لمس کی آنچ پہ جذبوں نے اُبالی چائے عشق پِیتا ہے کڑک چاہتوں والی چائے کیتلی ہجر کی تھی , غم کی بنا لی چائے وصل کی پی نہ سکے ,ایک پیالی چائے میرے دالان کا منظر کبھی دیکھو آ کر درد میں ڈوبی ہوئی شام ,سوالی چائے ہم نے مشروب سبھی مضر ِ صحت ترک کئے ایک چھوڑی نہ گئی ہم سے یہ سالی , چائے یہ پہیلی کوئی بُوجھے تو کہ اُس نے کیونکر اپنے کپ سے مرے کپ میں بھلا ڈالی , چائے میں یہی سوچ رہا تھا کہ اجازت چاہوں اُس نے پھر اپنے ملازم سے منگالی چائے اس سے ملتا ہے محبت کے ملنگوں کو سکوں دل کے دربار پہ چلتی ہے دھمالی چائے رنجشیں بھول کے بیٹھیں کہیں مل کر دونوں اپنے ہاتھوں سے پِلا خیر سگالی ,چائے عشق بھی رنگ بدل لیتا ہے جان ِ حسن ! ٹھنڈی ہو جائے تو پڑ جاتی ہے کالی, چائے
یوں نہ مل مجھ سے خفا ھو جیسے ساتھ چل موج صبا ھو جیسے لوگ یوں دیکھ کے ھنس دیتے ھیں تو مجھے بھول گیا ھو جیسے عشق کو شرک کی حد تک نہ بڑھا یوں نہ چھپ مجھ سے خدا ھو جیسے موت آئ بھی تو اس ناز کے ساتھ مجھ پہ احسان کیا ھو جیسے ایسے انجان بنے بیٹھے ھو تم کو کچھ بھی نہ پتہ ھو جیسے زندگی بیت رہی ھے دانش ایک بے جرم سزا ھو جیسے