... شام کو آواز چشموں کی سُلاتی ہے مجھے صبح فرشِ سبز سے کوئل جگاتی ہے مجھے بزمِ ہستی میں ہے سب کو محفل آرائی پسند ہے دلِ شاعر کو لیکن کُنجِ تنہائی پسند
... گھر بنایا ہے سکوتِ دامنِ کُہسار میں آہ! یہ لذّت کہاں موسیقیِ گُفتار میں ہم نشینِ نرگسِ شہلا، رفیقِ گُل ہوں مَیں ہے چمن میرا وطن، ہمسایۂ بُلبل ہوں مَیں
... آہ، وہ یوسف نہ ہاتھ آیا ترے بازار میں چشمِ حیراں ڈھُونڈتی اب اور نظّارے کو ہے آرزو ساحل کی مجھ طوفان کے مارے کو ہے چھوڑ کر مانندِ بُو تیرا چمن جاتا ہوں مَیں رُخصت اے بزمِ جہاں! سُوئے وطن جاتا ہوں مَیں
... گو بڑی لذّت تری ہنگامہ آرائی میں ہے اجنبیّت سی مگر تیری شناسائی میں ہے مدّتوں تیرے خود آراؤں سے ہم صحبت رہا مدّتوں بے تاب موجِ بحر کی صورت رہا مدّتوں بیٹھا ترے ہنگامۂ عشرت میں مَیں روشنی کی جُستجو کرتا رہا ظُلمت میں مَیں
*...* رُخصت اے بزمِ جہاں! رُخصت اے بزمِ جہاں! سُوئے وطن جاتا ہوں مَیں آہ! اس آباد ویرانے میں گھبراتا ہوں مَیں بسکہ مَیں افسردہ دل ہوں، درخورِ محفل نہیں تُو مرے قابل نہیں ہے، مَیں ترے قابل نہیں قید ہے، دربارِ سُلطان و شبستانِ وزیر توڑ کر نکلے گا زنجیرِ طلائی کا اسیر
... مضطرب رکھتا ہے میرا دلِ بے تاب مجھے عینِ ہستی ہے تڑپ صورتِ سیماب مجھے موج ہے نام مرا، بحر ہے پایاب مجھے ہو نہ زنجیر کبھی حلقۂ گِرداب مجھے آب میں مثلِ ہوا جاتا ہے توسَن میرا خارِ ماہی سے نہ اٹکا کبھی دامن میرا
... ہو اگر ہاتھوں میں تیرے خامۂ معجز رقم شیشۂ دل ہو اگر تیرا مثالِ جامِ جم پاک رکھ اپنی زباں، تلمیذِ رحمانی ہے تُو ہو نہ جائے دیکھنا تیری صدا بے آبرو! سونے والوں کو جگا دے شعر کے اعجاز سے خرمنِ باطل جلا دے شُعلۂ آواز سے
... تُو اگر کوئی مدبّر ہے تو سُن میری صدا ہے دلیری دستِ اربابِ سیاست کا عصا عرضِ مطلب سے جھجک جانا نہیں زیبا تجھے نیک ہے نیّت اگر تیری تو کیا پروا تجھے بندۂ مومن کا دل بیم و ریا سے پاک ہے قوّت فرماں روا کے سامنے بے باک ہے
... وا نہ کرنا فرقہ بندی کے لیے اپنی زباں چھُپ کے ہے بیٹھا ہوا ہنگامۂ محشر یہاں وصل کے اسباب پیدا ہوں تری تحریر سے دیکھ! کوئی دل نہ دُکھ جائے تری تقریر سے محفلِ نَو میں پرانی داستانوں کو نہ چھیڑ رنگ پر جو اَب نہ آئیں اُن فسانوں کو نہ چھیڑ
... اس چمن کے نغمہ پیراؤں کی آزادی تو دیکھ شہر جو اُجڑا ہوا تھا اُس کی آبادی تو دیکھ فکر رہتی تھی مجھے جس کی وہ محفل ہے یہی صبر و استقلال کی کھیتی کا حاصل ہے یہی سنگِ تربت ہے مرا گرویدۂ تقریر دیکھ چشمِ باطن سے ذرا اس لوح کی تحریر دیکھ