یہ مت سوچنا کہ ہم غافل ہو گئے ہیں تیری یاد سے
بس تمہیں مصروف سمجھ کر زیادہ تنگ نہیں کرتے
کر ان کا ادب، رکھ انہیں سینے سے لگا کر
یہ درد ، یہ تنہائیاں ، مہمان ہیں محسن
ﭘﮩﻠﮯ ﺗﻮ ﺍُﺱ ﻧﮯ ﻏﻢ ﮐﮯ ﻓﻮﺍﺋﺪ ﺑﯿﺎﮞ ﮐﺌﮯ
ﭘﮭﺮ ﻭﻗﻔﮧ ﻟﮯ ﮐﮯ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ، ﺧﻮﺵ ﺭﮨﺎ ﮐﺮﻭ
میں نے کہا اک پل میں کیسے نکلتی ہے جان
اس نے چلتے چلتے میرا ہاتھ چھوڑ دیا
بہت سخی ہے یہ بازار محبت
یہاں قدم قدم پر درد ہی درد ملتا
ہم نے سمیٹے ہیں درد دنیا کے
تم سے ایک ہم نہ سمبھالے گئے
مت پوچھنا کہ درد کس کس نے دیا ورنہ کچھ اپنوں کے سر بھی جھک جائنگے
بہت درد چھپے ہیں رات کے ہر پہلو میں
اچھا ہو کے کچھ دیر کے لیے نیند آجائے
میرے بعد کوئی نہ روۓ گا مجھ پر
میں سب کے دل میں اتنی نفرت بھر جاوں گا