چین پڑتا ہے گھڑی بھر کو نہ آرام مجھے لے کے پھرتی ہے کہاں گردشِ ایام مجھے مجھ کو تحویل میں اپنی ہی پڑا رہنے دے وقت پڑ جائے تو کر لینا تُو نیلام مجھے وسوسے گھیرے ہوئے ہیں مجھے ہر جانب سے رات بھر سونے نہیں دیتے ہیں اوہام مجھے ایسے ، کم ظرف سمجھ کر مجھے منسوخ نہ کر گرنے والا ہوں نگاہوں سے تری ، تھام مجھے ہاتھ ان سے بھی ملاتا ہوں جو بھاتے ہی نہیں کرنے پڑتے ہیں نہ چاہے بھی کئی کام مجھے میں کسی پل بھی بہت دور چلا جاؤں گا جینے دیتا ہی نہیں ہے دلِ ناکام مجھے تیری فرقت میں بدن نوچ رہا ہوں رامز شدّتِ عشق نے بخشا ہے یہ انعام مجھے
میں لوگوں سے مُلاقاتوں کےلمحے یاد رکھتا ہوں میں باتیں بھول بھی جاؤں لہجے یاد رکھتا ہوں سرِ محفل نگاہیں مجھ پہ جن لوگوں کی پڑتی ہیں نگاہوں کے معنی سے وہ چہرے یاد رکھتا ہوں زرا سا ہٹ کے چلتا ہوں زمانے کی روایت سے کہ جِن پہ بوجھ میں ڈالوں وہ کندھے یاد رکھتا ہوں میں یوں تو بھول جاتا ہوں خراشیں تلخ یادوں کی مگر جو زخم گہرے دیں وہ رویّے یاد رکھتا ہوں