... یہ بُرائی، وہ بھلائی، یہ جہنّم وہ بہشت اِس اُلٹ پھیر میں فرماؤ کہ کیا رکھا ہے جرم آدم نے کیا اور سزا بیٹوں کو عدل و اِنصاف کا میعار بھی کیا رکھا ہے
... دے کے تدبیر کے پنچھی کو اُڑانیں تُم نے دامِ تقدیر بھی ہر سمت بچھا رکھا ہے کر کے آرائشیں کونین کی برسوں تُم نے ختم کرنے کا بھی منصوبہ بنا رکھا ہے لامکانی کا بہر حال ہے دعوا بھی تمہیں نحنُ اقرب کا بھی پیغام سُنا رکھا ہ
... دِل پہ حیرت نے عجب رںگ جما رکھا ہے ایک اُلجھی ہوئی تصویر بنا رکھا ہے کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ چکّر کیا ہے کھیل کیا تُم نے ازل سے یہ رچا رکھا ہے روح کو جسم کے پنجرے میں بنا کر قیدی اُس پہ پھر موت کا پہرا بھی بِٹھا رکھا ہے
... چھپتے نہیں ہو سامنے آتے نہیں ہو تُم جلوہ دِکھا کے جلوہ دکھاتے نہیں ہو تُم دیر و حرم کے جھگڑے مٹاتے نہیں ہو تُم جو اصل بات ہے وہ بتاتے نہیں ہو تُم حیراں ہوں میرے دِل میں سمائے ہو کِس طرح ہالانکہ دو جہاں میں سماتے نہیں ہو تُم
... فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سِرا ملتا نہیں پتا یوں تو بتا دیتے ہو سب کو لا مکاں اپنا تعجب ہے مگر رہتے ہو تم ٹوٹے ہوئے دِل میں
... حیران ہوں اِس بات پہ تم کون ہو کیا ہو ہاتھ آؤ تو بُت، ہاتھ نہ آؤ تو خدا ہو عقل میں جو گھِر گیا لا اِنتہا کیوںکر ہوا جو سمجھ میں آ گیا پھر وہ خدا کیوںکر ہوا
... نہیں ہے تو تو پھر اِنکار کیسا نفی بھی تیرے ہونے کا پتا ہے میں جس کو کہہ رہا ہوں اپنی ہستی اگر وہ تو نہیں تو اور کیا ہے نہیں آیا خیالوں میں اگر تو تو پھر میں کیسے سمجھا تو خدا ہے
... حرم و دیر میں ہے جلوۂ پُرفن تیرا دو گھروں کا ہے چراغ اِک رُخِ روشن تیرا جو اُلفت میں تمہاری کھو گیا ہے اُسی کھوئے ہوئے کو کچھ مِلا ہے نہ بُت خانے، نہ کعبے میں مِلاہے مگر ٹوٹے ہوئے دِل میں ملا ہے عدم بن کر کہیں تو چھپ گیا ہے کہیں تو ہست بن کر آ گیا ہے
... تجھے دیر و ہرم میں میں نے ڈھونڈا، تو نہیں ملتا مگر تشریف فرما تجھ کو اپنے دِل میں دیکھا ہے ڈھونڈے نہیں ملے ہو، نا ڈھونڈے سے کہیں تم اور پھر یہ تماشہ ہے جہاں ہم ہیں وہیں تم
کبھی یہاں تمہیں ڈھونڈا، کبھی وہاں پہنچا تمہاری دید کی خاطر کہاں کہاں پہنچا غریب مِٹ گئے پامال ہو گئے لیکن کسی تلک نہ تیرا آج تک نِشاں پہنچا ہو بھی نہیں اور ہر جا ہو، تم اک گورکھ دھندا ہو
... غریبِ شہر ہوں مَیں، سُن تو لے مری فریاد کہ تیرے سینے میں بھی ہوں قیامتیں آباد مری نوائے غم آلود ہے متاعِ عزیز جہاں میں عام نہیں دولتِ دلِ ناشاد گلہ ہے مجھ کو زمانے کی کور ذوقی سے سمجھتا ہے مری محنت کو محنت فرہاد