کاش کے مل جاۓ مجھے مقدر کی سیاہی اور قلم
لمحے لمحے کی خوشی لکھ دوں تمہاری زندگی کے لیے
کوئی ایسا ورد بتاؤ لوگو مہز گفتگو جب یار ہو
وقت تھم۔جائے
رک جائے
ہائے۔۔۔ٹھہر جائے
awaz de kaha he dunya meri kaha he
jane kaha gaye wo din......
تمہیں یاد کرنا بھی ایک احساس ہے
ایسا لگتا ہے کے جیسے تو ہر پل میرے ساتھ ہے
yes my veerni 🥰
محسوس کر مجھے تو خود میں کہیں پہ
ہے تیری ڈھڑکن جہاں میں ہوں وہیں پہ
meri veerni
اس مقام پر حضرت جبرائیل رک گئے اور عرض کرنے لگے: یارسول اللہ ( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم)! ہم سب کے لئے ایک جگہ مقرر ہے۔ اب اگر میں ایک بال بھی آگے بڑھوں گا تو اللہ تعالیٰ کے انوار و تجلیات میرے پروں کو جلاکر رکھ دیں گے۔ یہ میرے مقام کی انتہاء ہے۔ سبحان اللہ! حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رفعت و عظمت کا اندازہ لگایئے کہ جہاں شہباز سدرہ کے بازو تھک جائیں اور روح الامین کی حد ختم ہوجائے وہاں حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پرواز شروع ہوتی ہے۔ اس موقع پر حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں، اے جبرائیل کوئی حاجت ہو تو بتاؤ۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عرض کی حضور( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ مانگتا ہوں کہ قیامت کے دن پل صراط پر آپ کی امت کے لئے بازو پھیلاسکوں تاکہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک ایک غلام آسانی سے گزر جائے
۔ فرشتوں نے اذن طلب کیا کہ اے اللہ تیرے محبوب تشریف لارہے ہیں، ان کے دیدار کی ہمیں اجازت عطا فرما۔ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ تمام فرشتے سدرۃ المنتہٰی پر جمع ہوجائیں اور جب میرے محبوب کی سواری آئے تو سب زیارت کرلیں۔ چنانچہ ملائکہ سدرہ پر جمع ہوگئے اور جمال محمد ( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھنے کے لئے سدرہ کو ڈھانک لیا۔
(درمنشور، جلد6، ص126)
دوسرے آسمان پر پہنچے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت یحییٰ علیہ السلام نے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خوش آمدید کہا۔ تیسرے آسمان پر حضرت یوسف علیہ السلام نے، چوتھے آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے، پانچویں آسمان پر حضرت ہارون علیہ السلام نے، چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اور ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سرور کونین حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا استقبال کیا اور خوش آمدید کہا۔ پھر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جنت کی سیر کرائی گئی۔ پھر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اس مقام پر پہنچے جہاں قلم قدرت کے چلنے کی آواز سنائی دیتی تھی۔ اس کے بعد پھر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سدرۃ المنتہٰی تک پہنچے۔ سدرہ وہ مقام ہے جہاں مخلوق کے علوم کی انتہاء ہے۔
۔ سرور کونین حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نوری مخلوق کے جھرمٹ میں آسمان کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔
حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: ثم عرج بی پھر مجھے اوپر لے جایا گیا۔ براق کی رفتار کا عالم یہ تھا کہ جہاں نگاہ کی انتہاء ہوتی وہاں براق پہلا قدم رکھتا۔ فوراً ہی پہلا آسمان آگیا۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ دربان نے پوچھا کون ہے؟ جواب دیا جبرائیل! دربان نے پوچھا، من معک تمہارے ساتھ کون ہے؟ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا حضرت محمد(صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم)! دربان نے کہا: مرحبا دروازے انہی کے لئے کھولے جائیں گے۔ چنانچہ دروازہ کھول دیا گیا۔ آسمان اول پر حضرت آدم علیہ السلام نے حضور سرور کونین صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خوش آمدید کہا
آفتاب نبوت حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد اقصیٰ میں داخل ہوتے ہیں۔ صحن حرم سے فلک تک نور ہی نور چھایا ہوا ہے۔ ستارے ماند پڑچکے ہیں، قدسی سلامی دے رہے ہیں، حضرت جبرائیل علیہ السلام اذان دے رہے ہیں، تمام انبیاء و رسل صف در صف کھڑے ہورہے ہیں۔ جب صفیں بن چکیں تو امام الانبیاء فخر دوجہاں حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم امامت فرمانے تشریف لاتے ہیں۔ تمام انبیاء و رسل امام الانبیاء کی اقتداء میں دو رکعت نماز ادا کرکے اپنی نیاز مندی کا اعلان کرتے ہیں۔ ملائکہ اور انبیاء کرام سب کے سب سرتسلیم خم کئے ہوئے کھڑے ہیں۔ بیت المقدس نے آج تک ایسا دلنواز منظر اور روح پرور سماں نہیں دیکھا ہوگا۔ وہاں سے فارغ ہی عظمت و رفعت کے پرچم پھر بلند ہونے شروع ہوتے ہیں۔ درود و سلام سے فضا ایک مرتبہ پھر گونج اٹھتی ہے
۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ معراج کی رات میں سرخ ٹیلے سے گزرا تو میں نے دیکھا کہ وہاں موسیٰ علیہ السلام کی قبر ہے اور وہ اپنی قبر میں کھڑے ہوکر نماز پڑھ رہے ہیں۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے بیت المقدس بھی آگیا جہاں قدسیوں کا جم غفیر سلامی کے لئے موجود ہے۔ حوروغلماں خوش آمدید کہنے کے لئے اور تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء و مرسلین استقبال کے لئے بے چین و بے قرار کھڑے تھے۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اس مقام پر تشریف فرماہوئے جسے باب محمد( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہا جاتا ہے۔ حضرت جبریل علیہ السلام ایک پتھر کے پاس آئے جو اس جگہ موجود تھا۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے اس پتھر میں اپنی انگلی مار کر اس میں سوراخ کردیا اور براق کو اس میں باندھ دیا۔
آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نہایت شان و شوکت سے ملائکہ کے جلوس میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔ یہ گھڑی کس قدر دلنواز تھی کہ جب مکاں سے لامکاں تک نور ہی نور پھیلا ہوا تھا، سواری بھی نور تو سوار بھی نور، باراتی بھی نور تو دولہا بھی نور، میزبان بھی نور تو مہمان بھی نور، نوریوں کی یہ نوری بارات فلک بوس پہاڑیوں، بے آب و گیاہ ریگستانوں، گھنے جنگلوں، چٹیل میدانوں، سرسبز و شاداب وادیوں، پرخطر ویرانوں پر سے سفر کرتی ہوئی وادی بطحا میں پہنچی جہاں کھجور کے بیشمار درخت ہیں۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام عرض کرتے ہیں کہ حضور یہاں اتر کر دو رکعت نفل ادا کیجئے یہ آپ کی ہجرت گاہ مدینہ طیبہ ہے۔ نفل کی ادائیگی کے بعد پھر سفر شروع ہوتا ہے۔ راستے میں ایک سرخ ٹیلا آتا ہے جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قبر ہے
فضا فرشتوں کی درود و سلام کی صداؤں سے گونج اٹھی اور آقائے نامدار حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم درود و سلام کی گونج میں سفر معراج کا آغاز فرماتے ہیں۔ اس واقعہ کو قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس طرح بیان فرمایا ہے:
سُبْحٰنَ الَّذِیْ اَسْرٰی بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰـرَکْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ اٰيٰـتِنَا.
’’وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصیٰ تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندہِ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں‘‘۔
چند لمحوں کے بعد وہ وقت بھی آگیا کہ سرور کونین حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم براق پر تشریف فرما ہوگئے۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے رکاب تھام لی۔ حضرت میکائیل علیہ السلام نے لگام پکڑی۔ حضرت اسرافیل علیہ السلام نے زین کو سنبھالا۔ حضرت امام کاشفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ معراج کی رات اسی ہزار فرشتے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دائیں طرف اور اسی ہزار بائیں طرف تھے۔
(معارج النبوة، ص606)
حضرت جبرائیل علیہ السلام نے سرور کونین حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نور کی ایک چادر پہنائی۔ زمرد کی نعلین مبارک پاؤں میں زیب تن فرمائی، یاقوت کا کمر بند باندھا۔
(معارج النبوة، صفحة: 601)
حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے براق کا حلیہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: سینہ سرخ یاقوت کی مانند چمک رہا تھا، اس کی پشت پر بجلی کوندتی تھی، ٹانگیں سبز زمرد، دُم مرجان، سر اور اس کی گردن یاقوت سے بنائی گئی تھی۔ بہشتی زین اس پر کسی ہوئی تھی جس کے ساتھ سرخ یاقوت کے دور کاب آویزاں تھے۔ اس کی پیشانی پر لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ لکھا ہوا تھا۔
حضرت جبرائیل علیہ السلام فرماتے ہیں کہ قلب ہر قسم کی کجی سے پاک اور بے عیب ہے اور اس میں دو آنکھیں ہیں جو دیکھتی ہیں اور دو کان ہیں جو سنتے ہیں۔
(فتح الباری جلد: 13: صفحة: 610)
سینہ اقدس کے شق کئے جانے میں کئی حکمتیں ہیں۔ جن میں ایک حکمت یہ ہے کہ قلب اطہر میں ایسی قوت قدسیہ شامل ہوجائے جس سے آسمانوں پر تشریف لے جانے اور عالم سماوات کا مشاہدہ کرنے بالخصوص دیدار الہٰی کرنے میں کوئی دقت اور دشواری پیش نہ آئے۔ پھر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر انور پر عمامہ باندھا گیا۔ علامہ کاشفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: شب معراج حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو عمامہ شریف پہنایا گیا وہ عمامہ مبارک حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے سات ہزار سال پہلے کا تیار کیا ہوا تھا۔ چالیس ہزار ملائکہ اس کی تعظیم و تکریم کے لئے اس کے اردگرد کھڑے تھے۔
چنانچہ آپ نے سفر کی تیاری شروع کی۔ اس موقع پر حضرت جبرائیل امین علیہ السلام نے آپ کا سینہ مبارک چاک کیا اور دل کو دھویا۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ میرے پاس ایک آنے والا آیا اور اس نے میرا سینہ چاک کیا۔ سینہ چاک کرنے کے بعد میرا دل نکالا پھر میرے پاس سونے کا ایک طشت لایا گیا جو ایمان و حکمت سے لبریز تھا۔ اس کے بعد میرے دل کو دھویا گیا پھر وہ ایمان و حکمت سے لبریز ہوگیا۔ اس قلب کو سینہ اقدس میں اس کی جگہ پر رکھ دیا گیا۔
(بخاری شريف جلد اول صفحة: 568)
مسلم شریف میں ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے سینہ چاک کرنے کے بعد قلب مبارک کو زم زم کے پانی سے دھویا اور سینہ مبارک میں رکھ کر سینہ بند کردیا۔
یہ منظر بھی کس قدر حسین ہوگا جب جبریل امین علیہ السلام نے فخر کائنات حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں کو بوسہ دیا۔ حضرت جبرائیل امین علیہ السلام کے ہونٹوں کی ٹھنڈک پاکر حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بیدار ہوتے ہیں اور دریافت کرتے ہیں اے جبرائیل! کیسے آنا ہوا؟ عرض کرتے ہیں: یارسول اللہ! ( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) خدائے بزرگ و برتر کی طرف سے بلاوے کا پروانہ لے کر حاضر ہوا ہوں۔
ان الله اشتاق الی لقائک يارسول الله.
’’یارسول اللہ ( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم)! اللہ تعالیٰ آپ کی ملاقات کا مشتاق ہے‘‘۔
حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے چلئے زمین سے لے کر آسمانوں تک ساری گزر گاہوں پر مشتاق دید کا ہجوم ہاتھ باندھے کھڑا ہے۔ (معراج النبوۃ)
جہاں ماہ نبوت حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم محو خواب ہیں۔ آنکھیں بند کئے، دل بیدار لئے آرام فرمارہے ہیں۔ حضرت جبرائیل امین ہاتھ باندھ کر کھڑے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ اگر آواز دے کر جگایا گیا تو بے ادبی ہوجائے گی۔ فکر مند ہیں کہ معراج کے دولہا کو کیسے بیدار کیا جائے؟ اسی وقت حکم ربی ہوتا ہے یاجبریل قبل قدمیہ اے جبریل! میرے محبوب کے قدموں کو چوم لے تاکہ تیرے لبوں کی ٹھنڈک سے میرے محبوب کی آنکھ کھل جائے۔ اسی دن کے واسطے میں نے تجھے کافور سے پیدا کیا تھا۔ حکم سنتے ہی جبرائیل امین علیہ السلام آگے بڑھے اور اپنے کافوری ہونٹ محبوب دو عالم حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پائے ناز سے مس کردیئے۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain