مت پوچھو مجھ سے نام مرا میں بِن موسم کی پروائی میں دریاؤں کی گہرائی میں ھوں پربت کی اونچائی میں قوسِ قزح کی رعنائیمیں نخلستانِ صحرائی پابندی سے کیا کام مرا مت پوچھو مجھ سے نام مرا میں عقل و عمل میں دانائی میں عشق، جنوں ، میں سودائی میں شہرت ، عزت ، رسوائی میں خود محفل ، میں تنہائی ھے دنیا مری الہام مرا مت پوچھو مجھ سے نام مرا میں خوابیدہ سی خوشبو ھوں میں اک آسیب ھوں جادو ھوں میں شعلہ ھوں ، میں جگنو ھوں میں دشت و دمن کا آھو ھوں میں ھر جا ھوں میں ھر سو ھوں سہہ پائے نہ کوئی دام مرامت پوچھو مجھ سے نام مرا حیرت کی اوج کمال ھوں میں ان دیکھی سنی تمثال ھوں میں میں راحت، حزن و ملال ھوں میں لا حاصل ایک خیال ھوں میں اب بھی ھے تجھے ابہام مرا ؟ مت پوچھو مجھ سے نام مرا عنبرین خان
اس نے ٹھکرا دیا محبت کو ہم نے دفنا دیا محبت کو دل تو دل روح بھی ہوئی زخمی تم نے زخما دیا محبت کو تیری بے ربط گفتگو نے تو اور الجھا دیا محبت کو ہم گلابوں کے خاندان سے ہیں ہم نے مہکا دیا محبت کو سیدھے رستے پہ جا رہی تھی مگر اس نے بھٹکا دیا محبت کو میری دیوار گر گئی لیکن میں نے رستا دیا محبت کو ہم نے ماہین جاں گنوائی ہے آپ نے کیا دیا محبت کو.