نہ لفظوں کا لہو نکلتا ہے نہ کتابیں بول پاتی ہے۔
میرے درد کے دو گواہ تھے دونوں بے زباں نکلے۔
ہنس کے ہر دردکو سہا ہیے مینے
اس امید پر کے آج سیے بھتر کل ہوگا میرا
ان ہواؤں میں سسکی کی صدا کیسی ہے
بیان کرتا ہےکوئی درد پرانا میراا
اور وہ شخص بھی محروم سماعت نکلا،
ہم نے رو رو کے جسے درد سنائے اپنے
ٹھوکروں کے نیل ہیں مُجھ پر سو، اب
عام سا پتھر نہیں ، نیلم ہُوں مَیں
بہت دکھ درد دیے زمانے نے
مگر وہ سارے درد کم لگے تیرے اک درد سے
یہ میرے ادّب کی اِنتہا ھے کہ ، اے عدم
اُس کا وجُود ہو کے بھی، اُس سے جُدا ہوں میں
ہنستے ھوۓ چہروں کو غموں سے آزاد نہ سمجھو
تبسم کی پناہوں میں ہزاروں درد ہوتے ہیں
میرے تو درد بھی اوروں کے کام آتے ہیں،
میں رو پڑوں تو کئی لوگ مسکراتے ہیں
زندگی نہ کر سکی اس درد کا علاج
سکون تب تب ملا ، جب جب تجھے یاد کیا
میں مر جاؤں تجھے میری خبر نہ ملے.
تو ڈھونڈتا رہے اور تجھے میری قبر نہ ملے.
تمہیں تو میں نے ہمدرد مانا تھا لیکن
مجھے تو سارے درد تم ہی سے ملے
یقین نہ آئے تو اک بار پوچھ کر دیکھو۔
جو ہنس رہا ہے وہ زخموں سے چور نکلے گا
یہ مت سوچنا کہ ہم غافل ہو گئے ہیں تیری یاد سے
بس تمہیں مصروف سمجھ کر زیادہ تنگ نہیں کرتے
کر ان کا ادب، رکھ انہیں سینے سے لگا کر
یہ درد ، یہ تنہائیاں ، مہمان ہیں محسن
ﭘﮩﻠﮯ ﺗﻮ ﺍُﺱ ﻧﮯ ﻏﻢ ﮐﮯ ﻓﻮﺍﺋﺪ ﺑﯿﺎﮞ ﮐﺌﮯ
ﭘﮭﺮ ﻭﻗﻔﮧ ﻟﮯ ﮐﮯ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ، ﺧﻮﺵ ﺭﮨﺎ ﮐﺮﻭ
میں نے کہا اک پل میں کیسے نکلتی ہے جان
اس نے چلتے چلتے میرا ہاتھ چھوڑ دیا
بہت سخی ہے یہ بازار محبت
یہاں قدم قدم پر درد ہی درد ملتا