چوما هے اپنی آنکھوں کو رکھ رکھ کے آئینے میں
.
آج پھر هوئی هے خواب میں ... زیارت جناب کی ;
کان تیری صداؤں کو ترس گئے
یہ آنکھیں تیری دید کے فاقوں سے مر گئی
ﺗُﻢ ﺳﺒﺐ ﮨﻮ ﻣﯿﺮے سکونﮐﺎ
ﺗُﻢ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺗﻮ پتا ھے ﻧﺎ۔؟
تم چاہتے ہو تم سے بچھڑ کر بھی خوش رہوں؟
یعنی ہوا بھی چلتی رہے اور دیا جلے_
تنہائیوں کی رُت میں بھی لگتا تھا مطمئن
وہ شخص اپنی ذات میں اِک انجمن سا تھا
چائے میں گھلی تیرے ہاتھوں کی مٹھاس !
بھلا دیتی ہے _________تلخیاں زمانے کی!
خواب مہنگے بہت پڑے ہم کو
غم کی مقرُوض ہو گئی آنکھیں..!!
تیری قُربت بھی قیامت تِری دُوری بھی عذاب
دِل کو تسکین کی صُورت کِسی پہلُو نہ مِلی