...
رات مچھّر نے کہہ دیا مجھ سے
Last night the mosquito related to me
ماجرا اپنی ناتمامی کا
The whole story of his failures
مجھ کو دیتے ہیں ایک بُوند لہُو
“They give me only one drop of blood
صِلہ شب بھر کی تشنہ کامی کا
In return for the whole night’s labor
اور یہ بِسوہ دار، بے زحمت
And this land owner without any effort
پی گیا سب لہُو اسامی کا
Sucked all the blood of the cultivator”
...
یہ آیۂ نو، جیل سے نازل ہوئی مجھ پر
گِیتا میں ہے قرآن تو قرآن میں گیتا
کیا خوب ہُوئی آشتیِ شیخ و بَرہمن
اس جنگ میں آخر نہ یہ ہارا نہ وہ جِیتا
مندر سے تو بیزار تھا پہلے ہی سے ’بدری‘
مسجد سے نکلتا نہیں، ضدّی ہے ’مسیتا‘
...
-waaY BulLYaa
--asaN MarNa NaHii
---GOr PiYa KOii HOr
...
شفَقِ صبح کو دریا کا خرام آئینہ
نغمۂ شام کو خاموشیِ شام آئینہ
برگِ گُل آئنۂ عارضِ زیبائے بہار
شاہدِ مے کے لیے حجلۂ جام آئینہ
حُسن آئینۂ حق اور دل آئینۂ حُسن
دلِ انساں کو ترا حُسنِ کلام آئینہ
...
تجھ کو جب دیدۂ دیدار طلب نے ڈھُونڈا
تابِ خورشید میں خورشید کو پنہاں دیکھا
چشمِ عالَم سے تو ہستی رہی مستور تری
اور عالَم کو تری آنکھ نے عُریاں دیکھا
حِفظِ اسرار کا فطرت کو ہے سودا ایسا
رازداں پھر نہ کرے گی کوئی پیدا ایسا
...
اگر منظور ہو تجھ کو خزاں ناآشنا رہنا
جہانِ رنگ و بو سے، پہلے قطعِ آرزو کر لے
...
چمن میں غنچۂ گُل سے یہ کہہ کر اُڑ گئی شبنم
مذاقِ جَورِ گُلچیں ہو تو پیدا رنگ و بو کر لے
...
نہیں یہ شانِ خودداری، چمن سے توڑ کر تجھ کو
کوئی دستار میں رکھ لے، کوئی زیبِ گلو کر لے
...
تمنّا آبرو کی ہو اگر گلزارِ ہستی میں
تو کانٹوں میں اُلجھ کر زندگی کرنے کی خو کر لے
...
تجھے کیوں فکر ہے اے گُل دلِ صد چاکِ بُلبل کی
تُو اپنے پیرہن کے چاک تو پہلے رفو کر لے
...
جو نغمہزن تھے خَلوتِ اوراق میں طیور
رُخصت ہوئے ترے شجَرِ سایہدار سے
...
ہے لازوال عہدِ خزاں اُس کے واسطے
کچھ واسطہ نہیں ہے اُسے برگ و بار سے
...
ڈالی گئی جو فصلِ خزاں میں شَجر سے ٹُوٹ
مُمکن نہیں ہری ہو سحابِ بہار سے
...
مِلّت کے ساتھ رابطۂ اُستوار رکھ
پیوستہ رہ شجَر سے، امیدِ بہار رکھ!
...
Ssssshhhhhshshsh.
Chup kro saray,
Artaghurl ghazi lag Gaya..
...
اقبالؔ! کس کے عشق کا یہ فیضِ عام ہے
رومی فنا ہُوا، حبَشی کو دوام ہے
...
ذوقِ حاضر ہے تو پھر لازم ہے ایمانِ خلیلؑ
ورنہ خاکستر ہے تیری زندگی کا پیرہن
ہے اگر دیوانۂ غائب تو کچھ پروا نہ کر
منتظر رہ وادیِ فاراں میں ہو کر خیمہ زن
عارضی ہے شانِ حاضر، سطوَتِ غائب مدام
اس صداقت کو محبّت سے ہے ربطِ جان و تن
...
تھا جوابِ صاحبِ سینا کہ مسلم ہے اگر
چھوڑ کر غائب کو تُو حاضر کا شیدائی نہ بن
ذوقِ حاضر ہے تو پھر لازم ہے ایمانِ خلیلؑ
ورنہ خاکستر ہے تیری زندگی کا پیرہن
ہے اگر دیوانۂ غائب تو کچھ پروا نہ کر
منتظر رہ وادیِ فاراں میں ہو کر خیمہ زن
...
پھر اُٹھی آخر صدا توحید کی پنجاب سے
ہند کو اک مردِ کامل نے جگایا خواب سے
...
بُت کدہ پھر بعد مُدّت کے مگر روشن ہُوا
نُورِ ابراہیمؑ سے آزر کا گھر روشن ہُوا
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain