Damadam.pk
sanaasif's posts | Damadam

sanaasif's posts:

sanaasif
 

یہ ایک بات سمجھنے میں رات ہو گئی ہے
میں اس سے جیت گیا ہوں کہ مات ہو گئی ہے
میں اب کے سال پرندوں کا دن مناؤں گا
مری قریب کے جنگل سے بات ہو گئی ہے
بچھڑ کے تجھ سے نہ خوش رہ سکوں گا سوچا تھا
تری جدائی ہی وجہ نشاط ہو گئی ہے
بدن میں ایک طرف دن طلوع میں نے کیا
بدن کے دوسرے حصے میں رات ہو گئی ہے
میں جنگلوں کی طرف چل پڑا ہوں چھوڑ کے گھر
یہ کیا کہ گھر کی اداسی بھی ساتھ ہو گئی ہے
رہے گا یاد مدینے سے واپسی کا سفر
میں نظم لکھنے لگا تھا کہ نعت ہو گئی ہے
تہذیب حافی

sanaasif
 

یہ ایک بات سمجھنے میں رات ہو گئی ہے
میں اس سے جیت گیا ہوں کہ مات ہو گئی ہے
میں اب کے سال پرندوں کا دن مناؤں گا
مری قریب کے جنگل سے بات ہو گئی ہے
بچھڑ کے تجھ سے نہ خوش رہ سکوں گا سوچا تھا
تری جدائی ہی وجہ نشاط ہو گئی ہے
بدن میں ایک طرف دن طلوع میں نے کیا
بدن کے دوسرے حصے میں رات ہو گئی ہے
میں جنگلوں کی طرف چل پڑا ہوں چھوڑ کے گھر
یہ کیا کہ گھر کی اداسی بھی ساتھ ہو گئی ہے
رہے گا یاد مدینے سے واپسی کا سفر
میں نظم لکھنے لگا تھا کہ نعت ہو گئی ہے
تہذیب حافی

sanaasif
 

کسی سے اور تو کیا گفتگو کریں دل کی
کہ رات سن نہ سکے ہم بھی دھڑکنیں دل کی
مگر یہ بات خرد کی سمجھ میں آ نہ سکی
وصال و ہجر سے آگے ہیں منزلیں دل کی
جلو میں خواب نما رت جگے سجائے ہوئے
کہاں کہاں لیے پھرتی ہیں وحشتیں دل کی
نگاہ ملتے ہی رنگ حیا کی صورت ہیں
چھلک اٹھیں ترے رخ سے لطافتیں دل کی
نگاہ کم بھی اسے سنگ سے زیادہ ہے
کہ آئنہ سے سوا ہیں نزاکتیں دل کی
دیار حرف و نوا میں کوئی تو ایسا ہو
کبھی کسی سے تو ہم بات کر سکیں دل کی
سر جریدۂ ہستی ہمارے بعد امیدؔ
لہو سے کون لکھے گا عبارتیں دل کی
امید فاضلی

sanaasif
 

قسمیں وعدے رہ جاتے ہیں
انساں آدھے رہ جاتے ہیں
خط سے خوشبو اڑ جاتی ہے
کاغذ سارے رہ جاتے ہیں
رب کی مرضی ہی چلتی ہے
اور ارادے رہ جاتے ہیں
لب پر انگلی رکھ لیتی ہو
ہم چپ سادھے رہ جاتے ہیں
اس کے رعب حسن کے آگے
مارے باندھے رہ جاتے ہیں
وجیہ ثانی

sanaasif
 

تیرا چپ رہنا مرے ذہن میں کیا بیٹھ گیا
اتنی آوازیں تجھے دیں کہ گلا بیٹھ گیا
یوں نہیں ہے کہ فقط میں ہی اسے چاہتا ہوں
جو بھی اس پیڑ کی چھاؤں میں گیا بیٹھ گیا
اتنا میٹھا تھا وہ غصے بھرا لہجہ مت پوچھ
اس نے جس کو بھی جانے کا کہا بیٹھ گیا
اپنا لڑنا بھی محبت ہے تمہیں علم نہیں
چیختی تم رہی اور میرا گلا بیٹھ گیا
اس کی مرضی وہ جسے پاس بٹھا لے اپنے
اس پہ کیا لڑنا فلاں میری جگہ بیٹھ گیا
بات دریاؤں کی سورج کی نہ تیری ہے یہاں
دو قدم جو بھی مرے ساتھ چلا بیٹھ گیا
بزم جاناں میں نشستیں نہیں ہوتیں مخصوص
جو بھی اک بار جہاں بیٹھ گیا بیٹھ گیا
تہذیب حافی

sanaasif
 

جب اس کی تصویر بنایا کرتا تھا
کمرا رنگوں سے بھر جایا کرتا تھا
پیڑ مجھے حسرت سے دیکھا کرتے تھے
میں جنگل میں پانی لایا کرتا تھا
تھک جاتا تھا بادل سایہ کرتے کرتے
اور پھر میں بادل پہ سایہ کرتا تھا
بیٹھا رہتا تھا ساحل پہ سارا دن
دریا مجھ سے جان چھڑایا کرتا تھا
بنت صحرا روٹھا کرتی تھی مجھ سے
میں صحرا سے ریت چرایا کرتا تھا
تہذیب حافی

sanaasif
 

یہ ایک بات سمجھنے میں رات ہو گئی ہے
میں اس سے جیت گیا ہوں کہ مات ہو گئی ہے
میں اب کے سال پرندوں کا دن مناؤں گا
مری قریب کے جنگل سے بات ہو گئی ہے
بچھڑ کے تجھ سے نہ خوش رہ سکوں گا سوچا تھا
تری جدائی ہی وجہ نشاط ہو گئی ہے
بدن میں ایک طرف دن طلوع میں نے کیا
بدن کے دوسرے حصے میں رات ہو گئی ہے
میں جنگلوں کی طرف چل پڑا ہوں چھوڑ کے گھر
یہ کیا کہ گھر کی اداسی بھی ساتھ ہو گئی ہے
رہے گا یاد مدینے سے واپسی کا سفر
میں نظم لکھنے لگا تھا کہ نعت ہو گئی ہے
تہذیب حافی

sanaasif
 

کسے خبر ہے کہ عمر بس اس پہ غور کرنے میں کٹ رہی ہے
کہ یہ اداسی ہمارے جسموں سے کس خوشی میں لپٹ رہی ہے
عجیب دکھ ہے ہم اس کے ہو کر بھی اس کو چھونے سے ڈر رہے ہیں
عجیب دکھ ہے ہمارے حصے کی آگ اوروں میں بٹ رہی ہے
میں اس کو ہر روز بس یہی ایک جھوٹ سننے کو فون کرتا
سنو یہاں کوئی مسئلہ ہے تمہاری آواز کٹ رہی ہے
مجھ ایسے پیڑوں کے سوکھنے اور سبز ہونے سے کیا کسی کو
یہ بیل شاید کسی مصیبت میں ہے جو مجھ سے لپٹ رہی ہے
یہ وقت آنے پہ اپنی اولاد اپنے اجداد بیچ دے گی
جو فوج دشمن کو اپنا سالار گروی رکھ کر پلٹ رہی ہے
سو اس تعلق میں جو غلط فہمیاں تھیں اب دور ہو رہی ہیں
رکی ہوئی گاڑیوں کے چلنے کا وقت ہے دھندھ چھٹ رہی ہے
تہذیب حافی

sanaasif
 

کسی سے اور تو کیا گفتگو کریں دل کی
کہ رات سن نہ سکے ہم بھی دھڑکنیں دل کی
مگر یہ بات خرد کی سمجھ میں آ نہ سکی
وصال و ہجر سے آگے ہیں منزلیں دل کی
جلو میں خواب نما رت جگے سجائے ہوئے
کہاں کہاں لیے پھرتی ہیں وحشتیں دل کی
نگاہ ملتے ہی رنگ حیا کی صورت ہیں
چھلک اٹھیں ترے رخ سے لطافتیں دل کی
نگاہ کم بھی اسے سنگ سے زیادہ ہے
کہ آئنہ سے سوا ہیں نزاکتیں دل کی
دیار حرف و نوا میں کوئی تو ایسا ہو
کبھی کسی سے تو ہم بات کر سکیں دل کی
سر جریدۂ ہستی ہمارے بعد امیدؔ
لہو سے کون لکھے گا عبارتیں دل کی
امید فاضلی

sanaasif
 

حجاب اٹھے ہیں لیکن وہ رو بہ رو تو نہیں
شریک عشق کہیں کوئی آرزو تو نہیں
یہ خود فریبئ احساس آرزو تو نہیں
تری تلاش کہیں اپنی جستجو تو نہیں
سکوت وہ بھی مسلسل سکوت کیا معنی
کہیں یہی ترا انداز گفتگو تو نہیں
انہیں بھی کر دیا بیتاب آرزو کس نے
مری نگاہ محبت کہیں یہ تو تو نہیں
کہاں یہ عشق کا عالم کہاں وہ حسن تمام
یہ سوچتا ہوں کہ میں اپنے رو بہ رو تو نہیں
نگاہ شوق سے غافل سمجھ نہ جلووں کو
شراب کچھ بھی ہو بیگانۂ سبو تو نہیں
خوشی سے ترک محبت کا عہد لے اے دوست
مگر یہ دیکھ ترا دل لہو لہو تو نہیں
نہ گرد راہ ہے رخ پر نہ آنکھ میں آنسو
یہ جستجو بھی سہی اس کی جستجو تو نہیں
چمن میں رکھتے ہیں کانٹے بھی اک مقام اے دوست
فقط گلوں سے ہی گلشن کی آبرو تو نہیں
امید فاضلی

sanaasif
 

کیا مجھ عشق نے ظالم کوں آب آہستہ آہستہ
کہ آتش گل کوں کرتی ہے گلاب آہستہ آہستہ
وفاداری نے دل بر کی بجھایا آتش غم کوں
کہ گرمی دفع کرتا ہے گلاب آہستہ آہستہ
عجب کچھ لطف رکھتا ہے شب خلوت میں گل رو سوں
خطاب آہستہ آہستہ جواب آہستہ آہستہ
مرے دل کوں کیا بے خود تری انکھیاں نے آخر کوں
کہ جیوں بے ہوش کرتی ہے شراب آہستہ آہستہ
ہوا تجھ عشق سوں اے آتشیں رو دل مرا پانی
کہ جیوں گلتا ہے آتش سوں گلاب آہستہ آہستہ
ادا و ناز سوں آتا ہے وو روشن جبیں گھر سوں
کہ جیوں مشرق سوں نکلے آفتاب آہستہ آہستہ
ولیؔ مجھ دل میں آتا ہے خیال یار بے پروا
کہ جیوں انکھیاں منیں آتا ہے خواب آہستہ آہستہ
ولی دکنی

sanaasif
 

جسے عشق کا تیر کاری لگے
اسے زندگی کیوں نہ بھاری لگے
نہ چھوڑے محبت دم مرگ تک
جسے یار جانی سوں یاری لگے
نہ ہووے اسے جگ میں ہرگز قرار
جسے عشق کی بے قراری لگے
ہر اک وقت مجھ عاشق پاک کوں
پیارے تری بات پیاری لگے
ولیؔ کوں کہے تو اگر یک بچن
رقیباں کے دل میں کٹاری لگے
ولی دکنی

sanaasif
 

رہنا تم چاہے جہاں خبروں میں آتے رہنا
ہم کو احساس جدائی سے بچاتے رہنا
خود گزیدہ ہوں بڑا زہر ہے میرے اندر
اس کا تریاق ہے راتوں کو جگاتے رہنا
مدتوں بعد جو دیکھو گے تو ڈر جاؤ گے
اپنے کو آئنہ ہر روز دکھاتے رہنا
خود فریبی سے حسیں تر نہیں کوئی جذبہ
خود جو رہنا ہے تو یہ دھوکا بھی کھاتے رہنا
یہ تو معلوم ہے مرنے پہ ملے گی اجرت
کار فن کار ہے تصویر بناتے رہنا
اپنی نااہلی پہ قاتل کو نہ طیش آ جائے
اوچھے زخموں کو ذرا اس سے چھپاتے رہنا
ہارنے جیتنے سے کچھ نہیں ہوتا وامقؔ
کھیل ہر سانس پہ ہے داؤں لگاتے رہنا
وامق جونپوری

sanaasif
 

Today is a new day. Dont let your history interfere with your destiny! Let today be the day you stop being a victim of your circumstances and start taking actions towards the life you want. You have the power and the time to shape your life. Break free from the poisonous victim mentality and embrace the truth of your greatness. You were not meant for a mundane or mediocre life!🌞🌺🎊

sanaasif
 

دل توڑ کر وہ دل میں پشیماں ہوا تو کیا
اک بے نیاز ناز پہ احساں ہوا تو کیا
اپنا علاج تنگئ دل وہ نہ کر سکے
میرا علاج تنگی داماں ہوا تو کیا
جب بال و پر ہی نذر قفس ہو کے رہ گئے
صحن چمن میں شور بہاراں ہوا تو کیا
اک عمر رکھ کے روح مری تشنۂ نشاط
اب نغمۂ حیات پرافشاں ہوا تو کیا
جب میرے واسطے درمے خانہ بند ہے
صہبا میں غرق عالم امکاں ہوا تو کیا
ٹوٹے پڑے ہیں ساز محبت کے تار تار
اب شاہد خیال غزل خواں ہوا تو کیا
آدم نے ایک خوشۂ گندم کو کیا کیا
مجرم کبھی جو بھوک سے انساں ہوا تو کیا
وامقؔ کی تیرہ بختی کا عالم وہی رہا
ظلمت کدہ میں چشمۂ حیواں ہوا تو کیا
وامق جونپوری

sanaasif
 

کیدو آکھدا ملکیے بھیڑئیے نی تیر ی دِھیو وڈا چنچرچایا ای
جا نئیں تے چاک دے نال گُھلدی اِیس ملک دا رتھ گوایا ای
ماں باپ قاضی سبھے ہار تھکے ایس اِک نہ جیو تے لایا ای
منہ گھٹ رہے وال پُٹ رہے لِنگ کُٹ رہے مینوں تایاای
جنگھ جُٹ رہے جھاٹا پُٹ رہے انت ہُٹ رہے غیب چایاای
لُٹ پُٹ رہے تے نکھٹ رہے لتیں جُٹ رہے لٹکایاای
متیں دے رہے پیر سیوں رہے پیریں پئے رہے لوڑھا آیاای
وارثؔ شاہ میاں سُتے معاملے نوں لنگے رِچھ نے موڑ جگایا ای
وارث شاہ

sanaasif
 

ختم رب دے کرم دے نال ہوئی فرمایش پیارڑ ے یار دی سی
ایسا شعر کیتا پُر مغز موزوں جیہا موتیاں لڑ ی شہوار دی سی
طُول کھول کے ذکر میان کیتا رنگت رنگ دی خُوب بہار دی سی
تمثیل دے نال بناء کہیا جیہی زینت لعل دے ہار دی سی
جو کو پڑ ھے سو بہت خور سند ہو وے واہ واہ سبھ خلق پُکار دی سی
وارثؔ شاہ نُوں سِک دیدار دی ہے جیہی ہیر نُوں بھٹکنا یار دی سی
وارث شاہ

sanaasif
 

سلطان بھائی آیا ہیر سندا آکھے ماؤں نوں دِھیو نُوں تاڑ اماں
اساں پھیر جے باہر ایہہ ڈٹھی سٹاں اِیس نوں جان تھیں مار اماں
تیرے آکھیاں ستر جے بہے ناہیں پھیراں اِیس دی دھون تلوار اماں
چاک وڑے ناہیں ساڈے وِچ ویہڑے نہیں ڈکرے کراں سُو چار اماں
جے دھیو نہ حکم وچ رکھیائی سبھ ساڑ سُٹوں گھر بار اماں
وارث شاہ جیہڑی دِھیو بُری ہووے روڑھ دیے سمندروں پار اماں
وارث شاہ

sanaasif
 

رانجھے آکھیا آ کھاں بیٹھ ہیرے کوئی خوب تدبیر بنائیے نی
تیرے ماں تے باپ دلگیر ہوندے کویں اُوہناں تھوں بات چھپائیے نی
مٹھی نائن نوں سد کے بات گِنیے جے توں کہیں تیرے گھر آئیے نی
میں سیالاں دے ویہڑے وڑاں ناہیں ساتھے ہیر نوں نِت پہنچائیے نی
دینہہ رات تیرے گھر میل ساڈا ساڈے سریں احسان چڑھائیے نی
ہیر پنج مہراں ہتھ دتےاں نیں جویں مٹھیے ڈول پکائیے نی
کُڑیاں نال نہ کھولنا بھیت مُوئے سبھا جیو دے وِچ لُکائیے نی
وارثؔ شاہ چھپائیے خلق کولوں بھاویں اپنا ہی گڑ کھائیے نی
وارث شاہ

sanaasif
 

سن یاراں سے اسیاں بنی ہجرت لمے دیس دے وچ تیار ہوئی
اٹھاراں سے تریئیاں سمتاں دا راجے بکرما جیت دی سار ہوئی
جدوں دیس تے جٹ سردار ہوئے گھرو گھری جاں نویں سرکار ہوئی
اشراف خراب کمین تازہ زمیندار نُوں وڈی بہار ہوئی
چور چوہدری یار نی پاکدامن بھُوت منڈلی اِک تھوں چار ہوئی
وارثؔ جنہاں نیں آکھیا پاک کلمہ بیڑ ی تنھاں دی عاقبت پار ہوئی
وارث شاہ