کبھی ماضی کا پچھتاوا ، کبھی انجان مستقبل
جو یوں جیون بتاتے ہوں انہیں کب نیند آتی ہے
سانسوں کے سلسلے کو نہ دو زندگی کا نام
جینے کے باوجود بھی مر جاتے ہیں کچھ لوگ 🥀
قطرہ شبنم کی طرح اڑ جائیں گے گل سے
اک یا د سی رہ جائے گی گلشن میں ہماری 🥀
میں نے کہا کہ کیسے کٹے گی بن تیرے زندگی
جلتے ہوئے چراغ کو اس نے بجھا دیا 🥀
سانس میری تھی مگر اس سے طلب کی محسن
جیسے خیرات سخی سے کوئی سائل مانگے 🥀
مت پوچھ کہ کس طرح چل رہی ہے زندگی
اس دور سے گزر رہاہوں جو گزرتا ہی نہیں ہے
زندگی اک دکان کھلونوں کی
وقت بگڑا ہوا سا اک بچہ 🥀