... قافلہ تیرا رواں بے منّتِ بانگِ درا گوشِ انساں سُن نہیں سکتا تری آوازِ پا گھٹنے بڑھنے کا سماں آنکھوں کو دِکھلاتا ہے تُو ہے وطن تیرا کدھر، کس دیس کو جاتا ہے تُو ساتھ اے سیّارۂ ثابت نما لے چل مجھے خارِ حسرت کی خلش رکھتی ہے اب بے کل مجھے نور کا طالب ہوں، گھبراتا ہوں اس بستی میں مَیں طفلکِ سیماب پا ہوں مکتبِ ہستی میں مَیں
... سَو زبانوں پر بھی خاموشی تجھے منظور ہے راز وہ کیا ہے ترے سینے میں جو مستور ہے میری صورت تُو بھی اک برگِ ریاضِ طُور ہے مَیں چمن سے دُور ہوں، تُو بھی چمن سے دُور ہے مُطمئن ہے تُو، پریشاں مثلِ بُو رہتا ہوں میں زخمیِ شمشیرِ ذوقِ جُستجو رہتا ہوں میں
... ملَک آزماتے تھے پرواز اپنی جبینوں سے نورِ ازل آشکارا فرشتہ تھا اک، عشق تھا نام جس کا کہ تھی رہبری اُس کی سب کا سہارا فرشتہ کہ پُتلا تھا بے تابیوں کا مَلک کا مَلک اور پارے کا پارا
... اُٹھی اوّل اوّل گھٹا کالی کالی کوئی حُور چوٹی کو کھولے کھڑی تھی زمیں کو تھا دعویٰ کہ مَیں آسماں ہوں مکاں کہہ رہا تھا کہ مَیں لا مکاں ہوں غَرض اس قدر یہ نظارہ تھا پیارا کہ نظّارگی ہو سراپا نظارا
... کہیں شاخِ ہستی کو لگتے تھے پتّے کہیں زندگی کی کلی پھُوٹتی تھی فرشتے سِکھاتے تھے شبنم کو رونا ہنسی گُل کو پہلے پہل آ رہی تھی عطا درد ہوتا تھا شاعر کے دل کو خودی تَشنہ کامِ مئے بے خودی تھی
...iSHQ OR MOuT... سُہانی نمودِ جہاں کی گھڑی تھی تبسّم فشاں زندگی کی کلی تھی کہیں مہر کو تاجِ زر مِل رہا تھا عطا چاند کو چاندنی ہو رہی تھی سِیَہ پیرہن شام کو دے رہے تھے ستاروں کو تعلیمِ تابندگی تھی
... جب سے چمن چھُٹا ہے، یہ حال ہو گیا ہے دل غم کو کھا رہا ہے، غم دل کو کھا رہا ہے گانا اسے سمجھ کر خوش ہوں نہ سُننے والے دُکھّے ہوئے دلوں کی فریاد یہ صدا ہے آزاد مجھ کو کر دے، او قید کرنے والے! مَیں بے زباں ہوں قیدی، تو چھوڑ کر دُعا لے
... کیا بد نصیب ہوں مَیں گھر کو ترس رہا ہوں ساتھی تو ہیں وطن میں، مَیں قید میں پڑا ہوں آئی بہار، کلیاں پھُولوں کی ہنس رہی ہیں مَیں اس اندھیرے گھر میں قسمت کو رو رہا ہوں اس قید کا الٰہی! دُکھڑا کسے سُناؤں ڈر ہے یہیں قفسں میں مَیں غم سے مر نہ جاؤں
... آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانا وہ باغ کی بہاریں، وہ سب کا چہچہانا آزادیاں کہاں وہ اب اپنے گھونسلے کی اپنی خوشی سے آنا، اپنی خوشی سے جانا لگتی ہے چوٹ دل پر، آتا ہے یاد جس دم شبنم کے آنسوؤں پر کلیوں کا مُسکرانا وہ پیاری پیاری صورت، وہ کامنی سی مورت آباد جس کے دم سے تھا میرا آشیانا آتی نہیں صدائیں اُس کی مرے قفس میں ہوتی مری رہائی اے کاش میرے بس میں!