نہ لفظوں کا لہو نکلتا ہے نہ کتابیں بول پاتی ہے۔
میرے درد کے دو گواہ تھے دونوں بے زباں نکلے۔
اس کی آواز سن لوں تو مل جاتا ہے سکون دل کو
دیکھو تو سہی میرے درد کا علاج کیسا ہے
یقین نہ آئے تو اک بار پوچھ کر دیکھو۔
جو ہنس رہا ہے وہ زخموں سے چور نکلے گا
یہ مت سوچنا کہ ہم غافل ہو گئے ہیں تیری یاد سے
بس تمہیں مصروف سمجھ کر زیادہ تنگ نہیں کرتے
درد اتنا کے ہر رگ میں ہے مہشر برپا
اور سکوں ایسا کے مر جانے کو جی چاہتا ہے
ہمیں آتی نہیں یہ پیار بھری شاعری
جس نے درد سننا ہو آ جائے محفل میں
میں مر جاؤں تجھے میری خبر نہ ملے.
تو ڈھونڈتا رہے اور تجھے میری قبر نہ ملے.
درد اٹهتا ہے تو تصور میں آجاتے ہیں وہ
خدا میرے درد کی عمر دراز کرے