈٹھی سٹاں اِیس نوں جان تھیں مار اماں
تیرے آکھیاں ستر جے بہے ناہیں پھیراں اِیس دی دھون تلوار اماں
چاک وڑے ناہیں ساڈے وِچ ویہڑے نہیں ڈکرے کراں سُو چار اماں
جے دھیو نہ حکم وچ رکھیائی سبھ ساڑ سُٹوں گھر بار اماں
وارث شاہ جیہڑی دِھیو بُری ہووے روڑھ دیے سمندروں پار اماں
وارث شاہ
رانجھے آکھیا آ کھاں بیٹھ ہیرے کوئی خوب تدبیر بنائیے نی
تیرے ماں تے باپ دلگیر ہوندے کویں اُوہناں تھوں بات چھپائیے نی
مٹھی نائن نوں سد کے بات گِنیے جے توں کہیں تیرے گھر آئیے نی
میں سیالاں دے ویہڑے وڑاں ناہیں ساتھے ہیر نوں نِت پہنچائیے نی
دینہہ رات تیرے گھر میل ساڈا ساڈے سریں احسان چڑھائیے نی
ہیر پنج مہراں ہتھ دتےاں نیں جویں مٹھیے ڈول پکائیے نی
کُڑیاں نال نہ کھولنا بھیت مُوئے سبھا جیو دے وِچ لُکائیے نی
وارثؔ شاہ چھپائیے خلق کولوں بھاویں اپنا ہی گڑ کھائیے نی
وارث شاہ
سن یاراں سے اسیاں بنی ہجرت لمے دیس دے وچ تیار ہوئی
اٹھاراں سے تریئیاں سمتاں دا راجے بکرما جیت دی سار ہوئی
جدوں دیس تے جٹ سردار ہوئے گھرو گھری جاں نویں سرکار ہوئی
اشراف خراب کمین تازہ زمیندار نُوں وڈی بہار ہوئی
چور چوہدری یار نی پاکدامن بھُوت منڈلی اِک تھوں چار ہوئی
وارثؔ جنہاں نیں آکھیا پاک کلمہ بیڑ ی تنھاں دی عاقبت پار ہوئی
وارث شاہ
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain