دکھ میں جب ہوتے ہیں نمناک نگاہوں والے دیکھنا ان کو کبھی غور سے ، ہنس پڑتے ہیں بات بے بات بھی ہنستے ہیں بہت ہم لیکن دل جو ٹوٹے تو ذرا زور سے ہنس پڑتے ہیں
خود پہ ضبّط کر لوں اُسکے سارے اختیار اب خود پہ میرا اتنا اختیار بھی نہیں افسوس ! زُود پشیماں اب کیا ہو سکے اب ترے لوٹنے کا انتظار بھی نہیں میں کیسے مان لوں کہ تمہیں پیار ہے بہت جبکہ مجھے پتا ہے تمہیں پیار بھی نہیں سر پہ جو ہے سوار ،اُتار کیوں نا پھینکیں کہنے کو ایک شخص ہے، دستار بھی نہیں ہیں لوگ چالباز ، دغاباز آجکل ڈر ہے مجھے تُو اتنا سمجھدار بھی نہیں ڈرتے ڈرتے یوں بند قبا کھولے ہیں ملنے کیوں آتے ہو، جب اعتبار بھی نہیں اک طرف یہ دعویٰ کہ جان دیتا ہے واصؔی اک طرف الزام کہ وفادار بھی نہیں
ہر ریشہ ء کردار کو اچھے سے ادھیڑو لگتا ہے کہانی کی بُنَت ٹھیک نہیں ہے لکڑی کو لگے گھن کی طرح روگ ہیں کتنے دل ٹھیک تو رہتا ہے ، بہت ٹھیک نہیں ہے۔۔۔۔ __🖤🙂