مجھ سے نفرت کرنے والے کمال کا ہنر رکھے ہیں
مجھے دیکھنا نہیں چاہتے اور مجھ پر ہی نظر رکھتے ہیں
semi khan
فاصلے جب چاہو ختم کر سکتی ہو
رابطے جب چاہو بڑھا سکتی ہو
semi khan
آنسو تھا اس کا ٹھیک وی پر گرا ہوا
خط میں جہاں تھا ترک تعلق لکھا ہوا
semi khan
تیری آواز میرا رزق ہوا کرتی تھی
تو مجھے بھوک سے مارے گا کبھی سوچا نہ تھا
semi khan
ہزاروں خواب مرتے ہیں تو اک مصرع نکلتا ہے
ذرا سوچیں غزل کتنے جنازوں کی کمائ ہے
semi khan
عشق والوں کے نصیبوں میں کہاں ذوق جنوں
یہ عشق والے ہی ہیں جو جان لٹاتے ہیں
جانے ایسی کیا دل لگی تھی تم سے
آخری خواہش میں بھی تیری محبت مانگی
semi khan
پتا نہیں کیا چھپا تھا اسکی نگاہ الفت میں
نہ چاہتے ہوئے بھی اظہار دل لگی کر بیٹھے
semi khan