ہمیں نصیب کے چکر میں ڈال کر اس نے
کسی کے بخت سنوارے ہیں اپنے ہاتھوں سے
آس امید ناکام نہ تھیوۓ
یار ولا بدنام نہ تھیوۓ
چھیکڑی وعدہ ہئی اج اوندا
اج تاں شالا شام نہ تھیوۓ
نِکل کے ہیں خِرد کی حدوں سے دیوانے
اب اہل ہوش سے کہے دو نہ آئیں سمجھانے
ہوتی اگر جو موت بھی باندی حیات کی
پھر کس طرف کو جاہ یہ ہوتی نجات کی
جن کے آنگن میں ہو غریبی کا شجر محسن
ان کی ہر بات زمانے کو بری لگتی ہے
ساڈے نال زندگی نے کیتے عجب تماشے
ساڈے دل دا چائنا لٹیا اساں ٹردے پھردے لاشے
میرا ساتھ اس نے تب چھوڑا
جب میرا اُس کے سوا کوئی نہ تھا
رات گہری تھی ڈر بھی سکتے تھے
ہم جو کہتے تھے کر بھی سکتے تھے
تو تم بچھڑے یہ بھی نہ سوچا
ہم تو پاگل تھے مر بھی سکتے تھے
کوئی وے چرسی وے چرس بھرے
بہو مجبور آں میں
اکھوں ڈھول نوں ترس کرے
وقت لے آیا ہے سامنے اصلیت سب کی
ورنہ ہم منافقوں کو بھی اپنا سمجھتے تھے
یہ رونا دھونا کس بات کا ہے
جو کھویا ہے ساتھ لاۓ تھے کیا
ذہنی مار اتنی بری ہوتی ہے کہ انسان کو دیمک کی طرح ختم کر جاتی ہے
تیری آنکھوں کی سہولت میسر ہو جیسے
وہ بھلا چاند ستاروں کو کہاں دیکھتے ہیں
توں آس ایں میڈے جیون دی
نہ آس مکائیں میں مر ویساں
تیرے بدلنے کا دکھ نہیں ہے
میں اپنے اعتبار پہ شرمندہ ہوں
وہ بیوفا نہیں اسے بدنام نہ کر
اس کے چاہنے والے ہزار تھے کس کس سے وفا کرتی
کیسے بتاؤں میں زمانے کو دکھ اپنا
ایک شخص مجھ سے ہی سیکھ کر مجھے ہی فَق کر گیا
جس کو ہم جس قدر ضروری لگے
اس قدر اس نے استعمال کیا
فقط پھولوں کے بکھرنے تک ہے تماشا ان کا
میں تتلیوں کی محبت کو خوب جانتا ہوں
شاید اُنکا آخری ہو یہ ستم
ہر ستم یہ سوچ کر ہم سہہ گئے
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain